Tuesday, September 23, 2025
 

لیاری کو بچایا جائے

 



کراچی کے قدیم علاقے لیاری کی تاریخی حیثیت ہے۔ تقسیم ہند سے قبل کراچی میں لیاری واحد علاقہ تھا جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ لیاری ہمیشہ سے سیاسی اور سماجی تحریکوں کا مرکز تھا۔ یہاں کے قدیم باسی اور مزدور لیڈر عثمان بلوچ اپنی یاد داشتوں میں لکھتے ہیں کہ لیاری نے ہندوستان کی آزادی میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ تحریک آزادی کے عظیم رہنما مولانا عبید اللہ سندھی نے ریشمی رومال تحریک شروع کی تھی تو لیاری کا مدرسہ مظہر العلوم کھڈہ اس تحریک کا اہم مرکز تھا۔ اس مدرسہ کے مہتمم مولانا محمد صادق میمن نے اس تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ عثمان بلوچ کا کہنا ہے کہ کراچی کی بندرگاہ میں کام کرنے والے مزدور جن میں سے بیشترکا تعلق لیاری سے تھا، ان ہی مزدوروں نے سب سے پہلے بندرگاہ کے مزدوروں کی یونین بنائی۔ قیام پاکستان کے بعد لیاری جمہوری تحریکوں کا مرکز رہا۔ 60ء کی دہائی میں لیاری بائیں بازو کی سیاسی تنظیم نیشنل عوامی پارٹی کا مضبوط مرکز رہا۔ لیاری کے سیاسی کارکنوں نے ایوب خان کے خلاف تحریک میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان رہنماؤں نے برسوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ نیپ کے رہنما میر غوث بخش بزنجو جنرل ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے امیدوارکے خلاف صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں کراچی سے کامیاب ہوئے تھے۔ گزشتہ 78 برسوں کے دوران بلوچستان میں چلنے والی ہر سیاسی تحریک میں لیاری نے ایک مرکزکے طور پر قائم رہا۔ جب پیپلز پارٹی بانی ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو پیپلز پارٹی کا سب سے مضبوط مرکز لیاری رہا۔ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا تھا کہ لیاری کو پیرس بنایا جائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1970 میں لیاری میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت قائم ہوئی تو سندھ کی نو منتخب کابینہ کا پہلا اجلاس لیاری میں ہوگا، بھٹو صاحب کو یہ وعدہ یاد تھا۔ جب20دسمبر 1971 کو پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو ممتاز بھٹو کو وزیر اعلیٰ سندھ کے منصب پر فائز کیا گیا اور سندھ کی کابینہ کا پہلا اجلاس لیاری کے ایک میدان میں منعقد ہوا تھا۔ پیپلز پاٹی کی پہلی حکومت میں لیاری میں ہرگھرکو لیز دی گئی، یوں لیاری کے مکینوں کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کا ایوب خان کے دور کا منصوبہ ختم ہوا۔ اس دور میں گھر گھر پانی کے کنکشن دیے گئے۔ اسی طرح لیاری میں گیس کے کنکشن کی تنصیب کا کام بھی پیپلز پارٹی کے دور میں ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں لیاری کے عوام نے ہر احتجاجی تحریک میں حصہ لیا۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران لیاری کے سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی دوسری اور تیسری حکومت میں لیاری کی ترقی کے لیے منصوبے تو بنائے گئے مگر انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی لیاری میں یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ لیاری میں ایک یونیورسٹی اور میڈیکل کالج قائم ہونے چاہئیں۔ عثمان بلوچ اور ان کے ساتھیوں نے لیاری کے مرکز چاکیواڑہ کے بلوچ ہال میں لیاری کے تعلیمی مسائل پر ایک روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ، یوسف مستی خان، پروفیسر نعمان، پروفیسر علی محمد شاہین، پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور اساتذہ اور طالب علموں نے اس کانفرنس میں شرکت کی ۔ کانفرنس کے اعلامیے میں لیاری کے ہر محلے میں ایک پرائمری اور سیکنڈری اسکول، اساتذہ کی کمی دور کرنے کے لیے بی ایڈ کالج، ایک جنرل یونیورسٹی، ایک میڈیکل اور انجنیئرنگ کالج کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔  پیپلز پارٹی نے جب 2008میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے منشور کا اجراء کیا تو ان تعلیمی اداروں کے قیام کا وعدہ کیا گیا تھا، یوں لیاری میں شہید بے نظیر بھٹو کے نام پر ایک یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ اس یونیورسٹی کے قیام کے لیے لیاری ڈگری کالج کی عمارت کو عارضی طور پر حاصل کیا گیا۔ ڈاکٹر اختر بلوچ کی قیادت میں اس یونیورسٹی نے ترقی کی کئی منازل طے کیں مگر پھر انھیں معزول کردیا گیا۔ لیاری کے میڈیکل کی صورتحال قابل قدر ہے مگر لیاری کی سڑکیں مون سون کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئیں۔ لی مارکیٹ سے لیاری جنرل اسپتال کی طرف رخ کر کے سفرکیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گاڑی گڑھوں میں اور پتھروں پر چلنے کی کوشش کررہی ہے۔ موٹر سائیکل سواروں کا ہر روز کا امتحان ہوتا ہے۔ ہر سڑک اور ہرگلی میں گٹر کا پانی ہونا عام سی بات بن گئی ہے۔ بعض اسکولوں کے سامنے اتنا پانی ہوتا ہے کہ اسکول آنا جانا مشکل ہوجاتا ہے۔ مئی اور اگست کی تباہ کن بارشوں میں لیاری کے بیشتر علاقوں میں پانی گھروں میں تو داخل نہ ہوا مگر سیوریج کے ناقص نظام کی بناء پر سڑکوں اورگلیوں میں پانی کھڑا رہا۔ آج کل اس علاقے میں مچھروں کی بھرمار ہے۔ اگست میں تین دن کی بارش سے لیاری ندی میں اتنا پانی آیا کہ ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ لیاری ایکسپریس وے کے قریب لاشاری محلہ اور اطراف کے علاقوں میں پانی داخل ہوگیا۔ اس علاقے کے پرانے مکین ایک سینئر پروفیسر کا کہنا ہے کہ لیاری ایکسپریس وے کے قریب تجاوزات کی بناء پر پانی کو راستہ نہیں ملا۔ پانی نے لاشاری محلہ، میوہ شاہ قبرستان اور نیازی کالونی کی طرف بڑھتے ہوئے بڑا نقصان کیا۔ لیاری میں ہمیشہ سے سڑکوں پر تجاوزات اور چھوٹے پلاٹوں پر کثیر منزل عمارتوں کی تعمیر ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں بسم اللہ بلڈنگ کے منہدم ہونے سے بہت سے افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔ اس عمارت کا ملبہ اٹھا کر لاشوں اور زخمیوں کو سول اسپتال تک پہنچانے کی بناء پر عبدالستار ایدھی کا تعارف اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی وژن پر ہوا تھا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے حادثے کی جگہ کا دورہ کیا تھا اور یہ اعلان کیا تھا کہ آیندہ کوئی عمارت غیر قانونی طور پر تعمیر ہوئی اور گری تو کے ڈی اے کے افسران ذمے دار ہوں گے۔ (اس وقت تک بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی قائم نہیں ہوئی تھی اور کے ڈی اے عمارتوں کے نقشوں کی منظوری اور عمارتوں کی تعمیر کر نگرانی کے فرائض انجام دیتا تھا۔) مگر بھٹو صاحب کی یہ وارننگ گزشتہ صدی کی بات تھی۔ گزشتہ صدی کے آخر ی عشروں میں لیاری میں کئی کئی منزلہ عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اب یہاں کئی کئی منزلہ عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ ان عمارتوں کی تعمیر کے دوران متعلقہ قوانین کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔ 4 جولائی 2025 کو لیاری کے علاقہ بغدادی میں عمارت گرنے سے 24 افراد جاں بحق اورکئی شدید زخمی ہوئے تھے۔ ذرایع ابلاغ پر کئی دن تک اس عمارت کے گرنے کا ماتم ہوتا رہا۔ صرف وزیر بلدیاتی سعید غنی نے متاثرہ عمارت کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت شایع ہونے والی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے عملے کی ملی بھگت سے یہ کئی منزلہ عمارت تعمیر ہوئی تھی۔ انجنیئروں کا کہنا تھا کہ اس بلند عمارت کی تعمیر میں بلڈنگ انجنیئرنگ کے قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوا تھا۔ بہرحال سندھ حکومت کی ہدایت پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے اس علاقے کی نگرانی کرنے والے افسروں کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا اور کئی افسر گرفتار بھی ہوئے مگر اس حادثے کے 15 دن بعد اس خبر نے شہریوں کو حیران کردیا کہ ناقص چالان کی بناء پر ان افسروں کی ضمانتیں قبول کر لی گئیں۔ لیاری کا اس وقت سب سے اہم مسئلہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ہے۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ لیاری میں 16,16گھنٹے تک بجلی بند رہتی ہے۔ لیاری کی آبادی کی اکثریت تقریباً غربت کی لکیر کے قریب زندگی گزار رہی ہے۔ ان لوگوں کے لیے مہنگے بل ادا کرنا ممکن نہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت گھر گھر سولر پینل فراہم کرکے لیاری کے غریب باسیوں کے زخموں پر مرہم رکھ سکتی ہے، مگر شاید اب لیاری سندھ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ لیاری میں پیپلز پارٹی کی بنیاد پڑی، اگر سندھ حکومت نے لیاری پر توجہ نہ دی تو تاریخ میں یہ سیاہ باب کے طور پر لکھا جائے گا، لٰہذا لیاری کو بچایا جائے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل