Loading
ملک میں مہنگی طبی سہولیات کے باعث عوام کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔ مختلف حکومتوں نے صحت کارڈ کے نام سے عوام کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کے منصوبے متعارف کرائے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے ماضی کی پنجاب حکومت کے اس منصوبے پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کا نام انصاف صحت کارڈ رکھ کر عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ جیسے پی ٹی آئی کا یہ عوام کو طبی سہولیات کا پہلا پروگرام ہے جب کہ اس کا آغاز (ن) لیگ کی حکومت نے کیا تھا جو بعد میں پنجاب صحت کارڈ کے نام سے بحال ہوا اور ضرورت مند اس پنجاب صحت کارڈ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جس کے تحت مخصوص بیماریوں کے علاج میں سہولت دی جا رہی ہے جس میں توسیع کی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام فائدہ اٹھا سکیں۔ مریم نواز کی حکومت نے لاہور کے سرکاری اسپتالوں پر ذاتی توجہ دے کر بہتری لانے کی کوشش کی ہے اور ڈاکٹروںکو نظم و ضبط کا پابند بنایا ہے، ان سے وہاں مریضوں کی تعداد بڑھی ہے۔ سرکاری شفاخانوں میں ڈاکٹروں کی آمد 9 بجے کے بعد ہی شروع ہوتی ہے جہاں ڈاکٹروں کی تعداد محدود اور مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور دوپہر تک بعض مریضوں کا نمبر ہی نہیں آتا اور مایوس ہو کر لوٹ جاتے ہیں اور گزشتہ روز اور جلد آتے ہیں کیونکہ سرکاری اسپتالوں میں علاج تقریباً سستا ہے جب کہ سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرز مغرب کے بعد اپنے نجی کلینکس میں مریضوں سے ہزار روپے یا زائد فیس لے کر ان کا علاج کرتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی اور رش کا بعض بے حس لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں رش اس لیے بڑھا ہے کہ یہ ڈاکٹر اسپتال کی سرکاری فیس پر مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں مگر مریض زیادہ اور سرکاری اوقات محدود ہیں اور سرکاری ڈاکٹر کی 8گھنٹے ڈیوٹی مقرر ہے اور وہ جلدی چلے جاتے ہیں کیونکہ انھوں نے ذاتی کلینک کھولے ہوتے ہیں یا انھوں نے دیگر نجی اسپتالوں کو بھی وقت دیا ہوتا ہے جہاں ان کی فیس اسپتال مقرر کرتے ہیں جس میں نجی اسپتال کا بھی حصہ ہوتا ہے جو بہت زیادہ ہوتی ہے۔ بعض شہروں میں فلاحی اور نجی اداروں نے ٹرسٹ بنا کر اسپتال بنا رکھے ہیں اور ماہر ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جہاں مختلف ٹیسٹ بھی ہوتے ہیں اور ان کی فیسیں نجی اسپتالوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں جہاں آپریشن بھی ہوتے ہیں کم فیسوں کے باعث مریضوں کا رش بھی زیادہ ہوتا ہے۔ بعض ٹرسٹ کے زیر اہتمام اسپتالوں میں انتظامیہ کے غلط فیصلوں کی وجہ سے مریض کم ہوگئے ہیں۔ملک بھر میں دوا ساز کمپنیاں دواؤں کے نرخ بڑھا بڑھا کر بھی مطمئن نہیں، متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے ہیں، اس طرح مریضوں کو مہنگی دوائیں فروخت کی جا رہی ہیں۔ سرکاری کنٹرول میں شعبہ ہیلتھ کی کارکردگی کسی دور میں بھی اچھی نہیں رہی ہے ۔ ادویات کی مہنگائی کے بارے میں ارباب اختیار کو بھی یقیناً پتہ ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبائی حکومتوں کی ذمے داری بن چکا ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ صوبائی حکومتوں کے زیر اہتمام چلنے والے سرکاری شفاء خانوں میں مریضوں کے ساتھ زیادہ اچھا سلوک نہیں ہوتا‘ ادویات تقریباً ملتی ہی نہیں ہیں ۔ سرکاری اسپتالوں میں موجود ٹیسٹ لیبارٹریز اکثر اوقات خراب رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے مریضوں کو نجی شعبے میں قائم لیبارٹریز سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔اب تو چیریٹی اداروں نے بھی اپنے اسپتالوں سے باہر کولیکشن سینٹر بنا رکھے ہیں ۔ یہ لیبارٹریز انتہائی مہنگی ہیں۔ صوبائی حکومتوں کو چاہیے تھا کہ وہ صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دیتیںلیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ پہلے جو اسپتال وفاق کے زیر نگرانی چلتے تھے ان کی کارکردگی پھر بھی بہتر تھی لیکن اب سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی خاصی زوال پذیر ہے۔ مہنگی طبی سہولتوں کی وجہ سے عام آدمی کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس جانب توجہ دیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل