Loading
پاکستان اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کے باعث ہمیشہ بڑی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ روس کی گرم پانیوں تک رسائی کی خواہش ہو یا امریکا کا افغانستان میں طالبان کو بزورِ طاقت زیر کرنے کا منصوبہ ، ہر دونوں صورتوں میں پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے بنیادی حیثیت رکھتا رہا ہے۔ روس کی گرم پانیوں تک رسائی کے خواب کو چکنا چور کرنے والے دراصل پاکستانی اذہان ہی تھے جنھوں نے اپنی سلامتی کو مقدم رکھا۔ ادھر امریکی صدر نے عندیہ دیا ہے کہ وہ افغانستان میں بگرام ایئر بیس واپس لینا چاہتے ہیں تاکہ خطے میں اپنی موجودگی قائم رکھتے ہوئے چین پر کڑی نظر رکھ سکیں۔ افغانستان نے بگرام ائر بیس امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کیا ہے۔دیکھتے ہیں، آگے کیا ہوتا ہے۔ چین بلا شبہ آج دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت کے طور پر سامنے آچکا ہے جس نے عالمی معیشتوں کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ پاکستان اور چین کے دیرینہ برادرانہ تعلقات کے نتیجے میں چین نے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور مشہور زمانہ ’چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری ‘منصوبہ اب تکمیل کے قریب ہے۔ یہ راہداری نہ صرف چین کے لیے گرم پانیوں کے دروازے کھولے گی بلکہ اس کی مصنوعات کم وقت اور کم لاگت کے ساتھ دنیا بھر تک پہنچ سکیں گی۔ ساتھ ہی یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کی مضبوطی میں بھی سنگِ میل ثابت ہوگا۔ گوادر کی بندرگاہ اور بین الاقوامی ہوائی اڈہ چین کے تعاون سے مکمل ہوچکے ہیں، اب صرف ان کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں بدامنی اور دہشت گردی میں بھارتی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ آئے روز فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے دہشت گرد اور ان کی شناخت اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت بلوچستان کی صورتحال بگاڑ کر چین کی تجارت کو متاثر کرنے کی سازش میں مصروف ہے۔پاکستان کا یہ منفرد محلِ وقوع جہاں ایک طرف ہمارے لیے عظیم امکانات کا دروازہ کھولتا ہے، وہیں ہمیں دشمنوں کا نشانہ بھی بناتا ہے۔ بلوچستان کی صورتِ حال اس کی زندہ مثال ہے۔ امریکا کی افغانستان میں دوبارہ قدم جمانے کی خواہش پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے تاریخی دفاعی معاہدے کے بعد سامنے آئی ہے۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں کی موثر سفارت کاری سے یہ معاہدہ ممکن ہوا ، اگر چین کے ساتھ ہماری دوستی ہمالیہ کی چوٹیوں سے بلند ہے تو سعودی عرب کے ساتھ ہمارا تعلق اسلام کے انمٹ رشتے سے جڑا ہے جسے کوئی طاقت جدا نہیں کرسکتی۔مجھے وہ دن آج بھی یاد ہیں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کے ذریعے دنیا کو ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت پورے عالمِ اسلام میں جشن منایا گیا تھا۔ سعودی عرب اگرچہ دنیا کے کئی ملکوںخصوصاً امریکا اور بھارت میں سرمایہ کاری رکھتا ہے مگر اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اس نے پاکستان کو ترجیح دی ہے۔ سعودی حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے پاس موجود امریکی اسلحہ اور دفاعی نظام دراصل ایک مفلوج ڈھانچہ ہے جو امریکی مرضی کے بغیر حرکت میں نہیں آ سکتا۔ اس کی ایک جھلک ہم نے حال ہی میں دیکھی جب اسرائیل نے قطر پر حملہ کیا۔ قطر کے پاس جدید ترین دفاعی نظام موجود تھا لیکن وہ نظام حرکت میں نہ آ سکا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان یہ دفاعی معاہدہ یقیناً دور رس نتائج کا حامل ہے۔ امریکا اس کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے، اس کے اشارے ملنا شروع ہو چکے ہیںتاہم امریکی اپنی مفاد پرستی اور موقع شناسی کے لیے مشہور ہیں۔ آج کی دنیا میں یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ وہ اس معاہدے کو کس طرح ہضم کرتے ہیں اور سعودی عرب کی کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا مستقبل کیا رخ اختیار کرتا ہے۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اس موقع پر مجھے اپنے علاقے کی ایک کہاوت یاد آگئی ۔ ہماری وادیِ سون چونکہ پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے، اس لیے وہاں باربرداری کے لیے اونٹوں کا استعمال عام تھا۔ میرے بچپن میں گندم اور دوسری اجناس کھیتوں سے گھروں تک پہنچانے کے لیے ٹریکٹر یا جدید ذرایع موجود نہ تھے، اس لیے اونٹ ہی سہارا تھے۔ آج بھی پہاڑی چوٹیوں سے باربرداری کے لیے اونٹوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ گاؤں میں چند گھرانے اونٹ پالتے تھے اور انھی کے ذریعے روزی کماتے۔ فصل کی کٹائی کے بعد وہ خود ہی اجناس اونٹوں پر لاد کر ہمارے گھر تک پہنچاتے۔ ہمارے گھر کی ڈیوڑھی کے دروازے اتنے کشادہ اور بلند تھے کہ اونٹ بھری ہوئی بوریاں لے کر اندر داخل ہو جاتے اور صحن میں بیٹھ کر سامان اتارتے، پھر واپس چلے جاتے۔اس لیے ایک کہاوت آج بھی زبان زدِ عام ہے ’’اگر اونٹ والوں سے دوستی رکھنی ہو تو دروازے کشادہ رکھنے چاہئیں‘‘۔ آج ہم نے عرب کے شتر بانوں سے اپنی دوستی مزید مضبوط کر لی ہے۔ دعا کیجیے کہ یہ دوستی ہمیشہ قائم رہے اور کسی کی نظر نہ لگے۔ ہمارے دروازے کشادہ رہیں تاکہ دوستوں کی سواریاں ہمارے دالانوں میں بلارکاوٹ آتی جاتی رہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل