Sunday, October 26, 2025
 

’’ لوور‘‘ میں چوری اور سامراجی لوٹ مار

 



یہ سب کچھ اُس وقت میرے ذہن میں ابھرا جب میں نے خبر سنی کہ پیرس کے مشہور عالم میوزیم ’’لوور‘‘ سے چند قیمتی نوادرات چوری ہوگئے ہیں۔ خبر مختصر تھی مگر اس کے پیچھے صدیوں کی ایک پوری تاریخ جاگ اٹھی، وہ تاریخ جس میں طاقتور قومیں کمزور اقوام پر چڑھ دوڑتی ہیں، ان کے خزانے لوٹتی ہیں، ان کے فن، تہذیب، تاریخ اور خواب چرا لیتی ہیں۔ لوور سے چوری ہونے والے چند جواہرات دراصل اس بات کی علامت ہیں کہ لوٹ مارکی وہ صدی پرانی روایت اب بھی ختم نہیں ہوئی، صرف اس کے انداز بدل گئے ہیں۔ دنیا کے بڑے میوزیم برٹش میوزیم لندن، لوور پیرس، برلن میوزیم یا نیویارک میٹروپولیٹن سب دراصل لٹی ہوئی دنیا کے مقبرے ہیں۔ ان دیواروں پر تاریخ کے وہ زخم ہیں جو سامراجی طاقتوں نے اپنے مفاد کی خاطر انسانیت کو دیے۔ ان کے شو کیسوں میں جو چیزیں سجی ہیں، وہ صرف نوادرات نہیں بلکہ غلامی کی کہانیاں ہیں۔ان جواہرات کے پتھر ان زیورات کی چمک، ان کے نقوش میں وہ سسکیاں چھپی ہیں جو صدیوں پہلے محکوم قوموں کی تھیں۔ فرانس کی مثال ہی لے لیجیے، لوور میوزیم کو آج انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ثقافتی خزانہ کہا جاتا ہے، مگر یہ خزانہ کیسے جمع ہوا؟ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں جب نپولین بونا پارٹ نے مصر پر حملہ کیا تو اس کے ساتھ توپیں اور بندوقیں ہی نہیں، ماہرینِ آثارِ قدیمہ بھی تھے۔ وہ مصر کے قریب سے مجسّمے تابوت فرعونوں کے زیورات اور لکھی ہوئی تختیاں فرانس بھیجتے رہے۔ ان سب کو نپولین نے اپنی فتح کا حصہ سمجھا۔ یوں جس سرزمین پر یہ آثار ہزاروں برس تک مقامی لوگوں کی روحوں سے جڑے تھے، وہاں سے انھیں اکھاڑ کر پیرس کے شوکیسوں میں سجا دیا گیا۔ آج یہ سب فرانسیسی ورثہ کہلاتا ہے لیکن دراصل یہ چوری کی گئی تاریخ ہے۔ برطانیہ کا کردار تو اور بھی طویل اور بدنما ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جب ہندوستان میں داخل ہوئی تو وہ صرف تجارت کے بہانے آئی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس نے ایک پوری تہذیب کو اپنی بندوق کے نیچے لے لیا۔ ہندوستان کے محلوں، مندروں اور درباروں سے وہ جواہرات لوٹے گئے جن میں کوہِ نور بھی شامل تھا، جو آج تک ملکہ کے تاج کی زینت ہے۔ ٹیپو سلطان کی تلوار مغل درباروں کی چاندی کی تختیاں بنارس کے مندروں کے مجسمے سب کچھ برطانوی بحری جہازوں میں بھر کر لندن لے جایا گیا۔ آج برٹش میوزیم کی ہر الماری ہندوستان چین، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے لٹے ہوئے ورثے سے بھری ہے۔ افریقہ کی داستان تو اور بھی اندوہناک ہے۔ فرانس، برطانیہ، پرتگال اور بلجیئم نے صدیوں تک افریقہ کو غلام بنایا۔ سونا، ہیرے، ہاتھی دانت اور انسان تک بیچ دیے گئے۔ نائجیریا کے شہر بینن پر 1897میں برطانوی فوج نے حملہ کیا اور وہاں سے ہزاروں قیمتی تانبے کے مجسمے لوٹ لیے۔ آج یہ بینن برونز لندن برلن اور پیرس کے میوزیموں میں سجے ہیں۔ جن ہاتھوں نے وہ فن پارے تراشے تھے وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے گئے۔ یہ ہے وہ سامراجی تہذیب جس پر آج مغرب فخرکرتا ہے۔ عجیب تضاد یہ ہے کہ جب کسی مغربی میوزیم سے کوئی شے چوری ہوتی ہے تو میڈیا شور مچا دیتا ہے لیکن جب وہ خود پوری دنیا کی ثقافت چرا لیتے ہیں تو اسے تحفظِ ورثہ کہا جاتا ہے۔ لوور سے چند نوادرات کی چوری پر خبریں چھپتی ہیں مگر ان ہزاروں نوادرات کی بات کوئی نہیں کرتا جو نپولین کے جہازوں میں بھرکر مشرق سے مغرب لائے گئے۔ وہ سب آج بھی فرانس کے عجائب گھروں میں قید ہیں۔ مغربی دنیا کے نزدیک لوٹ مار جرم نہیں اگر وہ خود کرے تو تہذیبی خدمت بن جاتی ہے۔ یہ لوٹ مار محض ماضی کا باب نہیں۔ آج بھی سامراج نئے چہروں نئے ہتھیاروں کے ساتھ موجود ہے۔ اب توپوں اور بندوقوں کے بجائے عالمی مالیاتی ادارے سرمایہ دارانہ معاہدے اور ٹیکنالوجی کے نیٹ ورکس وہ نئے ہتھیار ہیں جن سے قوموں کی خود مختاری چھینی جا رہی ہے۔ پہلے زمینوں پر قبضہ ہوتا تھا اب معیشت پر۔ پہلے سونا، تیل اور ہیرے لوٹے جاتے تھے، اب ڈیٹا آئیڈیاز اور انسانی محنت۔ یہ وہ نیا سامراج ہے جو بظاہر مہذب دکھتا ہے مگر اندر سے ویسا ہی لٹیرا ہے جیسا نپولین یا ایسٹ انڈیا کمپنی تھی۔ یونان نے برطانیہ سے اپنے مجسّمے مانگے، نائجیریا نے اپنے بینن برونز مصر نے روزیتا اسٹون بھارت نے کوہِ نور۔ مگر مغربی حکومتوں کے جواب تقریباً ایک جیسے ہیں، یہ اب عالمی ورثہ ہیں یہاں زیادہ محفوظ ہیں، واپس کرنے سے نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ وہی منطق ہے جو ہر لٹیرا دیتا ہے کہ چوری کیے گئے مال پر اب میرا حق ہے کیونکہ میں نے اُسے بہتر طریقے سے محفوظ کر رکھا ہے۔ میں جب لوورکی چوری کی خبر پڑھ رہی تھی تو میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ شاید وقت نے ایک لمحے کے لیے انصاف کیا ہو۔ شاید ان نوادرات کی روحیں جو اپنے وطن سے کاٹ کر یہاں لائی گئی تھیں، کسی طرح اس ظلم کا احتجاج کر رہی ہوں،کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ لوٹی ہوئی چیز کبھی بھی ہمیشہ کے لیے کسی کے پاس نہیں رہتی۔ انسان کی روح بھی اسی طرح بے چین رہتی ہے، جیسے اپنی زمین سے جدا کیا گیا کوئی فن پارہ۔ یہ سچ ہے کہ دنیا کے یہ عظیم میوزیم دراصل لٹی ہوئی تہذیبوں کے مزار ہیں۔ ان میں سجا ہر مجسمہ ہر تختی ہر زیور ہر سکہ ایک خاموش فریاد ہے۔ وہ سب اپنے وطن کی ہوا، اپنی زمین اپنی زبان کو یاد کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کہتا ہے ’’ مجھے واپس لے چلو، وہاں جہاں سے تم نے مجھے چھینا تھا۔‘‘ دنیا انصاف کا دعویٰ کرتی ہے لیکن جب تک یہ لوٹے ہوئے ورثے اپنی اصل جگہوں کو نہیں لوٹائے جاتے، تب تک انصاف ادھورا رہے گا۔ یہ صرف نوادرات کی بات نہیں یہ انسانی عزت خود مختاری اور تاریخ کی بحالی کا سوال ہے۔ ایک دن آئے گا جب یہ سب لٹا ہوا ورثہ واپس جائے گا۔ تب شاید انسانیت اپنے چہرے پر سے وہ داغ مٹا سکے جو صدیوں پہلے سامراج نے لگا دیا تھا۔ لوور پیرس سے چوری ہونے والے چند مجسموں نے ہمیں ایک بار پھر یہ یاد دلایا ہے کہ انسان نے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے گناہ لوٹ مار، استحصال اور سامراج کو کبھی واقعی ختم نہیں کیا۔ وہ آج بھی زندہ ہے صرف لباس بدل چکا ہے۔ اس خبر نے پوری انسانی تاریخ کو میرے سامنے لا کھڑا کیا اور میں نے دل ہی دل میں سوچا، شاید ایک دن جب انصاف واقعی زندہ ہوگا تب لوٹے ہوئے مجسمے اپنی اصل سرزمین پر لوٹیں گے اور تب دنیا پہلی بار واقعی حسین دکھائی دے گی۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل