Tuesday, September 23, 2025
 

مقدّر کا سکندر

 



لگتا ہے خالقِ کائنات کی اِس پر خاص نظر کرم ہے کہ جس کے باعث آج دنیا کی نظروں میں مقدّر کا سکندر بن چکا ہے ۔ اسلامی جمہوریہء پاکستان بھی اور اس کا سپہ سالار بھی۔صرف چند ماہ پہلے تک مایوسی کے پیغامبر ملک کے مستقبل ہی نہیں بقاء کے بارے میں بھی سوال اُٹھارہے تھے۔ صورتحال بلاشبہ بہت مایوس کن تھی، مگر دنیاؤں اور کائناتوں کے خالق کو اپنے نام پر بننے والے ملک کی ذلّت اور بے توقیری گوارہ نہ تھی اور پھر اُس نے اس بستی کو جس کا نام پاکستان ہے، ذلّت کی گہرائیوں سے اُٹھا کر عزّت کی رفعتوں تک پہنچادیا۔ کوئی ناممکن یا مشکل ترین کام کرنے کا اُس کا اپنا طریقہء کار ہے، جس کو انسان سمجھنے سے قاصر ہیں، وہ بعض اوقات صرف کُن کہہ دیتا ہے اور بعض اوقات ایسے اسباب پیدا کرتا ہے جو ہمارے اور آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں جو بظاہر بڑے ناخوشگوار اور نامساعد معلوم ہوتے ہیں مگر کچھ عرصے بعد انھیں میں سے خیر کے پہلو پھوٹتے ہیں اور برکات نمودار ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ بھارت کے عوام ہندو توا کی انتہاپسندانہ اور متشدّدانہ پالیسیوں سے بیزا ر تھے جب کہ وہاںصوبۂ بہار کے انتخابات قریب تھے، لہٰذا مودی کو پلوامہ کی طرح کا کوئی انتخابی اسٹنٹ درکار تھا جسے استعمال کرکے وہ الیکشن جیت جائے۔ لہٰذا سر جوڑے گئے، منصوبے بنائے گئے، سازش تیار ہوگئی اور پھر ایک روز اعلان کردیا گیا کہ کشمیر کے سیّاحتی علاقے پہلگام میں دہشت گری کا واقعہ ہوا ہے، جس میں بیس سے زائد لوگ مارے گئے ہیں۔ فائرنگ کے اس افسوسناک واقعے کے چند منٹ کے اندر قریبی پولیس اسٹیشن میں پہلے سے موجود ایک سرکاری اہلکار نے تحریری درخواست دی، جس میں پہلگام واقعے کی ذمّے داری پاکستان پر ڈال دی گئی، پولیس اسٹیشن کے انچارج نے دی گئی ہدایات اور تحریر کے عین مطابق ایف آئی آر کاٹ دی اور ساتھ ہی اسکرپٹ کے مطابق ہندو توا کے پیروکار میڈیا نے ڈھول بجانا شروع کردیاکہ اس میں پاکستان ملوّث ہے مگر کسی ثبوت یا شہادت کے بغیر اس ڈرامے کو کون مانتا۔ کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا، کسی کی تصویر نہیں دکھائی گئی، کسی کی گفتگو intercept  کرکے نہیں سنائی گئی، کسی ملزم کی شناخت تک نہیں ہوئی اور کوئی ملزم آج تک پکڑا ہی نہیں گیا، مگر مودی اور اس کی حکومت اور میڈیا نے اپنی رَٹ جاری رکھّی کہ ’’یہ پاکستان نے کرایا ہے اور اب پاکستان کو سبق سکھایا جائے گا۔‘‘ اب چونکہ دنیا کے بڑے ملکوں کے پاس حقائق جاننے کے اپنے ذرایع بھی ہیں، وہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس سٹلائٹس کی مدد سے حقائق معلوم کرچکے تھے، لہٰذا کسی ملک نے بھی مودی کے الزامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ مگر مودی کو اس سے غرض نہیں تھی، اس کے پیشِ نظر تو بہار کے انتخابات تھے، جن کے لیے اُس نے اپنے لیے ’’چھپّن انچ چھاتی والا بہادر وزیرِاعظم‘‘ کا امیج تراشنا تھا، جو پاکستان کے خلاف کوئی جارحانہ اقدام کرکے ہی قائم کرسکتا تھا۔ اُسے پاکستان کی کمزور معیشت اور سیاسی عدمِ استحکام سے بھی شہ ملی، لہٰذا اس نے 5/6 مئی کو ہماری جغرافیائی حدود کو پامال کیا اور ہماری حدود کے اندر آکر بہت سی جگہوں پر میزائلوں سے حملہ کیا، جس سے ہمارے شہریوں کا جانی اور مالی نقصان بھی ہوا، مگر ہم نے بھی بھارت کے پانچ طیّارے مارگرائے۔ اس موقع پر کئی بہت سے اہم لوگ چاہتے تھے کہ پاکستان ، بھارت کوجواب نہ دے، بات آگے نہ بڑھے اور وہیں ختم ہوجائے۔ مگر وہی تو تاریخی لمحہ تھا فیصلہ کرنے کا، اس طرح کے مواقع مختلف قوموں کے راہنماؤں اور افواج کے کمانڈروں کو ملتے ہیں ، جو بھی اُس وقت درست فیصلہ کرجائے یعنی اس لمحے کو مُٹھّی میں قابو (seize the moment) کرلے وہ مقدّر کا سکندر قرار پاتا ہے اور وقت کی اسکرین پر انمٹ نقوش چھوڑتا ہے۔ ’جنگ کہیں بڑھ نہ جائے، اسک ے شعلے پورے خطّے میں پھیل جائیں گے، ہماری کمزور معیشت جنگ کا وزن بالکل برداشت نہیں کرسکے گی‘  جیسی آوازوں کو نظر اندار کرتے ہوئے جنرل سیّد عاصم منیر نے وہی فیصلہ کیا جو ایک ایٹمی ملک کے سپہ سالار کو کرنا چاہیے تھا کہ’’ہم حملہ آور بھارت کو جواب دیں گے اور ایسا جواب دیں گے جو وہ ہمیشہ یاد رکھّے گا‘‘ اور پھر ایسا جواب دیا گیا کہ چند گھنٹوں میں ہی حریف چاروں شانے چِت ہوگیا، بھارت کو بے بس کردیاگیا، چھ گنا بڑے دشمن چاروں شانے چت ہوگیا اور وہ بچاؤ بچاؤ کی صدائیں لگاتا ہوا، امریکی صدر ٹرمپ کے پاؤں جا پڑا۔ پاکستان، بھارت کو مکمّل طور پر جَیم کرچکا تھا، وہ اس وقت بھارت کو ناقابلِ تلافی تقصان پہنچا سکتا تھا مگر امریکا نے بیچ میں پڑکر جنگ بند کرادی۔ جنگ بند توہوگئی مگر چند گھنٹوں میں ہی اس کے ایسے اثرات مرتّب ہوگئے جو کئی دھائیوں پر محیط ہوں گے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو بڑے عرصے کے بعد مسرّت و افتخار سے سرشار ہونے کا موقع ملا اور اسرائیلی جارحیّت کا نشانہ بننے والے عرب ملکوں کو پاکستان کی صورت میں ایک قابلِ اعتبار محافظ نظر آنے لگا۔ چار روزہ جنگ کی کوکھ سے برکات مسلسل نمودار ہورہی ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری رہے گا۔ سعودی عرب کا بھی ، قطر کا بھی اور کئی دوسرے عرب ملکوں کا امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدہ تھا جس کے مطابق حملے کی صورت میں امریکا اس ملک کا دفاع کرنے کا پابند تھا، مگر حالیہ سالوں اور مہینوں میں اسرائیل نے مشرقِ وسطیٰ کے سات ممالک پر حملہ کیا اور انھیں نقصان پہنچایا مگر معاہدے کے باوجود امریکا ٹس سے مس نہ ہوا اور کسی ملک کا دفاع نہ کیا اور نہ ہی اسرائیل کو حملہ کرنے سے روکا۔ ان حالات و واقعات نے عرب حکمرانوں کی آنکھیں کھول دیں اور وہ سمجھ گئے کہ اسرائیلی حملے کی صورت میں امریکا ان کی مدد نہیں کرے گا، اس لیے ہمیں اپنے ملک کی سالمیّت کے لیے کوئی اور دوست اور محافظ ڈھونڈنا ہوگا، جو ہماری حفاظت کی صلاحیّت بھی رکھتا ہواور قابلِ اعتبار بھی ہو۔ سعودی عرب کو، جہاں ہمارے مکّہ مدینہ ہیںجو ہماری عقیدتوں اور محبّتوں کے مرکز ہیں، جن پر قربان ہونا ہماری سب سے بڑی آرزو ہے، یہ فیصلہ کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا ہوگا، کیونکہ سعودی حکمران مکّہ مدینہ کے ساتھ پاکستانیوں کی جذباتی وابستگی سے بخوبی واقت ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ مکّہ ، مدینہ والے ملک کی حفاظت اگر کوئی سعودی عرب سے بھی زیادہ خلوص، محبّت اور جذبے سے کرسکتا ہے تو وہ پاکستان ہے، پاکستان کی فوج ہے اور پاکستان کے عوام ہیں۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے فوراً بعد راقم نے لکھّا تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم اور سپہ سالار کو یہ اعلان کردینا چاہیے کہ ’ مکّہ اور مدینہ کا دفاع ہم کریں گے اور اس کے لیے پاکستان کے کمانڈوز اور پاکستان کی ائرفورس سعودی فورسز سے آگے ہو گی اور اس کے لیے کسی معاہدے کی بھی ضرورت نہیں ‘ معاہدہ ہوگیا ہے تو اچھی بات ہے، اس کے ثمرات دونوں ملکوں کو حاصل ہوں گے۔ پاکستان پچھلی ربع صدی سے ایک declared ایٹمی قوّت ہے۔ کچھ عرصے سے اسے معاشی اور سیاسی مسائل کا سامنا ہے مگر پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ جب مئی میں اُس پر جنگ تھونپی گئی تو پاکستان نے اپنی تماتر معاشی کمزوریوں اور سیاسی مسائل کے باوجود یہ ثابت کردیا کہ وہ مالی طور پر کمزور سہی مگر ڈانگ سوٹے کا بہت تگڑا ہے اور جو بھی اس سے جنگ چھیڑے گا، شکست اس کا مقدّر ہو گی۔ عرب ملکوں کو پاکستان کی عسکری صلاحیّت کے بارے میں اگر کچھ تخفّظات تھے تو وہ بھی مئی کی جنگ میں دور ہوچکے ہیں۔ یہ سب اللہ کے فضل و کرم سے ہوا ہے۔کل تک غیر بھی اور اپنے بھی جس ملک کے مستقبل سے مایوس تھے، آج دنیا کے امیر ترین ملک اُس سے تخفّظ مانگ رہے ہیں۔ بیسیوں مرتبہ لکھ چکا ہوں کہ دنیا کے کسی اور ملک کے باشندے کسی غیر ملک میں جا کر نہ اپنے ملک کی سیاست کرتے ہیں نہ ہی ایک دوسرے سے گتھم گتھا اور جُوتم پیزار ہوکر دنیا کو تماشا دکھاتے یہ صرف پاکستانی ہیں جو اپنے گندے کپڑے لندن اور نیویارک کی سڑکوں پر دھوتے ہیں اور انھیں شرم بھی محسوس نہیں ہوتی۔ انھوں نے لندن میں وزیراعظم کے دورے کے موقع پر جو تماشا لگایا وہ پوری پاکستانی قوم کے لیے باعثِ شرم تھا۔ یہ صرف اللہ کی خاص رحمت سے ہوا ہے کہ آج مقدّر کا سکندر بن چکا ہے ۔پاکستان بھی، اس کا وزیرِاعظم بھی اور اس کا سپہ سالار بھی۔ اس وقت دل ے بے اختیار نکل رہا ہے ۔ تو نشانِ عزمِ عالیشان۔۔ ارضِ پاکستان پرچم ِ ستارہ و ہلال رہبرِ ترقّی و کمال سایۂ خدائے ذوالجلال میرا ایمان ہے کہ وطنِ عزیز پر خدائے ذولجلال کا سایہ ہے اور یہ قیامت تک رہے گا۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل