Loading
آئی ایم ایف نے ورلڈ اکنامک آؤٹ لُک رپورٹ جاری کردی جس میں اس سال معاشی شرح نمو اور مہنگائی کے مقررہ حکومتی اہداف حاصل نہ ہونے کا خدشہ ظاہرکیا گیا ہے۔ موجودہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کی شرحِ نمو 3.6 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ مالی سال 2026 کے اختتام تک افراطِ زر 8 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے، بے روزگاری کی شرح 7.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف نے توسیعی فنڈ سہولت (EFF) کے تحت پاکستان کے ساتھ 1.2 ارب ڈالر کے قرض پروگرام پر اسٹاف لیول معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔ آئی ایم ایف کے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا معاشی استحکام بتدریج بہتر ہو رہا ہے، مارکیٹ کا اعتماد بحال ہوا ہے اور 14 سال بعد کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں آیا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ نے پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال پر نہ صرف تبصرہ کیا ہے بلکہ مستقبل کے لیے بعض پیش گوئیاں بھی کی ہیں جن کا اثر ملک کی پالیسیوں، عوامی اعتماد، اور بین الاقوامی تعلقات پر پڑے گا۔ یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک نے ابھی ابھی آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ طے کیا ہے، جسے وزیراعظم نے پاکستان کی معاشی پالیسیوں پر عالمی ادارے کا اعتماد قرار دیا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی تازہ ترین رپورٹ نے پاکستان کی معاشی سمت کے حوالے سے ایک پیچیدہ اورکثیرالجہتی منظر نامہ پیش کیا ہے۔ رپورٹ میں رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی جی ڈی پی کی شرحِ نمو 3.6 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جو اگرچہ گزشتہ برسوں کی نسبت کچھ بہتری کی طرف اشارہ کرتی ہے، لیکن حکومت کی جانب سے مقررکردہ اہداف سے کم ہے۔ اسی طرح افراطِ زر کے بارے میں بھی رپورٹ میں محتاط انداز اپنایا گیا ہے۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہنگائی میں کسی حد تک اعتدال آنے کی امید ہے، لیکن یہ مکمل طور پر قابو میں نہیں آئے گی۔ مزید تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ رپورٹ میں بے روزگاری کی شرح 7.5 فیصد تک برقرار رہنے کا امکان ظاہرکیا گیا ہے۔ ایک ایسے ملک کے لیے جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہے، یہ شرح نہ صرف معاشی پالیسیوں کی ناکامی کا مظہر ہے بلکہ اس کا سماجی تانے بانے پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ بے روزگاری میں اضافے سے غربت، جرائم اور سماجی بے چینی میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس کے سیاسی نتائج بھی دور رس ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اس میں موسمِ گرما 2025کے ممکنہ سیلابوں کے اثرات کو شامل نہیں کیا گیا۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے، جہاں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات روز بروز شدید ہو رہے ہیں، یہ پہلو خاص طور پر اہم ہے۔ حالیہ برسوں میں سیلابوں نے پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالرکا نقصان پہنچایا ہے، فصلیں تباہ ہوئیں، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، اور انفرا اسٹرکچرکو شدید نقصان پہنچا، سیلاب پر قابو نہ پایا گیا اور پچھلے ادوارکی مانند اس کے منفی اثرات میں کمی نہیں ہوتی تو یہ معاشی تخمینے حقیقت سے بہت دور ہو سکتے ہیں۔ ان تمام اعداد و شمار اور خدشات کے باوجود، حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے اسٹاف لیول معاہدے کو پاکستان کی معاشی پالیسیوں پر عالمی اداروں کے اعتماد کی علامت قرار دیا ہے۔ یہ بیانیہ سیاسی طور پر قابلِ فہم ہے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدے حکومتی کارکردگی کے لیے ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں، تاہم اس کے ساتھ ایک سادہ مگر تلخ حقیقت جُڑی ہے کہ آئی ایم ایف کی تائید کا مطلب عوام کے لیے فوری ریلیف نہیں ہوتا۔ عموماً ان معاہدوں کے تحت حکومت کو سخت مالیاتی اقدامات کرنے پڑتے ہیں، جن میں سبسڈی کا خاتمہ، ٹیکسوں میں اضافہ اور پبلک سیکٹر کے اخراجات میں کٹوتیاں شامل ہوتی ہیں، یہ سب اقدامات براہ راست عام آدمی پر بوجھ ڈالتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ معاشی اصلاحات ایک دقت طلب عمل ہیں اور ان کے ثمرات فوری طور پر نظر نہیں آتے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک اصلاحات کی سمت درست نہ ہو، حکمتِ عملی شفاف نہ ہو اور نچلی سطح پر مؤثر عملدرآمد نہ ہو، تب تک محض معاہدوں اور اعداد و شمار سے معاشی استحکام حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ عوامی سطح پر حکومت کو اس بیانیے کی وضاحت کرنی چاہیے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کا بوجھ کن طبقات پر پڑے گا اور ان کے لیے کیا حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ معیشت کی بہتری کا مطلب صرف جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ یا افراط زر میں کمی نہیں، بلکہ روزگار کے مواقع پیدا کرنا، بنیادی سہولیات کی فراہمی اور ایک ایسی معاشی فضا قائم کرنا ہے جس میں متوسط اور نچلے طبقے کو بھی ترقی کے ثمرات حاصل ہوں۔ اگرچہ عالمی اداروں کا اعتماد ایک مثبت علامت ہے، لیکن اصل امتحان ملکی پالیسیاں، حکمرانی کا معیار اور زمینی حقائق سے ہم آہنگ اصلاحات ہیں۔ ترقی کی سچائی ان صفحات میں چھپے اعداد و شمار سے زیادہ ان بازاروں، اسکولوں، اسپتالوں اورگھروں میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں پاکستان کا عام شہری اپنی زندگی بسر کر رہا ہے۔ تب ہی یہ اعتماد محض عالمی اداروں کی رپورٹوں تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ عوام کے دلوں میں بھی جگہ بنائے گا۔ اسی طرح بے روزگاری کی شرح کو 7.5 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جو کہ کسی بھی لحاظ سے ایک تشویشناک حقیقت ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو کہ کسی بھی قوم کے لیے ایک نعمت تصور کیا جاتا ہے، بشرطیکہ اسے درست سمت میں استعمال کیا جائے، مگر جب یہی نوجوان روزگار سے محروم ہوں، تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ملازمت کے مواقع نہ ملیں، تو وہ نا امیدی، اضطراب اور معاشرتی بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے روزگار پیدا کرنے کے دعوے تو کیے جاتے ہیں، لیکن ان دعوؤں کا عملی عکس نظر نہیں آتا۔ نوجوانوں کو فنی تربیت دینا، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ دینا، سرمایہ کاری کے لیے آسانیاں پیدا کرنا، اور انفارمل سیکٹر کو باضابطہ بنانا ان مسائل کا حل ہو سکتا ہے، مگر بدقسمتی سے ان پر یا تو سنجیدگی سے کام نہیں ہو رہا یا پالیسیوں کا تسلسل نہیں۔معاشی اصلاحات کسی بھی معیشت کی بحالی اور ترقی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اصلاحات کا لفظ تو بار بار استعمال ہوتا ہے، لیکن ان پر عمل درآمد کی صورت نظر نہیں آتی۔ ٹیکس نظام میں اصلاحات، کرپشن کے خلاف مؤثر کارروائی، اداروں کی کارکردگی میں بہتری، نجی شعبے کو سہولتیں دینا اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنا ایسے اقدامات ہیں جو ہر حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہوتے ہیں مگر نتیجہ خیز نہیں ہوتے۔ اس کی بنیادی وجہ نیت کا فقدان، سیاسی مصلحتیں اور بیوروکریسی کا مزاحمتی رویہ ہے، اگر موجودہ حکومت واقعی ملک کو معاشی دلدل سے نکالنا چاہتی ہے تو اسے فوری، واضح اور نڈر اصلاحات کرنا ہوں گی، خواہ وہ سیاسی طور پر کتنی ہی غیر مقبول کیوں نہ ہوں۔ایک اور اہم پہلو عوامی اعتماد اور ابلاغ کا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں، معاہدوں اور اقدامات کی نہ صرف وضاحت کرے بلکہ ان کے اثرات کے بارے میں بھی سچائی سے آگاہ کرے۔ سوشل میڈیا اور دیگر ذرایع ابلاغ پر صرف مثبت بیانیہ بنانے سے حقائق نہیں بدلتے۔ جب تک عام شہری کو اپنی زندگی میں بہتری محسوس نہیں ہوگی، وہ کسی معاہدے،کسی رپورٹ یا کسی عددی پیش گوئی پر یقین نہیں کرے گا۔ عوامی اعتماد کی بحالی صرف عملی اقدامات، شفاف حکمرانی اور احتساب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کی معیشت کو اس وقت جن چیلنجزکا سامنا ہے وہ وقتی یا خارجی نوعیت کے نہیں، بلکہ یہ گہرے داخلی مسائل ہیں جو دہائیوں سے جمع ہوتے آ رہے ہیں۔ ان کا حل بھی اسی وقت ممکن ہوگا جب ریاست اپنی ذمے داریوں کو سمجھتے ہوئے ایک طویل المدتی وژن اپنائے، وقتی مفادات سے بالاتر ہو کر فیصلے کرے اور سب سے بڑھ کر، عوام کو اس عمل میں شریک کرے۔ جب تک فیصلے بند کمروں میں ہوتے رہیں گے، جب تک پالیسیاں صرف اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کریں گی، اور جب تک احتساب صرف مخالفین کے لیے ہوگا، تب تک کوئی معاہدہ، کوئی رپورٹ اور کوئی عالمی اعتماد معیشت کو بہتر نہیں کر سکتا۔پاکستان کی اقتصادی ترقی کا راستہ سیاسی استحکام سے ہو کرگزرتا ہے۔ جب تک ملک میں سیاسی بے یقینی، ادارہ جاتی تصادم اور پالیسیوں کا تسلسل نہ ہو، تب تک کوئی بھی معاشی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ معیشت کو سیاسی کھیل کا ہتھیار بنانا ایک خطرناک رجحان ہے، جس نے نہ صرف پالیسیوں کو غیر مستحکم کیا ہے بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی مجروح کیا ہے۔ اس وقت ملک کو ایک وسیع تر قومی مکالمے کی ضرورت ہے، جس میں تمام سیاسی قوتیں، ریاستی ادارے اور معیشت سے وابستہ اسٹیک ہولڈرز ایک مشترکہ ایجنڈے پر متفق ہوں اور معاشی بہتری کو اولین ترجیح دی جائے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل