Tuesday, October 14, 2025
 

خیبرپختونخوا؛ خواجہ سراؤں کا بھتہ نہ دینے پر ٹارگٹ کلنگ اور پولیس پر ضلع بدری کے الزامات

 



خیبرپختونخوا کے خواجہ سراؤں نے پولیس کی جانب سے غیر قانونی طور پر ضلع بدر کیے جانے کے خلاف عدالت سے رجوع کرلیا ہے اور کہا ہے کہ آئے روز بھتے کے لیے کالز آرہی ہیں جبکہ بھتہ نہ دینے پر اب تک 195 خواجہ سراؤں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ پشاور پریس کلب میں ٹرانس جینڈرز کمیونٹی آرگنائزیشن کی صدر فرزانہ ریاض نے کمیونٹی کی نائب صدر ماہی گل کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ عدالتوں میں مقدمات زیر التوا ہونے کے باوجود بھتہ خور، اغوا کار اور 195 خواجہ سراؤں کے قاتل آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس علاقہ ناظمین اور مشران کا سہارا لے کر ان کے خلاف محاذ بنا کر ہمارے گھروں پر چڑھائی کرتی ہے، تشدد کا نشانہ بناتی ہے اور پھرانہیں ضلع بدر کرنے کے نوٹسز جاری کیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے انصاف کے لیے کئی دروازے کھٹکھٹائے لیکن ہر طرف انہیں دھتکارا گیا تاہم پشاور ہائی کورٹ نے ان کی آواز سنی اور انصاف فراہم کرنے کے لیے آئی جی خیبر پختونخواہ اور چیف کیپٹل سٹی پولیس سے جواب طلب کیا۔ انہوں نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ میں آج ہمارے کیس کی سماعت تھی لیکن دوسری جانب سے جب کوئی جواب جمع نہیں کیا گیا جس پر عدالت نے انہیں چار نومبر تک مہلت دی ہے کہ وہ جواب جمع کرائیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ صوابی، نوشہرہ، چارسدہ اور دیگر علاقوں میں خواجہ سراؤں کے ساتھ ہونے والا ناروا ظلم بند کیا جائے، آئے روز خواجہ سراؤں کو بے دخلی کے نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں اور انہیں ضلع بدر کیا جا رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہم خواجہ سرا نہیں بلکہ دشمن ملک کے شہری ہوں۔ انہوں نے کہا ہمارے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے، جس میں پولیس پیش پیش آئے روز پہلے علاقہ مشران کو پولیس اکٹھا کرتی ہے اور پھر ناظمین کو اکٹھا کر کے ایک میٹنگ کی جاتی ہے اور پھر عوام کو ملا کر خواجہ سراؤں کے گھروں پر اور ڈھیروں پر چڑھائی کی جاتی ہے اور ان کے سی سی کیمرے بھی غائب کر دیے جاتے ہیں اور بعد میں انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں ضلع بدر کر دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوابی ہے جہاں پر خواجہ سرا نسیمہ اور دیگر خواجہ سراؤں کو 15 دن کے اندر اندر ضلع بدر کیے جانے کا نوٹس جاری کیا گیا اور ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر ان کو ضلع بدر کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح کے واقعات چارسدہ سوار ہری پور، بٹ خیلہ، بونیر اور نوشہرہ میں بھی دہرائے گئے، اس سلسلے میں ہم نے پولیس کے اعلیٰ حکام سے بھی رابطے کیے لیکن یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ حکومت نے ہمارے لیے سرکاری نوکریوں کا اعلان کیا لیکن جب ہم نوکریاں حاصل کرنے پہنچے تو ہمیں کہا گیا کہ آپ کا تو ریکارڈ ہی نہیں ہے، پی ٹی آئی کی حکومت کے 5 سال قبل کے اسپتالوں میں ٹرانسجینڈر کے لیے علیحدہ بیڈ کے وعدے پر چھ سال بعد بھی عمل نہیں ہو سکا۔ فرزانہ ریاض نے کہا کہ نوشہرہ اور صوابی میں پولیس کی نگرانی میں خواجہ سراؤں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، ہماری آئی جی خیبر پختونخواہ سے درخواست ہے کہ اس سلسلے کو بند کیا جائے اور ہمیں تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ ہم بھی معاشرے کا ایک حصہ ہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل