Loading
آخر جب اتنے سارے لوگ اتناسارا بول رہے ہیں تو ہمارا بھی تو آخر زورچلتا ہے اپنی زبان پر اورلوگوں کے کانوں پر بلکہ دماغوں پربھی ۔کچھ عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں اورسن بھی رہے ہیں، جب پاکستان کے لوگوں نے اپنے سارے ’’کام‘‘ چھوڑ کر بولنے ، بولتے رہنے اوربولتے چلے جانے کو اپنا ’’قومی کام‘‘ قومی فریضہ اورقومی وطیرہ بنا لیاہے بلکہ ایک اچھے اورسچے پاکستانی کی نشانی ، شناخت اورپہچان بھی بولنا ، بولتے رہنا اوربولتے چلے جانا ہی قرارپایا ہے بلکہ عام پاکستانی تو صرف خود ہی اپنی استطاعت ، پہنچ اورگنجائش کے مطابق بول رہے ہیں لیکن جو ’’بڑے ‘‘ ہیں اور’’ممتاز‘‘ پاکستانی ہیں، وہ اپنے بولنے کو ناکافی سمجھ کر اپنے لیے اضافی ’’بولو‘‘ بھی رکھنے لگے ہیں جس طرح کرائے کے سپاہی اور بین کرنے والے پرانے زمانے میں رکھے جاتے تھے۔ مقامی اصطلاح میں اضافی اور کرائے کے ’’بولوؤں‘‘ کو مشیر، معاون اور ترجمان وغیرہ کہاجاتا ہے ۔بلکہ سننے میں آیا ہے کہ ان کرائے کے ’’بولوؤں‘‘ نے بولنے ، بولتے رہنے اوربولتے چلے جانے کاکام اتنے زورشورسے شروع کیا ہے کہ سانس لینے کی فرصت نہیں ملتی چنانچہ سانس لینے کے لیے ان ’’بولوؤں‘‘ نے الگ ’’سانسو‘‘ رکھ لیے ہیں جو بولوؤں کے بولتے وقت ان کی جگہ سانس لیتے ہیں ۔ادھر ’’سانسو‘‘ سانس اوپر نیچے کرتے ہیں اورادھر بولو بولتے ہیں ، بولتے رہتے ہیں اوربولتے چلے جاتے ہیں یعنی پھر دیکھیے انداز گل افشانی گفتار،مطلب یہ کہ ڈبل زورشور سے بولنے لگتے ہیں ۔ اس وقت ہماری غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم کے ایک درجن سے کچھ کم اور ہمارے صوبے خیر پہ خیر کے وزیراعلیٰ کے آدھے درجن سے کچھ زیادہ ’’بولو ‘‘ بولنے کی ڈیوٹی کررہے ہیں اوران کے ساتھ ان کے سانسو بھی مصروف ہیں ۔ ایسے میں اگر ہم بھی تھوڑا بہت بولیں تو کیا حرج ہے۔اگرچہ ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں کہ مہکتے جائیں۔معمولی سے کالانعامی ہیں۔ نہ منتخب خاندانی شہنشاہ یعنی ایم پی اے ،ایم این اے نہ سینٹر ، یہاں تک کہ ناظم بھی نہیں اورکسی کچھ کے کچھ بھی نہیں لیکن اس وطن کے شہری تو ہیں اوربولنے کاحق رکھتے ہیں کہ ہرپاکستانی کاکام بولنا، بولتے رہنا اوربولتے چلے جانا ہے ۔ دراصل کچھ عرصہ سے ہم محسوس کررہے ہیں کہ اس ملک کے اصل مالک چونکہ کچھ اورکاموں، کارناموں اور بیانوں میں ازحد مصروف ہیں ۔حالات واقعات، بیانات ،حرکات اورضروریات کے پیش نظر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس ملک میں ایک خصوصی محکمے کی اشد ضرورت ہے۔ صوبائی سطح پر بھی اوروفاقی سطح پر بھی۔ ہمارے خیال میں تو اس خصوصی محکمے کانام ’’الراشی والمرتشی‘‘ ہوناچاہیے لیکن کچھ اورنام بھی زیر غور لائے جاسکتے ہیں ۔ مثلاًامداد ،کرپشن ، ڈیپارٹمنٹ آف لین دین ، محکمہ انصاف وقانون یعنی ففٹی ففٹی ،نصف کی نصف تک ، آدھی تیری آدھی میری، یا تو بھی کھا اورمجھے بھی کھانے دے ۔ کام تو بہرحال جاری ہے ، ہرہرسطح پر وہ وہ گل کھلائے جارہے ہیں جن کی بدبو چاند تک پہنچ رہی ہے۔ ایک شاعر نے یہ بات کہی بھی ہے کہ وہ مہتاب بھی’’بدبو‘‘ سے بھرگیا ہوگا جو چاندنی نے ترے حسن کو ’’چھوا‘‘ ہوگا حالت یہ ہے کہ نوکریاں، تبادلے، پلاٹ، پرمٹ اورفنڈزتو ایک طرف شادی بیاہوں میں بھی اس مبارک رشوت کاچلن ہوگیا ہے۔ ایک دوشادیوں میں جب ہم نے سوکھے چاول کھائے اوراڑوس پڑوس کے لوگوں کو یہ یہ اوراتنی اتنی بوٹیاں ٹھونستے دیکھا۔ تو پوچھنے پر ایک دانائے راز نے بتایا کہ جب بھی کسی شادی بیاہ کی دعوت میں جاؤ، پہلے منتظمین میں سے کسی کو ’’اعتماد‘‘ میں لیا کرو، پھر تمہارے سامنے بوٹیاں ہی بوٹیاں ہوں گی،مطلب یہ کہ ’’کام‘‘ تو پہلے سے بھی کئی گنا اچھا ہو رہا ہے ، سارے جمہوری شہنشاہوں، افسروں کو بھی اپنا پنا حصہ پہنچ رہا ہے ، لیکن حکومت کو کچھ بھی نہیں مل رہا ہے یا زیادہ سے زیادہ مکھن نکلی ہوئی لسی، کیوں کہ فی الحال یہ کام نجی سیکٹر میں ہورہا ہے، اس لیے اس کے لیے باقاعدہ رولز اینڈ ریگولیشنز بنا کر لیگلائز کردیاجائے ۔ ایک فلم کاسین یادآرہا ہے جس میں بیچارا گووندا ایک حبشی کے ہاتھوں بری طرح پٹ رہا ہے ، گووندا کسی طرح جان چھڑا کرکمرے سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ ظالم حبشی اسے کھینچ کردوباہ کمرے لے جاتا ہے اورمشق ستم کرتا ہے ، آخر میں بیچارہ لیرلیر لباس اورٹوٹا پھوٹا بدن لے کر باہرنکلنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ مارنے پیٹنے کابھی کوئی طریقہ ہوناچاہیے ، حکومت کو چاہیے کہ مارنے پیٹنے کے لیے بھی قانون سازی کرنے اورمارنے پینٹے کابھی کوئی طریقہ کوئی حد کوئی اصول ہوناچاہیے کہ کتنا اورکیسے مارنا چاہیے اورہم یہی کہنا چاہتے ہیں کہ نوکریاں ،تبادلے اورپلاٹ پرمٹ کی تقسیم کے لیے کوئی قاعدہ یا نرخنامہ اورسرچ نامہ ہوناچاہیے اورڈیپارٹمنٹ کا بھی حصہ ہوناچاہیے۔ آخر مواقع تو حکومت فراہم کرتی ہے،اس سلسلے میں بھی ہمارے لیے ایک فلمی مثال موجود ہے ۔ ایک فلم میں پولیس کے سارے تھانیدار بیٹھے ہیں اورایک شخص تھانوں کی نیلامی کرتا ہے۔ وہ تھانے کا نام لیتا ہے، حاضرین بولی دیتے ہیںاور جس کی بولی زیادہ ہوتی ہے، اسے اس تھانے کا چارج دے دیاجاتا ہے ۔ بڑا دلچسپ فلمی سین ہے۔ یہاں بھی ایسا کچھ طریقہ ہوناچاہیے۔ اب تو چپکے چپکے سارے کام ہوجاتے ہیں ۔ وزارتوں وغیرہ کابھی یہی حال ہے، جب سب کو اپناحصہ بقدرجثہ مل جاتا ہے لیکن حکومت کے خزانے میں کچھ بھی نہیں پہچتا۔ اگر ایک الگ سے ڈیپارٹمنٹ قائم ہوجائے تو یہ بے ترتیب سلسلہ ترتیب کے ساتھ چلتا رہے گا ۔ اوراس سلسلے میں کوئی خاص دشواری بھی پیش نہیں آئے گی کیوں کہ ایک تو منتخب جمہوری شہنشاہ اب کافی تجربہ کارہوچکے ہیں اوردوسرے یہ جو انصافیوں کے بانی کادورگزا ہے، اس نے ہمارے صوبے میں بہت سارے مواقع پیداکردیے ہیں اوراس کام کوہرجگہ پھیلادیاہے ۔تجربہ کار اورکوالی فائیڈ قسم کے ماہرین بھی پیدا ہوچکے ہیں اوروہ اپنا اپنا حصہ لے چکے ہیں بلکہ ایک اچھی بات یہ بھی ہوچکی ہے کہ بانی کے اس دورمیں صوبہ اچھا کماؤ بھی ہوگیا ہے۔ ٹھیک ٹھیک مقامات پر ٹھیک ٹھیک لوگ ، بھی پہنچائے جاچکے ہیں، لہٰذا محکمہ کے قیام اورکام میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی کیوں کہ میٹریل موجود ہے، اسے صرف جوڑنا باقی ہے۔ بنیں گے اورستارے اب آسماں کے لیے
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل