Thursday, October 16, 2025
 

جمہوری تبدیلی

 



2024 کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والے سیاسی ڈھانچے میں پہلی بڑی تبدیلی آگئی۔ خیبرپختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور جیل میں دو برسوں سے مقید اپنے قائد کی ہدایت پر مستعفیٰ ہوگئے۔ تحریک انصاف کے بانی نے ایک کارکن سہیل آفریدی کو خیبر پختون خوا کا نیا وزیر اعلیٰ نامزد کردیا۔ معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ نے اس فیصلے کا اعلان کیا۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپنے قائد کے فیصلے کو فوری طور پر قبول کرتے ہوئے مستعفیٰ ہونے کا فیصلہ کیا۔ علی امین گنڈا پور نے اس موقع پر کہا کہ یہ وزارت اعلیٰ جس کی دی ہوئی امانت ہے جو ان کے حکم پر واپس کردی۔ تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل اور معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ نے اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور کے خلاف چارج شیٹ بھی جاری کی۔ راجہ نے اس چارج شیٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈا پور کی حکومت خود کو وفاق کی غلط پالیسیوں سے دور نہ کرسکی۔ بانی تحریک انصاف نے فوج پر بڑے حملے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اس صورتحال کے ذمے دار وزیر اعلیٰ ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ دہشت گردی ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بیٹھ کر مذاکرات کیے جائیں۔ ہم نے نئی شروعات کرنی ہے اور اب ہم نے نئی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹرگوہر کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف میں کوئی فارورڈ بلاک نہیں ہے، تمام اراکین متحد ہیں۔ اس بناء پر آفریدی کو نیا عہدہ سنبھالنے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ سخت مؤقف پر یقین رکھتے ہیں۔ اب پختون خوا کی حکومت اور وفاق میں ایک نئی لڑائی شروع ہوگی۔ صحافی علی امین گنڈا پور کی معزولی کو بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ہمشیرہ علیمہ خان سے جھگڑے کی وجہ بتاتے ہیں۔ ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ گنڈا پور اور بشری بی بی میں اختلافات کی ابتداء گزشتہ سال اسلام آباد کے ڈی چوک کی طرف مارچ کے موقع پر پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد پیدا ہوئی۔ بشریٰ بی بی نے الزام لگایا کہ گنڈا پور انھیں ڈی چوک پر تنہا چھوڑ آئے تھے اور خود لاپتہ ہوگئے تھے، پھر پشاور چلے گئے تھے۔ علی امین گنڈا پور نے بانی کی ہمشیرہ علیمہ خان پر خفیہ ایجنسی کی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا۔ علیمہ خان نے جواب میں گنڈا پور پر وزیر داخلہ کی نگرانی میں کام کرنے والی سول انٹیلی جنس ایجنسی سے روابط کے الزامات لگائے۔  تمام تر صورتحال میں رہنماؤں اور کارکنوں کی طویل مدت کی سزاؤں اور گرفتاریوں کے باوجود تحریک انصاف خیبر پختون خوا کی پارلیمانی پارٹی کا متحد رہنا پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ اس صورتحال کے تجزیے کے لیے پختون خواہ میں مخصوص صورتحال اور سماجی تبدیلی کے Variable کی نشاندہی ضروری ہے۔ اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی نائن الیون کی دہشت گردی کا سانحہ ہوا۔ پاکستان امریکا اور اتحادی فوجوں کے اتحادی کی حیثیت سے طالبان حکومت کے خلاف جنگ کا حصہ بن گیا ۔ 2002میں دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل (M.M.A) کو خیبر پختون خوا میں اقتدار سونپا گیا۔ دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کے علاوہ بانی تحریک انصاف واحد رہنما تھے جو طالبان کی جدوجہد کی حمایت کرتے تھے۔ تحریک انصاف نے اس دوران امریکا اور نیٹوکی فوجوں کی افغانستان جانے والی سپلائی لائن کے خلاف دھرنے دیے۔ تحریک انصاف نے 2013میں خیبر پختون خوا کی حکومت سنبھال لی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ایک طرف طالبان کی حمایت جاری رکھی تو دوسری طرف اچھی طرز حکومت کے ماڈل کو اپنایا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے ہیلتھ کارڈ نے عوام کو متوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دور میں پورے ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوئی۔ خیبر پختون خوا اس لوڈ شیڈنگ سے براہِ راست متاثر ہوا۔ تحریک انصاف کے منتخب اراکین نے لوڈ شیڈنگ کے خلاف عوامی احتجاج کو منظم کیا مگر اس دوران تحریک انصاف کی مخالف جماعتیں مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور پیپلز پارٹی کے رہنما صوبے کے عوام کو اپنی جماعتوں کے حق میں کرنے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے میں ناکام رہے۔ جماعت اسلامی نے 2013میں تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ اتحاد کیا مگر 2018میں تحریک انصاف کو جماعت اسلامی کے سہارے کی ضرورت نہیں رہی۔ طالبان کے کابل پر قبضہ کے بعد کئی ہزار جنگجوؤں کو سابقہ قبائلی علاقوں میں آباد کیا گیا۔ اگرچہ 2018کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کی ناقص کارکردگی کا ذرایع ابلاغ پر ذکر ہونے لگا تھا مگر 2022 میں جب قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت رخصت ہوئی تو اب تحریک انصاف مظلوم چہرے کے ساتھ عوام کے سامنے آگئی۔میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت کے برسر اقتدار آنے کے ساتھ ہی ایک بڑا معاشی بحران بھی پیدا ہوا۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ میں تو کوئی فرق نہ آیا مگر بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان تک پہنچنے لگیں۔ پورے ملک کی طرح خیبر پختون خوا کے عوام بھی اس مہنگائی سے متاثر ہوئے اور اسلام آباد کی حکومت سے مایوسی بڑھ گئی۔ سابقہ قبائلی علاقوں کے علاوہ سوات، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، خیبر اور دیگر علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کے حملے بہت بڑھ گئے۔ دہشت گردی میں ہر علاقے میں بے گناہ لوگ مارے گئے۔ یوں مختلف شہروں میں عوام نے احتجاج شروع کیا۔ تحریک انصاف کے وزراء اس احتجاج کا حصہ بن گئے۔ ہر شہر میں عوام کے احتجاج میں حکومت سے ناراضگی کا پہلو سب سے زیادہ نمایاں رہا۔ اس دوران صوبے میں طالبان اور تحریک انصاف کے بیانیہ کے خلاف پرامن تحریکیں پروان چڑھیں۔ ان تحریکوں میں پختون تحفظ موومنٹ ایک پرامن تحریک تھی اور عوام کے تمام گروہوں کی حمایت یافتہ تھی، مگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر ان تحریکوں کو طاقت کے استعمال سے کمزور کیا گیا۔ علی امین گنڈا پور ڈیرہ اسماعیل خان کی سیاست کی بناء پر مولانا فضل الرحمن کے شدید مخالف ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جے یو آئی اور تحریک انصاف میں کئی امور پر اتفاق رائے کے باوجود مشترکہ اتحاد نہیں بن سکا، اب شاید گنڈا پور کے رخصت ہونے سے یہ رکاوٹ دور ہوجائے۔ کہا جاتا ہے کہ سہیل آفریدی وفاق کے خلاف سخت رویہ اختیار کریں گے، یوں صوبہ جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے مزید ابتری کا شکار ہوجائے گا۔ ریاست سے متصادم پالیسی پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے مگر اس وقت تاریخ کا ایک اہم موڑ سامنے آگیا ہے۔ افغانستان اور بھارت کے تعلقات معمول پر آرہے ہیں، دوسری طرف افغانستان کی افواج نے پاکستان پر حملہ کردیا ہے،اس صورتحال میں گورنر نے علی امین گنڈا پور کے استعفیٰ کی منظوری میں تاخیر کی جس سے بلاوجہ بدمزگی پیدا ہوئی۔ اس صورتحال میں دانشمندی کا تقاضا ہے کہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت برقرار رہے، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی کو ایسا بیانیہ اختیار کرنا چاہیے کہ عوام ان کی طرف متوجہ ہوں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب وفاق عوام کو ریلیف دینے کے لیے بڑے پیمانے پر پالیسیاں بنائے، یوں جمہوری اقدار کے تابع تبدیلی ممکن ہوسکتی ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل