Loading
دنیا کی تاریخ میں کبھی کبھار ایسے کردار سامنے آتے ہیں جو بظاہر کمزور اور تنہا ہوتے ہیں لیکن وقت کے جبر کے سامنے ایک آہنی دیوار بن جاتے ہیں۔ ان کی آواز میں صداقت کی وہ گونج ہوتی ہے جو بڑے بڑے ایوانوں کو ہلا دیتی ہے۔ سویڈن کی کم عمر لڑکی گریٹا تھنبرگ بھی انھی میں سے ایک ہے، وہ محض ایک فرد نہیں بلکہ اس نسل کی علامت ہے جو زمین کے مستقبل کے لیے فکر مند ہے اور جو طاقتوروں کو للکارنے سے نہیں ڈرتی۔ گریٹا نے جب اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں آنکھوں میں آنسو بھرکر یہ کہا کہYou have stolen my dreams and my childhood تو اس کی آواز میں صرف ایک فرد کا دکھ نہیں تھا، یہ پوری نسل کا نوحہ تھا۔ یہ وہ صدائیں تھیں جو ان بچوں کی زبان سے بھی نکلتی ہیں جو غزہ کے کھنڈرات میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی لاشیں ڈھونڈتے ہیں۔گریٹا کا دکھ اور فلسطین کے بچوں کا کرب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ فلسطین کی سرزمین انبیاء اور تہذیبوں کا گہوارہ رہی ہے لیکن پچھلی صدی میں یہ سامراجی طاقتوں کے منصوبوں اور اسرائیلی بستیوں کے قیام کی بھینٹ چڑھ گئی۔ 1948میں جب لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے نکالے گئے تو یہ دن ان کے لیے قیامت ثابت ہوا۔ یوم النکبہ کے بعد سے آج تک فلسطین جل رہا ہے، بستیوں پر قبضے ہو رہے ہیں، زیتون کے باغ اجاڑے جا رہے ہیں، بچوں کو قید کیا جا رہا ہے، عورتوں اور بوڑھوں کو ظلم سہنا پڑ رہا ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینی عوام کی مزاحمت کبھی ختم نہیں ہوئی۔ گریٹا کی آواز میں یہی مزاحمتی لہجہ سنائی دیتا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ زمین کو تباہ کرنے والے وہی ہیں جو فلسطین پر ظلم کے حامی ہیں۔ جو طاقتیں فضا کو آلودہ کرتی ہیں جو سمندروں کو زہریلا کرتی ہیں۔ جو تیل اور اسلحے کے لیے دنیا کو برباد کرتی ہیں، وہی طاقتیں اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرتی ہیں اور فلسطینی عوام کے خون کو نظر انداز کرتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی اس ہوس نے نہ صرف ماحول کو تباہ کیا ہے بلکہ انسانیت کو بھی برباد کر دیا ہے۔ آج جب ہم دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک طرف لاکھوں ڈالر اسلحے پر خرچ ہوتے ہیں اور دوسری طرف غزہ کے بچے بھوک اور ملبے کے نیچے دم توڑ رہے ہیں۔ ایک طرف انسانی حقوق کے نعرے ہیں اور دوسری طرف فلسطینی پناہ گزین خیموں میں سردی اور بھوک سے لڑ رہے ہیں۔ یہی تضاد ہے جسے گریٹا نے دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ اس نے کہا کہ تم بڑے بڑے وعدے کرتے ہو لیکن حقیقت میں تم جھوٹ بولتے ہو اور مستقبل چرا لیتے ہو۔ آج کی دنیا میں امید کے کچھ چراغ بھی روشن ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں سے بہادر لوگ کشتیوں اور جہازوں میں امداد بھر کر غزہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ وہ دوائیں کھانے پینے کی اشیاء اور ہمدردی کے پیغام لے کر محاصرے کو توڑنے نکلتے ہیں۔ اسرائیلی بحریہ ان کشتیوں کو روکتی ہے کارکنوں کو گرفتار کرتی ہے لیکن پھر بھی نئی کشتیاں نکلتی ہیں۔ یہ منظر بتاتا ہے کہ فلسطین کی جدوجہد ایک عالمی ضمیر کی صدا بن چکی ہے۔ یہ کشتیوں کا قافلہ اس بات کی علامت ہے کہ ظلم کے اندھیروں میں بھی روشنی بجھائی نہیں جا سکتی۔ گریٹا کا وجود اسی روشنی کا حصہ ہے۔ وہ ایک لڑکی ہے لیکن پوری دنیا کے نوجوان اس کی آواز میں اپنی آواز ڈھونڈتے ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ ہم تمہیں معاف نہیں کریں گے اور یہ وہی جملہ ہے جو فلسطین کے شہید بچوں کی آنکھوں میں لکھا ہوا ہے۔ ایک سویڈش لڑکی اور ایک فلسطینی بچہ دونوں ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں کیا دنیا میں انصاف ممکن ہے؟ کیا زمین اور انسان کو بچایا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب آج بھی کھلا ہے، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ گریٹا تھنبرگ اور فلسطین ایک ہی جدوجہد کے دو چہرے ہیں۔ ایک ماحولیاتی تباہی کے خلاف لڑائی ہے اور دوسری قومی آزادی کی جنگ۔ دونوں کا دشمن ایک ہے سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام۔ دنیا اگر واقعی کچھ کرنا چاہتی ہے تو اسے زمین اور فلسطین دونوں کے حق میں فیصلہ دینا ہوگا کیونکہ زمین کی بقا اور انسان کی آزادی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے۔ جیسا کہ فلسطینی شاعر محمود درویش نے کہا تھا۔ ’’ ہمیں صرف ایک چیز سے انکار ہے غلامی سے۔‘‘ یہی وہ صدا ہے جو گریٹا کی آنکھوں میں آنسو بن کر جھلکتی ہے اور فلسطین کے بچوں کے لہو میں بہتی ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں جب نوجوان سڑکوں پر نکلتے ہیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں یا جنگ و ظلم کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو وہ صرف کسی مخصوص علاقے یا قوم کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے آواز بلند کر رہے ہوتے ہیں۔ گریٹا تھنبرگ کی جدوجہد بھی اسی عالمی بیداری کی علامت ہے۔ وہ ہر اس طاقت کے خلاف کھڑی ہوتی ہے جو زمین کو تباہ کر رہی ہے جو مظلوموں کی آہوں کو نظر انداز کرتی ہے اور جو دنیا کو صرف منافع کی نظر سے دیکھتی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف ایک قوم کے ساتھ ظلم نہیں بلکہ پوری دنیا کے اجتماعی ضمیر کی آزمائش ہے۔ آج کی دنیا میں میڈیا، معیشت اور سیاست پر چند طاقتور ممالک اور کارپوریشنز کا قبضہ ہے۔ یہ قوتیں طے کرتی ہیں کہ کون سا ظلم قابلِ مذمت ہے اور کون سا ضروری نقصان۔ گریٹا کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان قوتوں کے اس دہرے معیار کو للکارتی ہے۔ جب وہ اقوامِ متحدہ جیسے عالمی فورمز پر سوال اٹھاتی ہے تو وہ صرف ماحولیاتی تباہی کی بات نہیں کرتی بلکہ اس اخلاقی زوال کی بھی نشاندہی کرتی ہے جس میں انسانیت منافع کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع نہیں بلکہ نوآبادیاتی سوچ، نسل پرستی اور سامراجی مفادات کی داستان ہے۔ گریٹا کی باتوں میں جب وہ اس بات کا ذکر کرتی ہے کہ زمین کو تباہ کرنے والے ہی فلسطینیوں پر ظلم کرتے ہیں تو وہ اس گہرے تعلق کو واضح کرتی ہے جو ماحولیاتی انصاف اور انسانی حقوق کے درمیان موجود ہے۔ ماحولیاتی تباہی اور سیاسی جبر دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ غزہ کی تباہ شدہ عمارتیں زہریلا پانی مٹی میں ملا ہوا بارود یہ سب ایک مشترکہ سانحے کی علامتیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے نوجوانوں کو اب ایک مربوط جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی تحریک جو ماحولیاتی تحفظ انسانی حقوق، آزادی اور سماجی انصاف کو یکجا کرے۔ جب فلسطین کا بچہ اور گریٹا تھنبرگ ایک ہی سوال پوچھتے ہیں کہ ’’ کیا انصاف ممکن ہے؟‘‘ تو یہ صرف ایک سوال نہیں بلکہ آنے والے کل کا منشور ہے۔ اس سوال کا جواب صرف نعرے یا قراردادوں میں نہیں بلکہ عملی اقدامات میں ہے۔ وہ اقدامات جو طاقت کے توازن کو بدل سکیں جو زمین کو بچا سکیں اور جو انسان کو غلامی جبر اور استحصال سے نجات دلا سکیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل