Loading
یوٹیوب پراتفاق سے‘ دس بارہ منٹ کا ایک کلپ دیکھا۔ حد درجہ مودب اینکر ‘ ایک بڑے بارعب انسان سے سوال پوچھ رہا تھا۔ یہ شخص ملک کے بہت مشہور پامسٹ تھے۔ نام یاد نہیں رہا۔ پامسٹ کا نزدیک ترین ترجمہ‘ ہاتھ کی لکیریں پڑھ کر ‘ مستقبل یا ماضی بتانے کا علم رکھنا ہے۔ خیر‘ اس کلپ کو غور سے سنا۔ اس مشہور پامسٹ نے سیاست دانوں اور سینئر فوجی افسروں کے ہاتھ دیکھ رکھے تھے۔ آنے والے وقت کی پیشن گوئی فرما رہے تھے۔ صدر ‘ وزیراعظم ‘ سابقہ وزیراعظم اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید شخص بھی زیر بحث تھے۔ اینکر نے ایک عمومی سوال کیا ‘ کہ پاکستان میں کوئی ایسا اہم شخص ہے‘ جو آپ کے پاس نہ آیا ہو۔ اور مستفید نہ ہوا ہو۔ مجھے وہ لہجہ یاد ہے جس انداز سے پامسٹ صاحب نے جواب دیا۔ ہنستے ہوئے فرمانے لگے کہ نہیں‘ کوئی بھی ایسا سر بلند انسان نہیں ‘ جو ان کی خدمت میں حاضر نہ ہوا ہو یا جس کے پاس‘ وہ خود نہ گئے ہوں۔ان کے لہجہ میں اس قدر اعتماد تھا کہ طالب علم حیران رہ گیا۔ ایسے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ صرف کسی بھی وجہ سے ‘ یہ اعلان نہیں فرما رہے کہ ہاتھ کی لکیروں کو بدلنا بھی ان کے لیے معمولی سی بات ہے۔ بذات خود ڈاکٹر ہوں ۔ ہاتھ میں کون کون سے مسلز ‘ ٹینڈن‘ رگیں اور ہڈیاں ہیں۔ سب پڑھ چکا ہوں۔ پر میں نے قطعاً اپنے سابقہ علم کو استعمال نہیں کیا۔ ایک Orthopedic Surgeon کے پاس گیا جو لندن اور امریکا کی بہترین یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل تھے۔ لاہور میں پریکٹس کرتے ہیں۔ سوال کیا‘ کہ ہر انسان کے ہاتھ پر لکیریں کیونکر بنتی ہیں؟ جواب حد درجہ سادہ اور آسان تھا۔ Skin کے نیچے ۔ Superficial Facia اور Deep facia موجود ہیں۔ ان کے نیچے ہڈیوں کے جوڑ ہوتے ہیں۔ ان جوڑوں کی حرکت سے ہاتھ کی جلد پر لکیریں بنتی چلی جاتی ہیں۔ یعنی ہر لکیر کے نیچے ایک قدرتی جوڑ ہے۔ یہ بھی پوچھا کہ ہمیں تو بتایا جاتا ہے کہ یہ عمر‘ وقت اور حالات کے حساب سے تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر کہا کہ یہ بالکل ٹھیک بات ہے۔ جلد کے نیچے جو دو facia اور دیگر مسلز (muscles) ہیں۔ ان میں عمر کے لحاظ سے تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ‘ لکیروں کی ساخت میں بھی فرق آ جاتا ہے۔ خیر ‘ تین ایسے ڈاکٹروں کو ملا۔ ان میں سے ایک تو لندن کے رائل کالج سے صرف ہاتھ کی سرجری سیکھ کر آئے تھے۔ تینوں ماہرین کے ہاتھ کی لکیروں کے متعلق جواب میں کوئی فرق نہیں تھا۔ انھوں نے مجھے اجازت دی ہے کہ ان کے نام لکھ دوں۔ مگر میں قصداً ان مشہور سرجنز کے نام نہیں لکھ رہا۔ زیرموزوں بحث یہ بھی نہیں ہے کہ پامسٹری ایک درست مضمون ہے یا نہیں؟ صرف ہتھیلی پر لکیروں کے وجود کے بارے میں گزارش کر رہا ہوں۔ پامسٹ ‘ نجومی‘ جادوگر ‘ ساحر‘ کالا علم کرنے والے لوگ ‘ جید پیر ‘ ہمارے معاشرے کا صدیوں سے حصہ ہیں۔ لوگ ان کے پاس کثرت سے آتے جاتے رہتے ہیں۔ خوب پیسے بھی دیتے ہیں۔ عام لوگوں کا ذکر کیا کرنا، خواص کا بھی یہی حال ہے۔بلکہ خواص ترین کا بھی یہی چلن ہے۔ دوسابقہ وزرائے اعظم کی بابت عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک موصوف کی صدر پاکستان سے سخت لڑائی چل رہی تھی ۔ میرے ایک جاننے والے مرکزی وزیر تھے۔ انھوں نے بتایا کہ‘ وزیراعظم نے مجھے حکم دیا کہ کراچی جاؤ، وہاں بنگال سے ایک پامسٹ تشریف لا رہے ہیں ۔ ان کو لے کر اسلام آباد آ جاؤ۔ وہ نجومی‘ وزیراعظم ہاؤس میں چند دن رہے اورجاتے ہوئے کہا کہ اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر نتیجہ یہ نکلا‘ کہ چند دنوں بعد وزیراعظم اور صدر‘ دونوں اپنے عہدوں سے محروم ہو گئے۔ ملک کی خاتون وزیراعظم جب ایک ملک میں سرکاری دورے پر گئیں تو وہاں کے مشہور ترین نجومی کو بلایا گیا۔ اس نے ہاتھ دیکھ کر کہا کہ آپ کا اقتدار خطرے میں تھا۔ مگر‘ اب سب ٹھیک ہے۔ مگر نتیجہ بالکل الٹ نکلا ۔ تھوڑے عرصے بعد‘ صدر نے ان کی حکومت بھی ختم کر دی۔ اس جید نجومی کی کوئی پیشن گوئی درست نہ نکلی۔ یہ واقعہ اس ملک میں تعینات پاکستانی سفیر نے مجھے سنایا۔ دراصل ہم لوگوں کی اکثریت fear of unknown کا شکار ہے۔ حکمران بھی ذہنی طور پر غیر محفوظ ہیں۔ کیونکہ ان کی اکثریت میرٹ پر نہیں بلکہ سازش کے ذریعے تخت پر براجمان ہے۔ ہمارے غریب‘ اس لیے غیر محفوظ ہیں‘ کہ ان کے مسائل بالکل بنیادی نوعیت کے ہیں اور ان کی محرومیاں بہت زیادہ ہیں۔ اس ذہنی کمزوری کا فائدہ معاشرے کا مخصوص طبقہ خوب اٹھاتا ہے جس سے ایک انڈسٹری وجود میں آ چکی ہے۔ آپ کو اب اس طرح کے اشتہار بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ فلاں بابا بڑا پہنچا ہوا ہے۔ سیل فون کا نمبر بھی درج ہوتا ہے، رابطہ فرمائیے۔ آپ کے حالات مکمل طور پر پلٹ جائیں گے۔ خواتین! اس ضعیف العتقادی میں مردوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ وہ گھریلو مسائل کو اپنے رویہ کو بدل کر‘ بہتر کرنے کے بجائے ‘عاملوں ‘ جادوگروں‘ جعلی بزرگوں اور نجومیوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔دراصل ملک میں اکثر انسان اتنی غیر یقینی کی زندگی گزار رہے ہیں کہ یہ پاکھنڈیوں کی چراہ گاہ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ وہ ان کے مسائل کو حل کرنے کے نام پر ‘ خوب پیسے بٹورتے ہیں۔ توہم پرستی‘ مغرب میں بھی ہے۔ مگر اس کی حدود و قیود ہم سے بالکل مختلف ہیں۔ ذرا غور و فکر کیجیے۔ جس خطے میں ہم سانس لے رہے ہیں یہ ہزاروں برس سے موجود تھا۔ مگر ملک کی حیثیت سے یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آیا ہے۔ یعنی ‘ آزادی ہمیں دوسری جنگ عظیم کے نتیجے یا ثمر میں ملی ہے۔ اس جنگ میں چار اشخاص ‘ اہم ترین تھے۔ جرمنی کا اوڈلف ہٹلر‘ برطانیہ کا ونسٹن چرچل اور امریکی صدر فرینکلس روز ویلٹ شامل ہیں۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین بھی جنگ عظیم کا حصہ تھے۔آج جو ملک وجود رکھتے ہیں ان میں سے اکثریت دوسری جنگ عظیم کے بعد نقشہ پر ابھری ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد بھی‘ دنیا میں نئے ممالک کی جغرافیائی لائنیں ترتیب دی گئی تھیں۔ مگر میں دوسری جنگ عظیم پر گزارش کر رہا ہوں۔ یہ چار ملکی رہنما‘ موجودہ دنیا کی ہر چیز تبدیل کر گئے۔ا ن میں سے ایک بھی کسی پامسٹ یا نجومی کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا اور ہاتھ کی لکیروں سے اپنا مستقبل منسلک نہیں کیا۔ ہٹلر‘ اور چرچل ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔ ابتدائی دور میں ہٹلر‘ یورپی ممالک کو روند رہا تھا۔ برطانیہ شکست در شکست کی ذلت اٹھا رہا تھا۔ مگر کبھی بھی ہٹلر کسی جعلی بابے یا نجومی کے پاس نہیں گیا کہ حضور فرمایئے، کیا میں یہ جنگ مکمل طور پر جیت جاؤں گا یا نہیں؟ یہی حال چرچل کا تھا۔ سیاست دانوں کے ذکر کو مؤخر کر کے‘ ذرا ان سائنس دانوں پر نظر ڈالیے۔ جنھوں نے ہماری دنیا اور زندگی کو ہر طریقے سے بدل کر رکھ دی۔ البرٹ آئن اسٹائن‘ آئزک نیوٹن‘ میری کیوری‘ گراہم بیل‘ تھامس ایڈیسن‘ سٹیفن ہاکنگز ‘لوئس پاسچر‘ ان میں سے ایک بھی ‘ کبھی ضعیف العتقادی کا شکار نہیں ہوا۔ انھوں نے سائنس‘ جدید فکر اور علم کے ذریعے ایسی ایسی ایجادات کیں۔ جن کا تصور کرنا بھی مشکل تھا۔ دیکھاجائے تو ہم ان کی سائنسی طاقت کے بل بوتے پر زندگی گزار رہے ہیں۔ طالب علم کی حیثیت سے پامسٹری یا اس سے منسلک کسی بھی علم کے متعلق منفی بات نہیں کر رہا۔ صرف یہ کہنے کی ہمت کر رہا ہوں کہ انسان‘ اپنے مقدر پر خود حاوی ہوتا ہے۔ درست سمت میں تعلیم اور یکسو محنت ‘ انسان کی تقدیر بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ زور بازو اور سائنس کی قوت سے آج کی دنیا کو مسخر کیا جاسکتا ہے۔ اگر مقدر جوتشیوں کے ہاتھ میں ہوتا تو شاید وہ اپنی بہتری کے لیے بھی کچھ کر پاتے؟ جو ہمیں نظر کم ہی آتا ہے۔ ہمارے ملک میں کیونکہ میرٹ اور علم کی حکومت نہیں ہے۔ اس لیے ہم کسی نہ کسی لحاظ سے بے یقینی کا شکار ہیں۔ ہر انسان بداعتمادی کا شکار نظر آتا ہے۔ عرض ہے مستقبل کو اپنے ہاتھ میں لیجیے۔ محنت فرمایئے ۔ پھر دیکھیے خداآپ کی زندگی کو کیسے سنوارتا ہے۔ ہمت کر کے دیکھیے کامیابیاں آپ کی دہلیز پر ہوںگی!
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل