Wednesday, October 15, 2025
 

یاسر عرفات کے بھتیجے کی مغربی کنارے واپسی، حماس کے سیاسی مستقبل کا نیا نقشہ تیار

 



رام اللہ: فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے بھتیجے ناصر القدوہ چار سال بعد خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے مغربی کنارے واپس آ گئے ہیں۔ انہوں نے غزہ کے بعد امن کے قیام کے لیے ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس میں حماس کو سیاسی جماعت میں تبدیل کرنے اور فلسطینی حکومت کی اصلاحات پر زور دیا گیا ہے۔ ناصر القدوہ نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی میں بدعنوانی کے خاتمے اور صدر محمود عباس کی جماعت فتح میں گہرے اصلاحی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کا اعتماد بحال کرنا پہلا اور سب سے اہم قدم ہے۔ فلسطینی رہنما نے کہا کہ ’’ہم نے عوام کا اعتماد کھو دیا ہے اور جب تک اسے واپس نہیں لاتے، کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔‘‘ ناصر القدوہ 2021 میں فتح سے نکالے جانے کے بعد مغربی کنارے چھوڑ گئے تھے۔ انہوں نے اس وقت اپنی آزاد انتخابی فہرست بنائی تھی، جس پر محمود عباس نے ناراضی ظاہر کرتے ہوئے الیکشن ہی منسوخ کر دیا تھا۔ تاہم حال ہی میں صدر عباس نے انہیں عام معافی دے کر دوبارہ جماعت میں شامل کر لیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خان یونس میں پیدا ہونے والے ناصر القدوہ کے عرب ممالک سے تعلقات اور حماس سے رابطے انہیں غزہ کی آئندہ حکومت میں اہم کردار دے سکتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حالیہ بیان کے بعد غزہ کی مستقبل کی حکومت پر عالمی توجہ بڑھ گئی ہے۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ میں ایک بین الاقوامی زیرِنگرانی تکنیکی حکومت قائم کی جائے گی، جس کے تحت نئی فلسطینی پولیس تعینات ہوگی۔ القدوہ کے مطابق، حماس کو اپنی انتظامی اور عسکری طاقت ایک نئے فلسطینی ادارے کے سپرد کرنی ہوگی، تاہم انہیں سیاسی کردار کی اجازت دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حماس کے کارکنوں کو یقین دہانی کرائی جانی چاہیے کہ ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی اور انہیں سیاسی زندگی میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید تجویز دی کہ غزہ کے لیے ایک ’’کونسل آف کمشنرز‘‘ بنائی جائے جو فلسطینیوں کے زیرِانتظام ہو، البتہ بین الاقوامی نگرانی بھی قابلِ قبول ہے۔ ان کے مطابق غزہ کو فلسطینیوں کے ہاتھ میں رہنا چاہیے اور وہاں انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔ ناصر القدوہ نے کہا کہ فلسطینی اداروں میں کرپشن خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، جسے ختم کیے بغیر کوئی بھی نظام کامیاب نہیں ہوگا۔ فلسطینی تجزیہ کار ہانی المصری نے کہا کہ القدوہ کا کردار اہم ہوسکتا ہے لیکن فلسطینی دھڑوں کے درمیان اتفاقِ رائے کے بغیر کوئی شخص اکیلا کامیاب نہیں ہوسکتا۔  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل