Loading
واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی میزبانی میں ایک اہم ملاقات ہوئی، جس میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے علاوہ ترکیہ، قطر، سعودی عرب، انڈونیشیا، مصر اور متحدہ عرب امارات کے سربراہان شریک ہوئے۔ اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں غزہ میں جاری جنگ کے بعد امن، گورننس اور سیکیورٹی کی صورتحال پر غور کیا گیا۔ اجلاس سے قبل وزیرِ اعظم نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی، اردن کے فرمانروا شاہ عبداللہ دوئم اور انڈونیشیا کے صدر پرابووو سوبیانتو کے ساتھ ملاقات بھی کی جس میں عالمی رہنماؤں کے مابین گرمجوشی سے مصافحہ، غیر رسمی اور بے تکلفانہ گفتگو اور تبادلہ خیال ہوا۔ امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ نے عرب اور مسلم ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں قیامِ امن کے لیے عملی کردار ادا کریں۔ اس حوالے سے امریکا چاہتا ہے کہ مسلم ممالک نہ صرف غزہ میں اپنی افواج تعینات کریں تاکہ اسرائیلی انخلا ممکن ہو بلکہ خطے کی تعمیرِ نو اور اقتدار کی منتقلی کے عمل میں مالی معاونت بھی فراہم کریں۔ صدر ٹرمپ نے اس ملاقات سے قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا دراصل حماس کے مظالم کو انعام دینے کے مترادف ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں لیکن یہ عمل امن کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا غزہ میں فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی بازیابی چاہتا ہے، جن میں سے 38 کی لاشیں حماس کے قبضے میں ہیں۔ صدر ٹرمپ نے الزام لگایا کہ حماس نے حالیہ دنوں میں ایک امن معاہدے کی پیش کش کو مسترد کیا اور جو قوتیں امن کی خواہاں ہیں انہیں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ اجلاس کے دوران مسلم ممالک کے رہنماؤں نے خطے میں امن کے لیے اپنے مؤقف اور تجاویز بھی پیش کیں، تاہم فی الحال کسی مشترکہ لائحہ عمل کا اعلان سامنے نہیں آیا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل