Loading
’’ کدو کیا کیا بھاؤ ہے؟‘‘ … ’’ اف!! توبہ !‘‘ ’ ٹینڈے؟ ‘‘ … ’’ توبہ،’’ٹماٹر؟‘‘ … ’’ اف غضب خدا کا!‘‘ ’’ بھنڈی، بند گوبھی، پھول گوبھی، بینگن، توری، شلجم، پالک، کھیرے، ہری پیاز، چقندر، مٹر اور جانے کیا کیا اور ہر بار توبہ۔ اس کے بعد پھلوں کی باری آ گئی اور پھر وہی بھاؤ پوچھنے اور توبہ کی گردان۔ لو بھلا آدمی کیا کھائے اور کیا پکائے‘‘ وہ مسلسل بول رہی تھیں۔ ’’ ویسے باجی آپ ڈائریکٹ جنتی ہیں‘‘ سبزی فروش ان کے لیے آلو اور پیاز تولتے ہوئے بولا۔ ’’ تم نے بتایا نہیں کہ تم نے مجھے جنتی کیوں کہا؟‘‘ انھوں نے سوال کیا۔ ’’ وہ باجی، اتنی بار آپ نے آدھے گھنٹے میں توبہ توبہ کی ہے کہ شاید ہی کوئی اتنی زیادہ توبہ استغفار کرتا ہو۔‘‘ اس کے کہنے پر مجھے بمشکل ہنسی پر قابو پانا پڑ اتھا۔ خاتون حالات کی بہت ستائی ہوئی لگ رہی تھی۔ وہ اپنا بل ادا کر رہی تھیں اور میں نے اپنی ٹوکری کاؤنٹر پر رکھی ۔ دیکھا، کوئی بھی ایسی مہنگی سبزی اور پھل لینا افورڈ نہیں کر سکتا، دکان سے باہر نکل کر دیکھو، کتنی بڑی گاڑی میں آئی ہیں مگر انھوں نے بھی انگور لیا ہے اور نہ ٹماٹر‘‘ ان کاتجزیہ مکمل معلومات پر مبنی تھا، دکان میں سبزی چنتے اور مختلف چیزوں کے بھاؤ تاؤ کرتے ہوئے بھی انھیں علم تھا کہ باہر سے آنے والا کس قسم کی گاڑی میں آیا ہے۔ ’’ اصل میںآ… ‘‘ میں رک گئی، انھیں آنٹی کہنے لگی تھی کہ ذہن میں فورا آیا کہ انھیں آپا کہہ دوں مگر جانے وہ اس بات پر بھی برا نہ مان جائیں۔ ’’ آپ کا نام نہیں جانتی اس لیے، میں اس لیے یہ سبزیاں نہیں لے رہی ہوں کہ مجھے استطاعت نہیں ہے، ہمارا مختصر سا کنبہ ہے اور چند ایک سبزیاں لے بھی لوں تو کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہو گا‘‘ ’’ وہ تو اس کالونی میں رہنے والے ہر گھر کی کہانی ہے بی بی، ہر گھر میں دو یا تین لوگ رہتے ہیں اور اللہ کے فضل سے سب ہی صاحب حیثیت ہیں-‘‘ انھوںنے فورا کہا، ’’ لینے کو میں بھی جو سبزی چاہے لے سکتی ہوں مگر میں تو قیمتیں سن سن کر توبہ تلا کر رہی تھی۔‘‘ مجھے پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ہر سبزی کا بھاؤ اپنی معلومات میں اضافے کے لیے پوچھ رہی تھیں، انھیں بھی کون سا ہر سبزی لینا تھی۔’’ میں اس لیے انگور اور ٹماٹر نہیں لے رہی ہوں کہ ان کی قیمتوں میں بے جا اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ ابھی آپ نے حوالہ دیا کہ اگر ٹماٹر میسر نہ ہوں تو ان کی جگہ شلجم ڈال دیں، اسی طرح ہم ٹماٹر کی جگہ دہی بھی ڈال سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو ٹماٹر، دہی اور شلجم کے بغیر بھی سب کچھ پکاسکتے ہیں، بھنڈی اور کریلے بھی۔کچھ سال پہلے تک تو ہمارے ہاں عام لوگ ٹماٹر سے آشنا بھی نہ تھے۔ ‘‘ انھوں نے میری بات کی تائید کی- ’’ میرا ایک چھوٹا سا اصول ہے کہ میں ایسی ہر چیز کا بائیکاٹ کر دیتی ہوں جو یوں اچانک اس قدر مہنگی ہو جائے، جس چیزکے بغیر انسان کا گزارا ہو سکے یہاں تک کہ زندگی اور موت کا معاملہ درپیش نہ ہو جائے، ایسی ہر چیز کا بائیکاٹ کر دینا چاہیے۔‘‘ میں نے کہا۔ ہم کسی اور کو تبدیل کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس معاشرے کے ہر فرد کی سوچ کو مگر ہم اپنے آپ کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ میں خود بھی بائیکاٹ کرتی ہوں، جن جن لوگوں سے میرا رابطہ ہوتا ہے، ان سے فون پر، پیغامات کے ذریعے اور خود اپنے عمل سے انھیں بتاتی ہوں کہ ہمارا انفرادی بائیکاٹ بعد ازاں اجتماعی بائیکاٹ بن سکتا ہے، جتنا چاہے چھوٹا یا بڑا اجتماع ہو، دس لوگوں کا ہو یا سو لوگوں کا، ہماری بات اگر کسی ایک دل پر بھی دستک دے دیا ایک اور کی ایک اور کی سوچ کوبھی بدل د تو ہمارا حق تو ادا ہوگیا۔ ’’ سو تو ہے، تم بہت اچھی بات کر رہی ہو، میرے دل میں بھی ایسے خیالات آتے ہیں مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی سے کیسے بات کروں کہ لوگ مجھے کنجوس نہ کہنا شروع کردیں۔ ‘‘ ’’ کسی کے کچھ کہہ دینے سے ہم کون سا ویسے بن جاتے ہیں۔‘‘ میں نے فورا کہا۔ ’’ میں لکھاری بھی ہوں، لفظوں سے کھیلتی ہوں اور انھی کو دوسروں کی سوچ تبدیل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہوں۔‘‘ وہ میرے بارے میں مزید دریافت کرنے لگیں، کس اخبار میں، کس رسالے میں… کیا وغیرہ- ’’ آپ دونوں باجیاں اگر اپنی خریداری مکمل کر چکی ہیں تو پلیز اب جائیں، اپنے سنہری خیالات سے میری دکانداری پر لات تونہ ماریں۔ سارے گاہک خراب کر دیے ہیں آپ نے۔‘‘ دکاندار کے لہجے میں احترام اپنی جگہ مگر ساتھ تلخی بھی تھی۔ اسے کیا ہوا تھا، میںنے حیرت سے دیکھا، جو لوگ اپنی ٹوکریوں میں ٹماٹر اور انگور ڈال کر لائے تھے… انھوں نے بل بنواتے وقت اپنے سامان سے یہ دونوں چیزیں نکال کر کاؤنٹر پر چھوڑ دی تھیں۔ ’’ کون کہتا ہے کہ دل سے نکلی بات اثر نہیں کرتی…‘‘ ان خاتون سے کہا اور میرا کندھا تھپک کر چل دیں ۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل