Loading
یہ 23 مارچ 1931 کا دن ہے۔ آج لاہور میں تین نوجوانوں کو پھانسی دی جانی ہے۔ بگھت سنگھ اور اس کے دو ساتھیوں سکھ دیو تھاپڑ اور شیو رام ہری راج گرو پر الزام ہے کہ انھوں نے 1928 میں برطانوی پولیس افسر جان سانڈرر کو لاہور میں گولی مار کر قتل کردیا تھا۔ اس کے علاوہ 8 اپریل 1929 کو اسمبلی میں بم پھینکنے کا بھی الزام ہے۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی سام راج زندہ باد کا نعرہ لگایا کرتے تھے۔
ان تینوں آزادی کے جنگجوؤں کو معمول سے ہٹ کر شام سات بجے پھانسی دینے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ عوامی ردعمل سے بچا جا سکے مگر مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی مجسٹریٹ اس پھانسی کا گواہ بننے کے لیے تیار نہیں۔ ہر مجسٹریٹ جانتا ہے کہ اس پھانسی کا گواہ بننے سے نہ صرف اسے بلکہ اس کے خاندان کو بھی عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایسے میں ایک مجسٹریٹ سامنے آتا ہے جس کا نام نواب محمد احمد خان قصوری ہے۔ وہ انگریزوں کی غلامی میں تمام حدود پار کرتے ہوئے اپنی مٹی سے بھی غداری کرتا ہے اور محبِ وطن بھگت سنگھ اور اس کی ساتھیوں کی پھانسی کا گواہ بنتے ہوئے انھیں اپنی دھرتی پر قربان ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔
پھانسی کی اطلاع لاہور کی فضاؤں میں پھیلنے لگتی ہے اور پولیس بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو دریائے ستلج کے کنارے جلا کر راکھ دریائے ستلج میں ہی بہا دیتی ہے۔ جس جگہ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو جلایا گیا، پہلے وہ مقام پاکستان میں ہی تھا مگر سندھ طاس معاہدے کے باعث کچھ علاقے پاکستان نے بھارت کو دیے اور بھارت کو بھی پاکستان کو کچھ علاقے دینا پڑے اور یوں وہ مقام جہاں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو جلایا گیا تھا، وہ بھارت کے پاس چلا گیا۔
بھارت نے بعد میں وہاں ایک بہترین یادگار بنائی۔ اب آپ ’’نواب محمد احمد خان قصوری‘‘ کا نام ذہن میں رکھیں جو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی پھانسی کا واحد گواہ تھا کہ اگر وہ بھی گواہ نہ بنتا تو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی نہ دی جاتی۔ اب ہر 23 مارچ کو بھارت میں شہید دیوس یعنی یومِ شہادت منایا جاتا ہے۔
وقت گزرتا چلا گیا، بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں سمیت بہت سارے آزادی کے متوالوں کی قربانیاں رنگ لائیں اور یوں ہمیں آزادی جیسی نعمت میسر آئی۔ پاکستان میں ایوب کا دور شروع ہوا اور وزارتِ خارجہ کا قلم دان ذوالفقار علی بھٹو کے پاس آیا۔ بھٹو کے ایوب خان سے اختلافات شروع ہوئے تو اس نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی۔
پارٹی کو بنانے میں ایک اہم کردار اسی نواب محمد احمد خان قصوری نے ادا کیا۔ نواب احمد خان قصوری نے خود تو عملی طور پر سیاست میں حصہ نہ لیا مگر اپنے بیٹے احمد رضا خان قصوری کو پاکستان پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست میں اتار دیا۔ احمد رضا خان قصوری کے بھٹو سے اختلافات شروع ہوئے اور 1970 کے انتخابات کے بعد جب مجیب الرحمٰن کو واضح اکثریت حاصل ہوئی تو یہی احمد رضا خان قصوری بنگال تشریف لے گئے جس پر بھٹو نے بیان دیا کہ ’’جو بھی بنگال جائے گا، میں اس کی ٹانگیں تڑوا دوں گا۔‘‘
1971 میں پاکستان ٹوٹ گیا۔ بھٹو کو اقتدار نصیب ہوا مگر قصوری خاندان سے اختلافات کم نہ ہوئے۔ ایک سازش تیار کی گئی اور 11 نومبر 1973 کو احمد رضا خان قصوری پر قاتلانہ حملہ ہوا جب وہ اپنے باپ نواب محمد احمد خان قصوری کے ساتھ گاڑی چلاتے ہوئے شادمان کالونی سے گزر رہے تھے۔
گولی احمد رضا قصوری کے بجائے اس کے باپ محمد احمد خان قصوری کو لگی (وہی مجسٹریٹ جو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی پھانسی کا واحد گواہ تھا) اور احمد خان قصوری شادمان چوک میں اسی جگہ گولی لگنے سے ہلاک ہوا جہاں بھگت سنگھ کو پھانسی لگی تھی۔ وہ مقام جہاں قصوری نے بھگت سنگھ کا کیس سرانجام دیا، وہی جگہ تھی جہاں چالیس برس بعد اُن پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ یہ ایک طرح کا تاریخی تضاد اور ایک طرح کی ’’جواب طلبی‘‘ تھی۔
قصوری خاندان چوں کہ ہمیشہ ہی سے انگریزوں کا وفادار رہا تھا، اس لیے اس کی پہنچ بھی بہت اوپر تک تھی۔ احمد رضا خان قصوری نے ایف آئی آر میں باقاعدہ طور پر اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا نام شامل کروایا اور یوں پاکستان کے وزیراعظم کے خلاف لاہور میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ اس قتل کے پیچھے بنیادی طور پر پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ہی ہیں۔
کچھ سالوں کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور احمد رضا خان قصوری وری کے درمیان کچھ مشترکہ دوستوں کی وجہ سے معاملات درست ہوئے اور احمد رضا خان کو ایک بار پھر سے پیپلزپارٹی میں شامل کرلیا گیا مگر ایف آئی آر موجود رہی جس میں ذوالفقار علی بھٹو کو اس سازش کے پیچھے کا اصل مجرم قرار دیا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے جب فوج کے ساتھ تعلقات کچھ خراب ہوئے تو جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو تخت سے اتار دیا اور 90 دن کے الیکشن کے وعدے کے ساتھ خود اقتدار میں آ گئے۔
انہوں نے آتے ہی اسی ایف آئی آر کو پھر سے نکلوایا جس میں ذوالفقار علی بھٹو کو احمد خان قصوری کا قاتل قرار دیا گیا تھا۔ ایک بار پھر احمد رضا خان قصوری نے بھٹو کا ساتھ چھوڑا اور ضیاء الحق کے ساتھ مل گئے۔ مقدمے کی کاروائی شروع ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو اس قتل کے پیچھے اصل مجرم قرار پائے اور یوں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل میں مجرم ثابت ہونے پر پھانسی دے دی گئی۔
…………
بچے اسکولوں سے سالانہ تعطیلات ہونے پر اپنے اپنے نانی گھر بھاگ جاتے ہیں، بالکل ایسے ہی میں بھی گرمیوں کی سالانہ چھٹیوں ہونے پر ایک دن کے لیے لاہور بھاگ جاتا ہوں۔ اگرچہ کہ لاہور میری نانی تو چھوڑیں، دور دور کا کوئی رشتے دار بھی نہیں رہتا مگر پھر بھی پچھلے تین سالوں سے میں مسلسل جولائی کے حبس زدہ دنوں میں لاہور چلا جاتا ہوں۔ لاہور میں میرا کوئی خاص تو نہیں رہتا مگر میرے دل کے بہت قریب شجاعت علی ضرور رہتا ہے۔
وہی شجاعت جو پچھلے برس بھی میرا ہاتھ پکڑے لاہور کے ترک شدہ ریلوے اسٹیشنوں پر مجھے لیے پھرتا تھا۔ وہی شجاعت جس نے اس سے پچھلے برس مجھے شاہ درہ دکھایا تھا، مجھے شاہ حسین سے متعارف کروایا تھا۔ میں صبح سویرے لاہور جی پی او اورنج لائن میٹرو ٹرین اسٹیشن پہنچا تو باہر ہال روڈ پر تاجکستان کی ایمبیسی کے سامنے شجاعت میرا منتظر تھا۔ شجاعت نے مجھے بائیک کے پیچھے بٹھایا اور نہ جانے کس جانب چل دیا۔ شجاعت وہ واحد شخص ہے جسے میں اپنی آوارگی کی فہرست نہیں دیتا۔ شجاعت ایک ایسا شخص ہے جس کے سامنے میں ہمیشہ اپنی چونچ بند رکھتا ہوں۔
جہاں شجاعت مجھے کھڑا کرتا ہے، میں وہاں تصویر بنواتا اور پھر چپ چاپ اچھے بچوں کی طرح اس کی موٹر سائیکل پر بیٹھ جاتا ہوں۔ بقول شجاعت میں وہ واحد خوش نصیب ہوں جس کی وجہ سے شجاعت کو اب تک کا واحد چالان ہوا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ پچھلے برس جب میں لاہور آیا تھا تو ہم بارش تھی کہ رک ہی نہ رہی تھی۔
لاہور کی سڑکیں پانی سے بھری ہوئی تھیں۔ ہم نے بارش رکنے کا انتظار نہ کیا اور چلتے بنے۔ اتنے میں ایک لال بتی آئی مگر شجاعت رکنے کی بجائے چلتا رہا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گھر پہنچنے پر شجاعت کو چالان کی ای میل موصول ہوچکی تھی۔ اب یہ اعزاز کیا کم ہے کہ کوئی جب جب اپنے چالان کو یاد کرے گا، اسے نہ چاہتے ہوئے بھی میں یاد آؤں گا۔ پچھلی بار شجاعت نے جان بوجھ کر لال بتی کو نظر انداز کیا تھا مگر اس بار شجاعت نہ جانے کس کے خوابوں خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ اسے سامنے اتنا بڑا گول مٹول سا اشارہ نظر نہ آیا۔ بالکل ہی قریب جا کر اس نے لال بتی دیکھی تو یک دم بریک لگا کر بائیک روک دی۔ شجاعت کی تو سوزوکی 150 تھی جو اچانک بریک لگا کر بھی رک گئی مگر ہمارے پیچھے ایک 70 والا بھی تھا۔
وہ منحوس بھی نہ جانے کس کے خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ اس نے بھی بند اشارہ نہ دیکھا۔ مجھے اب گمان ہوتا ہے کہ کم بخت شاید مجھے ہی تاڑ رہا تھا ورنہ کم از کم وہی بند اشارہ دیکھ کر رک جاتا۔ جب شجاعت نے اچانک بریک لگائی تو پیچھے والے نے بھی بریک لگائی مگر اس سے بائیک رکی نہیں۔ ظالم کے انسان نے اتنی زور سے اپنی بائیک میری کمر میں ماری کہ ایک بار تو مجھے دن میں ہی پانچ چھے چھوٹے موٹے تارے نظر آ گئے۔ بقول اس موٹر سائیکل سوار کے، اس نے بر وقت بریک لگائی تھی مگر اس کا پاؤں بریک سے سلپ ہوگیا اور بریک نہ لگ سکی۔
ایک تو میں پہلے ہی کم زور سا انسان اور اوپر سے صبح صبح اس ظالم لاہوری نے میری کمر سینک دی۔ خیر اشارہ سبز ہوا اور ہم آگے بڑھے۔ تھوڑا ہی آگے ہوئے تو ایک جگہ زمین پر سبز پینٹ تھا اور ہاتھ کے اشارے کے ساتھ ایک ہی بتی لگی تھی۔ شجاعت علی بتانے لگا کہ یورپ کی طرز پر اب لاہور میں بھی پیدل چلنے والوں کے لیے یہ نظام رائج کیا گیا ہے کہ اگر آپ پیدل سڑک پار کرنا چاہتے ہیں اور سڑک پر کوئی پُل نہیں تو آپ اس بتی کو دبا دیں۔ کچھ ہی دیر بعد وہ بتی لال ہو کر ٹریفک روک دے گی اور اس طرح آپ بہ آسانی سڑک پار کرلیں گئے۔ مجھے چوں کہ شجاعت علی کی بات پر یقین تھا، اس لیے موٹر سائیکل سے نیچے اتر کر عملی طور پر ٹریفک کو روکنے کی زحمت نہیں کی۔ ہم چلتے جاتے تھے کہ شجاعت علی نے اپنی موٹر ایک شاہ عنایت کے دربار کے سامنے روک دی۔
مجھے شاہ عنایت سے بہت سے شکوے اور شکایتیں تھیں۔ میرا ہمیشہ سے یہ ماننا رہا ہے کہ شاہ عنایت کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ بلھے شاہ پر پابندیاں لگاتے۔ بلھا جیسا بھی تھا، کیسی بھی شاعری کرتا تھا، کفریہ کلمات کہتا تھا مگر شاہ عنایت سے تو شدید محبت کرتا تھا۔ انھیں اپنا مانتا تھا۔ پہلے مجھے محسوس ہوتا تھا کہ شاہ عنایت صرف ایک شخص کا نام ہے مگر اب جانا کہ شاہ عنایت کسی شخص کا نام نہیں بلکہ ایک سوچ کا نام ہے جو تقریباً ہر محبوب کے دل و دماغ میں پنپتی رہتی ہے۔ محبوب خواہ کوئی بھی نہیں، جہاں اسے ہلکا سا ہی محسوس ہوگا کہ کوئی اس کے لیے بلھا بنا بیٹھا ہے فوری طور پر ہی اس کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔
وہ بھی شاہ عنایت بن جاتا ہے۔ اپنے بلھے کو اپنے سے دور بھیجنے کے انتظامات کرنے لگتا ہے۔ ایسے میں صرف بلھا ہی جانتا ہے کہ اس کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ مگر بلھے بے چارے کے پاس سوائے جدائی کے اور کوئی راستہ بھی تو نہیں ہوتا۔ چناںچہ ہر بلھا اپنے عنایت کی بات مانتے ہوئے اپنے اور اپنے محبوب کے درمیان ایک حد باندھ لینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ تڑپتا تو صرف بلھا ہی ہے۔ شاہ عنایت تو صرف ایک استعارہ ہے مگر بلھا کوئی استعارہ نہیں، کوئی تشبیہ نہیں۔ بلھا کل بھی جلتا رہا تھا اور جل جل کر کندن بن گیا تھا۔ بلھا آج بھی جلتا رہتا ہے اور ہمیشہ جلتا ہی رہے گا۔ بلھا امر تھا اور ہمیشہ امر ہی رہے گا۔ آخر میں جیت تو ہر دور میں بلھے کی ہی رہی ہے۔ اگر بلھا نہ ہوتا تو شاہ عنایت کو کون جانتا؟ یہ بات جب تک ہر عنایت کو سمجھ آتی ہے، تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ بلھا کندن بن چکا ہوتا ہے اور اس کا عنایت راکھ۔ آخر میں ہر عنایت کے آس پاس خوش بُو تو صرف اور صرف اس کے بلھے کی ہی ہوتی ہے۔
میں قطعی طور شاہ عنایت کی طرف رخ نہ کرتا مگر راہِ فرار ممکن نہیں تھی۔ مجھے تو بلھا مارتا تھا۔ آخری نقطہ شاید یہی ہے کہ بلھا اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا اور میں اپنے۔
شاہ عنایت کے دربار میں ہی شجاعت نے مجھے پھولوں کا ایک شاپر دیا جسے میں نے چپ چاپ شاہ عنایت کے قدموں میں ڈال دیا۔ ایک بلھا اپنے عنایت کے قدموں میں پھول ڈالنے کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہے۔
ہم شاہ عنایت کے دربار سے باہر نکلے تو باغِ جناح جا کر شجاعت نے بریک لگا دیا جسے کسی زمانے میں باغِ گناہ بھی کہا جاتا تھا۔ ویسے اس باغ کا اصل نام لارنس گارڈن ہے۔
لارنس گارڈن
لارنس گارڈن کی بنیاد 1860 کی دہائی میں رکھی گئی تھی، جب پنجاب کے زرعی و پودوں کے شعبے نے اسے لندن کے باغات کی طرز پر بنایا تھا۔ اس باغ کا نام جان لارنس کے نام پر رکھا گیا تھا۔ جان لارنس مشترکہ پنجاب کے چیف کمشنر اور پھر متحدہ ہندوستان کے وائسرائے بھی بنے۔
اس باغ میں پہلا درخت 1862 میں لگایا گیا۔ 1876 تک باغ میں تقریباً 80,000 درخت اور جھاڑیاں جن میں دنیا کے مختلف خطوں سے پودے شامل تھے۔ 1904 میں باغ کی دیکھ بھال محکمہ زراعت نے سنبھالی اور 1912 سے تقریباً سات ایکڑ زمین گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور نے آزمائشی باغ کے طور پر استعمال کی۔ تقسیم کے بعد ہم نے اس باغ کا نام تبدیل کرنا مناسب سمجھا اور اس کا نام ’’لارنس گارڈنز‘‘ کی جگہ ’’باغِ جناح‘‘ رکھ دیا گیا تاکہ قائدِاعظم محمد علی جناح کو خراجِ عقیدت پیش کیا جا سکے۔ قائداعظم کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے نیا باغ بنانے کی بجائے لارنس گارڈن کا نام تبدیل کردینا کس قدر آسان اور احسن اقدام تھا۔ یہ جس شخص کا بھی خیال تھا، اس شخص کے اس خیال کو بھی سرخ سلام۔
باغِ جناح کا کل رقبہ تقریباً 141 ایکڑ جب کہ بعض حوالوں میں کہا گیا ہے کہ یہ ابتدا میں 176 ایکڑ پر محیط تھا، جس کا ایک حصہ بعد میں لاہور چڑیا گھر اور تعلیمی شعبوں کے لیے وقف ہوا۔ اس وقت بھی باغ میں 6,000 سے زائد مختلف درخت اور جھاڑیاں، بشمول بنس، شیشم، پیپل، بو اور دیگر شامل ہیں۔
باغِ جناح میں بہت سی اہم عمارات ہیں جن میں سے ایک لارنس ہال ہے۔ اس کا تعلق براہِ راست برطانوی نوآبادیاتی دور سے ہے۔ اسے 1861-62 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور کے یورپی رہائشیوں نے اس کے لیے چندہ بھی جمع کیا تھا۔ لارنس ہال کا ڈیزائن اس وقت کے مشہور ڈیزائنر جی اسٹون G. Stone نے بنایا تھا۔ اس ہال کو بنانے کا مقصد برطانوی افسران اور یورپی کمیونٹی کے لیے ایک سوشل کلب اور تقریبات کا مقام بنانا تھا۔ بلند محرابی دروازے، سرخ اینٹوں کی دیواریں، سفید پتھر، بارڈر لکڑی کا نفیس کام اور چوڑی کھڑکیاں، یہ وہ سب چیزیں ہیں جو لارنس ہال کی شان چوگنی کردیتی ہیں۔ آج بھی لارنس ہال کے اندر کھلا اور کشادہ ہال ہے جس میں کسی زمانے میں ڈانس اور موسیقی کی تقریبات ہوتی تھیں۔
لارنس ہال کے بعد باغِ جناح کا دوسرا بڑا ہال مونٹگمری ہال ہے جو آج بھی اپنی خوب صورتی، نمایاں عمارت اور ورثے کی وجہ سے مشہور ہے۔ اسے لارنس ہال کے بعد 1866 میں تعمیر کیا گیا تھا جب کہ اس کا ڈیزائن اس وقت کے مشہور معمار گورڈن نے بنایا تھا۔ تاریخ سے محبت کرنے والے جانتے ہیں کہ اس ہال کا نام پنجاب کے اس وقت کے لیفٹیننٹ گورنر سر رابرٹ مونٹگمری کے نام پر رکھا گیا تھا۔ لارنس ہال کی طرح منٹگمری ہال کا مقصد بھی برطانوی افسران اور یورپی کمیونٹی کے لیے ایک تقریب گاہ بنانا تھا جہاں موسیقی، رقص اور سماجی میل جول کی محافل برپا ہو سکیں۔ 1984 میں لارنس ہال کے ساتھ ملا کر اسے قائدِاعظم لائبریری کا حصہ بنا دیا گیا۔
باغِ جناح میں ایک اچھے وقتوں کا بنایا گیا اوپن ایئر تھیٹر بھی ہے جو عوامی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ یہ تھیٹر باغ کے تقریباً وسطی حصے میں واقع ہے اور یہ لاہور کے چند مشہور کھلے تھیٹروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اسے پاکستان بننے کے بعد بنایا گیا تھا جس کا مقصد شہریوں کو کھلے آسمان تلے فنونِ لطیفہ سے لطف اندوز ہونے کا موقع دینا تھا۔ یہاں سیڑھی نما نشستیں ہیں۔ یہ اوپن ایئر تھیٹر ڈرامے، موسیقی، رقص کی محافل کے علاوہ مشاعرے اور شعری محفلوں کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔
قائد اعظم لائبریری 1984 میں باغِ جناح کے لارنس ہال اور مونٹیگمری ہال دونوں کو مشترکہ طور پر ملا کر ایک لائبریری بنا دی گئی جسے قائد اعظم لائبریری کہا جاتا تھا۔ یہ لائبریری پاکستان کی بڑی ریفرنس لائبریریوں میں شمار ہوتی ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں کتب، جرائد اور مخطوطات موجود ہیں۔ خاص طور پر سماجی علوم، ادب، تاریخ، فلسفہ، سائنس اور اسلامک اسٹڈیز پر بہت بڑا ذخیرہ ملتا ہے۔
باغِ جناح کرکٹ اسٹیڈیم
اگر آپ غیر لاہوری ہیں تو آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ باغِ جناح میں ایک چھوٹا مگر پیارا سا کرکٹ اسٹیڈیم بھی موجود ہے، جسے عام طور پر باغِ جناح کرکٹ گراؤنڈ کہا جاتا ہے۔ یہ گراؤنڈ تاریخی لحاظ سے پاکستان کے پرانے کرکٹ مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ ڈومیسٹک کرکٹ: زیادہ تر یہ گراؤنڈ ڈومیسٹک سطح کے میچز کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کرکٹ گراؤنڈ تقریباً دو سو گز کا ہے جب کہ دو پچز ہیں جن کی لمبائی بائیسں گز ہے۔ انٹرنیٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق یہ پاکستان کا پہلا جب کہ برصغیر پاک و ہند کا دوسرا قدیم ترین گراؤنڈ ہے۔ اسے 1880 میں قائم کیا گیا تھا۔ پہلا گراؤنڈ کولکتہ ایڈن گارڈن گراؤنڈ ہے جسے 1864 میں تعمیر کیا گیا تھا۔
لاہور جم خانہ کرکٹ گراؤنڈ کا پویلین ایک شاہ کار ہے۔ اس کے فن تعمیر کا کریڈٹ سر اسٹون اور بھائی رام سنگھ کو جاتا ہے۔ پویلین کیلئے بیرون ملک سے خاص طور پر شاہ بلوط کی لکڑی منگوائی گئی۔
جم خانہ کرکٹ کلب کی عمارت میں کرکٹ میوزیم قائم ہے، جس کا سہرا نجم لطیف کے سر ہے۔ یہاں پر عالمی کرکٹ کے نام ور کھلاڑیوں کی نایاب تصاویر اور ان کے زیرِاستعمال یا دستخط شدہ گیندیں بھی ہیں۔ قائداعظم کی نذر محمد کے ساتھ اکلوتی فوٹو بھی یہاں موجود ہے۔ یہاں پر کھیلنے والی ٹیموں کے جھنڈے، بینرز جب کہ کھلاڑیوں کے استعمال میں رہنے والی نایاب اشیاء بھی موجود ہیں۔
یہاں پہلا بین الاقوامی میچ میلبورن کرکٹ کلب اور برطانوی فوج کی ٹیم کے مابین 1926ء میں کھیلا گیا تھا، جب کہ آزادی کے بعد فنڈ ریزنگ کیلئے 1947ء میں پنجاب اور سندھ کی ٹیموں کے مابین ایک یادگار میچ بھی یہاں کھیلا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں کرکٹ کنٹرول بورڈ آف پاکستان کا قیام بھی اسی کلب میں ہوا جو بعد میں قذافی اسٹیڈیم میں شفٹ ہو گیا۔
اب یہ گراؤنڈ صرف جم خانہ کلب کے اراکین کے لیے عام پریکٹس میچوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
باغِ جناح کی بارہ دری
موجودہ شہرِلاہور پر مغلوں کی ایک گہری چھاپ ہے۔ بارہ دری ایک ایسی شے ہے جو آپ کو لاہور میں تو کثرت سے ملیں گی ہی ملیں گی مگر پنجاب کے دوسرے بہت سے شہروں میں بھی یہ بارہ دریاں موجود ہیں۔ بارہ دری جس کے بارہ دروازے ہوں۔ عام طور ہر طرف تین تین دروازے بنے ہوتے ہیں۔ لاہور کے اس باغِ جناح میں بھی مغلیہ دور کی یاد تازہ کرتے ہوئے ایک بارہ دری بنائی گئی ہے جو پہلی نظر میں دیکھنے پر ذرا عجیب سی لگی۔ وجہ بعد میں معلوم ہوئی کہ یہ بارہ دری مربع شکل کی بجائے مستطیل شکل میں بنی ہوئی تھی یعنی دو اطراف چار چار دروازے تھے اور دو اطراف میں دو دو دروازے۔ باغِ جناح لاہور کی بارہ دری ایک خوبصورت تاریخی عمارت ہے۔ یہ بارہ دری مغل طرزِتعمیر کی جھلک پیش کرتی ہے اور سفید سنگِ مرمر سے بنی ہوئی ہے۔ جب ہم وہاں تھے تو آرٹ کے طلباء اپنے اپنے اسکیچز بنانے میں مصروف تھے۔ بارہ دری سیاحوں، طلبہ اور فوٹوگرافروں کے لیے ایک پرکشش مقام ہے۔
باغِ جناح کے ہرن اور کافور کا درخت
باغِ جناح کی انتہائی خوب صورت شے وہاں کے ہرن ہیں۔ میں کافور درخت کے پاس کھڑا تھا کہ سامنے یک دم ہرن آ گئے۔ میں بھاگ کر ان ہرنوں کے پاس چلا گیا۔ کچھ بچے پاس ہی کھڑے ہرنوں کو بسکٹ کھلا رہے تھے۔ میرا بھی جی للچایا۔ شجاعت علی کے مشورے پر میں نے ایک لڑکے سے بسکٹ ادھار مانگا اور ہرن کو کھلانے لگا۔ وہ منظر اس قدر خوب صورت تھا کہ میرا بسکٹ چھوڑنے کو ذرا جی نہ چاہتا تھا۔ ہرن نے بڑی کوشش کی کہ میں بسکٹ چھوڑ دوں مگر میں بھی اپنی دھن کا پکا تھا، بسکٹ اپنے ہاتھ میں ہی رکھا۔ وہ ہرن بسکٹ چاٹنے لگا۔ میں نے بالآخر بسکٹ چھوڑا اور واپس کافور کے درخت کے پاس آ گیا۔
کافور کا یہ درخت بانو قدسیہ کے حوالے سے بہت مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ بانو آپا اسی کافور کے درخت کے نیچے بیٹھ کر راجہ گدھ لکھا کرتی تھیں۔ پہلے تو اس درخت کے ہی نیچے بیٹھنے کی کوئی خاص وجہ میری سمجھ میں نہ آئی مگر جب اپنے سامنے ہرنوں کو دیکھا تو جانا کہ ایسا خوب صورت منظر اسی درخت کے سامنے ہی ممکن ہے۔ اب مجھے یہ نہیں پتا کہ جب بانو آپا یہاں بیٹھا کرتی تھیں تب یہاں ہرن تھے یا نہیں۔ بانو آپا نے ویسے تو متعدد ناول لکھے مگر ان کو شہرت راجہ گدھ نے ہی دی۔ آپ بھی اگر ادب پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں تو یقیناً بانو قدسیہ کا ناول راجہ گدھ آپ نے ضرور پڑھا ہوگا۔
میں نے بھی زمانۂ طالبِ علمی میں اسے بہت شوق سے پڑھا تھا مگر اس کتاب کا اختتام پڑھ کر سخت مایوسی ہوئی۔ یہ کہاں کا انصاف ہوا کہ چوں کہ والدین کے خمیر میں حرام تھا، اس لیے پیدا ہونے والے بچے کے ڈی این میں بگاڑ پیدا اور بچہ صاحب معذور۔ مجھے یقین کی حد سے بھی آگے کا یقین ہے کہ اس کتاب کا آخری باب بانو قدسیہ جیسی ماڈرن تہذیب یافتہ لڑکی نہیں لکھ سکتی۔ اس کتاب کے آخری باب کو اشفاق احمد نے لکھا ہے۔ جو ایک خاص سوچ اس زمانے میں ضیاء الحق کی چھتری تلے ان بابوں نے پروان چڑھائی، اسی سوچ کے تحت راجہ گدھ کا بھی آخری باب لکھا گیا یا بانو آپا سے زبردستی لکھوایا گیا۔ معاملہ خواہ جو بھی رہا ہو، اس بات میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ بانو آپا ایک بہت بڑی مصنفہ تھیں اور ان کا لکھا ہوا ایک عرصے تک زندہ رہے گا۔
میں کافور درخت کے پاس کھڑا کہ شجاعت نے سوال داغ دیا کہ کافور کثرت سے کہاں استعمال ہوتا ہے۔ مجھے لاعلم جان کر شجاعت نے بتایا کہ کافور کی خوشبو مُردوں کو لگائی جاتی ہے۔ کافور کا نام سنتے ہی میرے ذہن میں علاؤالدین خلجی کا وہ غلام ملک کافور آگیا۔
ملک کافور ہندوستان کی تاریخ کا ایک مشہور اور متنازعہ کردار تھا۔ علاؤ الدین خلجی کے عہد (1296ء – 1316ء) میں یہ کردار بہت اہم تھا۔ ملک کافور جسے کبھی ’’کافور ہزار دیناری‘‘ بھی کہا جاتا تھا، اصل میں ایک غلام تھا جسے ایک گجراتی تاجر نے بازار سے خریدا اور بعد میں علاؤالدین خلجی کے دربار میں پیش کیا۔ بعد میں یہ علاؤالدین خلجی کا نہایت قریبی اور بااعتماد امیر، فوجی کمانڈر اور وزیر بھی رہا۔ ملک کافور نے دکن اور جنوبی ہند کی سلطنتوں (جیسے یدواڑ، ہوئسالہ، پاندیہ وغیرہ) پر بھی لشکرکشی کی۔ اس کی قیادت میں دہلی سلطنت نے جنوبی ہندوستان تک اپنا دائرہ پھیلایا۔ بڑی مقدار میں دولت، ہیرے جواہرات اور خاص طور پر کوہِ نور ہیرا دہلی لایا گیا۔ وہ علاؤ الدین خلجی کا سب سے قریبی مشیر اور معتمد بن گیا۔ بادشاہ کی زندگی کے آخری دور میں ریاستی معاملات بڑی حد تک اسی کے ہاتھ میں تھے۔
1316ء میں علاؤ الدین کی موت کے بعد ملک کافور نے نو عمر بادشاہ شہاب الدین عمر کو تخت پر بٹھایا اور خود نگراں بنا۔
لیکن دربار میں مخالفت بڑھی اور کچھ ہی عرصے بعد اسے معزول کرکے قتل کردیا گیا۔ کافور دراصل ایک خواجہ سرا تھا، لیکن اپنی ذہانت، بہادری اور چالاکی سے سلطنتِ دہلی کے سب سے طاقت ور لوگوں میں شمار ہونے لگا۔ اب علاؤالدین خلجی اور اس کے غلام ملک کافور کے درمیان جسمانی تعلقات تھے یا نہیں، اس بارے مجھے زیادہ علم نہیں مگر اکثریتی رائے یہی ہے کہ کم از کم ملک کافور علاؤالدین پر پہلی نظر میں ہی مر مٹا تھا۔ ملک کافور جب جب علاؤالدین خلجی کے لیے حرم سے کوئی لڑکی تیار کرواتا اور سخت آہیں بھرتا ہوا اس لڑکی کو خلجی کے حوالے کرتا تھا۔ ملک کافور کی اس تڑپ سے خلجی ضرور واقف ہوگا اور کبھی نہ کبھی تو علاؤالدین خلجی کا دل بھی ملک کافور پر ضرور آیا ہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی آپ سے شدید محبت کرے اور آپ کے محبوب کو اس کی خبر ہی نہ ہو۔
دارالسلام کتب خانہ
باغِ جناح لاہور میں دارالسلام کا کتب خانہ بھی موجود ہے۔ یہ کتب خانہ دارالسلام پبلی کیشنز کی جانب سے قائم کیا گیا ہے، جو برصغیر میں دینی کتب کی اشاعت کے اعتبار سے ایک بڑا نام ہے۔ کتب خانے میں اسلامیات، تاریخ، حدیث، تفسیر، فقہ اور دیگر موضوعات پر ہزاروں کتابوں کے علاوہ قرآنِ مجید کے تراجم اور شرح، صحیح بخاری و مسلم کے تراجم، اور عربی و اردو کی مستند کتب یہاں موجود ہیں۔ آپ نہ صرف یہاں بیٹھ کر کتب کا مطالعہ کر سکتے ہیں بلکہ ان کتب کو خرید بھی سکتے ہیں۔
گلشنِ فاطمہ
باغِ جناح کا سب سے خوب صورت گوشہ گلشنِ فاطمہ ہے۔ جہاں شروع شروع میں تو صرف خواتین اور بچوں کو جانے کی اجازت تھی مگر مردوں کے داخلے پر پابندی تھی۔ بعد میں یہ پابندی سب پر لگا دی گئی۔ سننے میں آیا ہے گلشنِ فاطمہ اب صرف سرکاری تقریبات کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ گلشنِ فاطمہ صرف ایک باغ ہی نہیں بلکہ ایک تاریخی اور ثقافتی مقام بھی رہا ہے۔ انگریز دور سے لے کر آج تک یہاں متعدد غیرملکی شخصیات اور سربراہانِ مملکت آتے رہے ہیں۔
برطانوی دور میں لارنس گارڈن انگریز افسران اور گورنرز کی خاص رہائش و تفریح گاہ رہا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ جگہ غیر ملکی مہمانوں کو لاہور کی میزبانی کے طور پر دکھائی جاتی رہی۔ اگرچہ بہت سے سرابانِ گلشنِ فاطمہ کی دورہ کرچکے ہیں مگر ان سے چند بڑے نام ملکہ الزبتھ دوم، انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو، ترکی کے صدور و وزرائے اعظم، شاہِ ایران محمد رضا پہلوی کے علاوہ دیگر ایشیائی اور عرب ممالک کے سربراہان شامل ہیں۔
گلشنِ فاطمہ میں آپ کو سیمنٹ سے بنے مور بھی نظر آئیں گے جہاں بیٹھ کر آپ انتہائی شان دار تصاویر بنوا سکتے ہیں۔ گلشنِ فاطمہ میں آج بھی ایک پتھر پر وہ گھڑی بنی ہوئی ہے جو سورج کی شعاعوں کی مدد سے وقت بتاتی تھی۔ اب یا تو وہ گھڑی خراب ہے یا پھر مجھے ہی وقت دیکھنا نہیں آیا۔ اگرچہ کہ گلشنِ فاطمہ میں جانے پر پابندی تھی مگر ہم پھر بھی نگران صاحب سے نظریں بچاتے ہوئے گلشنِ فاطمہ میں چلے گئے۔ خوب سیر ہو کر تصاویر بنوا چکے تو ایک گائیڈ صاحب بھی وہاں پہنچ گئے اور ہمیں گلشنِ فاطمہ سے روانگی کا حکم صادر کردیا۔
اب آخر میں بات کرتے ہیں باغِ جناح کی چمگاڈروں کی۔ عین ممکن ہے کہ باغِ جناح میں بہت سے پرندے ہوں مگر میں جو ایک درخت کے نیچے سے گزرا تو شجاعت نے مجھے اوپر دیکھنے کو کہا۔ اوپر دیکھا تو اچھی خاصی موٹی تازہ چمگادڑریں تھیں۔ نہ ایک نہ دو، شاید ان کی تعداد سیکڑوں میں تھی۔ اس جسامت کی چمگادڑریں میں نے پہلی بار دیکھی تھیں۔ الٹا لٹک کر لڑتی جھگڑتیں اور جھولا لیتیں یہ چمگادڑریں سچ مچ بہت بھلی لگ رہی تھیں۔ شجاعت پورے پنکھ پھیلائے اڑتی ہوئی چمگاڈروں کی تصاویر لینا چاہتا تھا۔ مجھے ذرا بھی حیرت نہ ہوئی جب میں نے شجاعت کو منہ سے پرندوں کی آواز نکالتے ہوئے سنا۔ ایک نارمل انسان کبھی بھی اچھا فنکار نہیں ہو سکتا۔ اچھا فنکار تو چھوڑیم وہ ایک سادہ فن کار بھی نہیں ہوسکتا۔ شجاعت اچھا خاصا فن کار آدمی ہے۔
ایسی ظالم قسم کی فوٹو گرافی کرتا ہے کہ پوچھیے مت۔ نارمل انسانوں کے بس کی بات کہاں ہوتی ہے ایک ہی منظر کو مختلف زاویوں سے نہ صرف دیکھنا بلکہ انھیں اپنے کیمرے میں محفوظ بھی کرنا۔ شجاعت جب باغِ جناح میں ہی موجود جم خانہ کرکٹ گراؤنڈ کی فوٹو گرافی میں مصروف تھا تو درخت کی ایک شاخ پر گلشن آ کر بیٹھ گئی۔ اب دیکھیں کہ کیسا شان دار منظر رہا اور پھر ویسی ہی تصویر بنی کہ شجاعت نے اپنے منہ سے پرندوں کی کچھ بولی بولی، جس کا جواب اس گلشن نے بھی دیا۔
گلشن نے ابھی منہ کھولا ہی تھا کہ شجاعت نے فوراً اس کھلے منہ والی گلشن کو اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا جس کے پیچھے جم خانہ کرکٹ گراؤنڈ کی خوب صورت عمارت بھی نظر آ رہی تھی۔ اب آپ ہی بتائیں کہ کیا شجاعت ایک نارمل انسان ہو سکتا ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ کبھی کبھی تو مجھے گمان ہوتا ہے کہ اگر ابنارمل انسانوں کے درجات ایسے بنائیں جائیں کہ سب سے کم ابنامل انسان سب سے نیچے والے درجے میں ہوں اور جوں جوں اپنے درجات بڑھاتے چلے جائیں توں توں ابنارملیٹی بڑھتی جائے تو جس خوب صورت مہارت اور فن کاری سے شجاعت تصاویر بناتا ہے، مجھے پورا یقین ہے کہ وہ آپ کو ابنارملیٹی کے سب سے اونچے درجات میں سے کسی ایک درجے میں ملے گا۔
باغِ جناح سے نکلے تو شجاعت نے اپنی بائیک کا رخ گورا قبرستان کی جانب کردیا۔ یہاں مہاراجا رنجیت سنگھ کی آخری شہزادی، شہزادی بمباں کی قبر ہے۔ شہزادی بمباں پر تو تفصیلی بات بعد میں کریں گے۔ فی الحال تو مجھے یہاں ایک دل چسپ بات آپ کو بتانی ہے۔
لاہور کے گورا قبرستان میں داخل ہوئے تو طے یہی پایا تھا کہ قبرستان میں داخل ہوتے ہی کسی سے کلام نہیں کرنا، کوئی اجازت طلب نہیں کرنی۔ بس چپ چاپ مکمل خوداعتمادی کے ساتھ چلتے جانا ہے جیسے یہاں آنا ہمارا معمول ہو۔ اگر کوئی روکے گا تو پھر دیکھا جائے گا۔ ہم نے یہی کیا۔ شجاعت علی اپنی بائیک قبرستان کے اندر ہی لے گیا۔ ہم نے تمام افراد کو نظر انداز کیا اور سیدھا چلتے بنے۔
یہ سب اس لیے ممکن ہوا کہ شجاعت علی شہزادی بمباں کی قبر بارے پہلے ہی معلومات لے چکا تھا کہ وہ کس طرف ہے۔ داخلی دروازے سے بالکل سیدھا چلنے پر ایک گول چوک سا آئے گا۔ چوک سے ذرا آگے ہی بائیں جانب یعنی آپ کے اپنے ہاتھ شہزادی بمباں ابدی ننید سو رہی ہے۔ لطف کی بات یہ رہی کہ اسی گول چکر سے ذرا آگے آنے پر جب ہمیں قبر نہ ملی تو ہم دونوں دائیں بائیں دیکھنے لگے۔ ایک گورکن ہماری جانب چلتا آ رہا تھا۔ شجاعت علی نے شہزادی بمباں کی قبر بارے پوچھنے کے لیے فقط منہ کھولا ہی تھا کہ میں نے شہزادی بمباں کی قبر کا کتبہ پڑھ لیا۔ ہم جہاں کھڑے اپنے دائیں بائیں شہزادی بمباں کی قبر تلاش کرتے تھے، بالکل وہیں شہزادی کی قبر تھی۔ اتفاقاً ہم نے اپنی بریک عین قبر کے سامنے ہی لگائی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ہم شہزادی بمباں کی تلاش میں نہیں نکلے تھے بلکہ شہزادی بمباں بذاتِ خود ہماری منتظر تھی۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل