Friday, December 19, 2025
 

بھارتی آبی دہشت گردی

 



بھارتی آبی اقدامات انسانی بحران کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے غیر ملکی سفارت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ سندھ طاس معاہدہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کا ایک اہم ستون ہے، جسے کمزور کرنے کی کوششیں پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتی ہیں۔ دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی بین الاقوامی معاہدات کے تقدس اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کے لیے خطرہ ہے۔ دراصل سندھ طاس معاہدہ دہائیوں سے جنوبی ایشیا میں آبی تنازعات کو قابو میں رکھنے کا ایک مؤثر ذریعہ رہا ہے، مگر بھارت کی جانب سے مشترکہ نگرانی اور معلومات کے تبادلے کے عمل کو سبوتاژ کرنا نہ صرف عالمی قوانین سے انحراف ہے بلکہ خطے کو ایک ممکنہ انسانی بحران کی طرف دھکیلنے کے مترادف بھی ہے۔ اسحاق ڈار کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ طے شدہ تنازعاتی حل کے طریقہ کار سے فرار بین الاقوامی ذمے داریوں کی نفی کے سوا کچھ نہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ بھارتی قیادت بالخصوص وزیر داخلہ کی جانب سے کھلے عام معاہدہ بحال نہ کرنے اور پانی کا رخ موڑنے جیسے بیانات سامنے آ چکے ہیں، جو پاکستان کی غذائی سلامتی، زرعی معیشت اور کروڑوں انسانوں کے روزگار کے لیے براہ راست خطرہ ہیں۔ پاکستان پہلے ہی اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سمیت عالمی فورمز پر اٹھا چکا ہے اور سات دسمبر کے بعد دریائے چناب میں بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر پانی چھوڑنے اور بہاؤ میں غیر معمولی اتار چڑھاؤ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے باضابطہ احتجاج بھی ریکارڈ کرایا گیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کی یہ وارننگ بالکل برمحل ہے کہ زرعی سائیکل کے ایک نازک مرحلے پر دریائی بہاؤ میں کسی بھی قسم کی ہیرا پھیری براہ راست شہریوں کی زندگیوں، روزگار، خوراک اور معاشی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ بھارت کی یہ روش نہ صرف بین الاقوامی معاہدات کے تقدس کے لیے چیلنج ہے بلکہ علاقائی امن، اچھی ہمسائیگی اور بین الریاستی تعلقات کے بنیادی اصولوں کو بھی مجروح کر رہی ہے۔  بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی مسلسل اور منظم خلاف ورزیاں اب محض سفارتی بیانات یا تکنیکی اختلافات تک محدود نہیں رہیں بلکہ یہ معاملہ براہ راست پاکستان کی بقا، غذائی سلامتی، معاشی استحکام اور خطے کے امن سے جڑ چکا ہے۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی جانب سے غیر ملکی سفارت کاروں کے سامنے بھارت کے طرزِ عمل کو بے نقاب کرنا دراصل عالمی برادری کو یہ باور کرانے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے کہ پانی جیسے بنیادی انسانی وسیلے کو سیاسی دباؤ اور بالادستی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا بین الاقوامی قوانین، اخلاقی اقدار اور انسانیت کے اجتماعی ضمیر کے منافی ہے۔ بھارت کا اپریل 2025 میں سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان اور اس کے بعد پاکستان کو فراہم کیے جانے والے ہائیڈرو لوجیکل ڈیٹا، پیشگی اطلاعات اور مشترکہ نگرانی کے نظام کو روک دینا اس تاریخی معاہدے کی روح پر کاری ضرب ہے، جس نے دہائیوں تک جنوبی ایشیا کو ایک بڑے آبی تصادم سے محفوظ رکھا۔ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا اور اسے دنیا کے کامیاب ترین آبی معاہدات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے نے نہ صرف بھارت اور پاکستان کے درمیان دریاؤں کی تقسیم کا واضح فریم ورک دیا بلکہ تنازعات کے حل کے لیے مستقل ادارہ جاتی نظام بھی فراہم کیا، جس میں انڈس واٹر کمیشن، ڈیٹا کا باقاعدہ تبادلہ اور تکنیکی مشاورت شامل تھی۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کے پانی کے استعمال کا حق دیا گیا، جو پاکستان کی زرعی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ پاکستان کی تقریباً اسی فیصد زراعت انھی دریاؤں کے پانی پر انحصار کرتی ہے اور ان دریاؤں کے بہاؤ میں معمولی سی غیر یقینی بھی لاکھوں کسانوں، زرعی پیداوار اور قومی معیشت کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بھارت کی جانب سے ہائیڈرو لوجیکل ڈیٹا کی فراہمی روکنا ایک تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ ایک دانستہ اقدام ہے جس کے اثرات دوررس اور تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ پانی کے بہاؤ، ڈیموں میں ذخیرے، برف پگھلنے اور ممکنہ سیلاب سے متعلق معلومات کسی بھی زیریں ملک کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہوتی ہیں۔ ان معلومات کے بغیر پاکستان نہ صرف اپنی زرعی منصوبہ بندی سے محروم ہو جاتا ہے بلکہ اچانک سیلابی ریلوں اور غیر معمولی اتار چڑھاؤ کے باعث انسانی جانوں، املاک اور انفرا اسٹرکچر کو بھی شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔  بھارت کا اس پورے نظام کو نظر انداز کرنا دراصل عالمی معاہدات کے تقدس کو پامال کرنے کے مترادف ہے، جس کے نتائج صرف پاکستان اور بھارت تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ دنیا بھر میں آبی معاہدات کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچائیں گے۔ مزید تشویشناک امر یہ ہے کہ بھارتی قیادت کے اعلیٰ سطح کے بیانات اب کھلے عام پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی ذہنیت کی عکاسی کر رہے ہیں۔ بھارتی وزیر داخلہ کے یہ بیانات کہ معاہدہ بحال نہیں کیا جائے گا اور پانی کا رخ موڑا جائے گا، محض سیاسی نعرے نہیں بلکہ ایک ایسے ارادے کی نشاندہی کرتے ہیں جو پاکستان کی غذائی سلامتی اور معاشی استحکام کو براہ راست نشانہ بناتا ہے۔ پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے پانی کی قلت صرف فصلوں کی ناکامی نہیں بلکہ خوراک کی قلت، مہنگائی، بے روزگاری اور سماجی بے چینی کا باعث بن سکتی ہے، جس کے اثرات پورے معاشرے میں پھیل جاتے ہیں۔ پاکستان نے اس معاملے پر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جارحانہ ردعمل کے بجائے سفارتی، قانونی اور بین الاقوامی راستہ اختیار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متعدد بار اس مسئلے کو اٹھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان عالمی برادری کو اعتماد میں لے کر ایک منصفانہ اور پائیدار حل چاہتا ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت مزید سنگین صورت اختیارکر لیتا ہے جب خطے میں پانی کے دیگر محاذ بھی کھل رہے ہیں۔ افغانستان کی جانب سے دریائے کابل پر متعدد منصوبوں کا آغاز پاکستان کے لیے ایک نئے چیلنج کی صورت میں سامنے آیا ہے، اگرچہ افغانستان کو اپنے وسائل کے استعمال کا حق حاصل ہے، مگر بین الاقوامی اصولوں کے مطابق زیریں ممالک کے حقوق کا تحفظ اور مشاورت ناگزیر ہوتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارت مغربی دریاؤں پر دباؤ بڑھا رہا ہے، دریائے کابل کے بہاؤ میں ممکنہ کمی پاکستان کے آبی دباؤ کو دوچند کر سکتی ہے۔ دریا صدیوں سے اپنے قدرتی راستوں پر بہتے آ رہے ہیں اور تہذیبیں انھی دریاؤں کے کنارے پروان چڑھی ہیں۔ ان قدرتی گزرگاہوں میں زبردستی رکاوٹیں ڈالنا، پانی کو سیاسی مفادات کے تحت موڑنا یا روکنا آبی دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ عمل نہ صرف انسانوں بلکہ ماحولیات، حیاتیاتی نظام اور آنے والی نسلوں کے حقوق پر بھی حملہ ہے۔ دنیا پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی، گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے اور پانی کی قلت جیسے مسائل کا سامنا کر رہی ہے، ایسے میں آبی تنازعات کو ہوا دینا ایک اجتماعی خودکشی کے مترادف ہے۔ پاکستان کی جانب سے انڈس واٹر کمیشن کے ذریعے باضابطہ سفارتی اور قانونی راستہ اختیار کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان معاہدوں، قوانین اور مذاکرات پر یقین رکھتا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر بین الاقوامی برادری نے بروقت اور مؤثر کردار ادا نہ کیا تو آبی تنازعات مستقبل کے سب سے بڑے تنازعات میں تبدیل ہو سکتے ہیں، خاص طور پر ایسے خطے میں جہاں دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہوں۔ پانی کو جنگ کا ہتھیار بنانے کا تصور نہ صرف خطرناک ہے بلکہ ناقابلِ قبول بھی ہے۔ آخرکار یہ سوال صرف پاکستان یا بھارت کا نہیں بلکہ عالمی نظام کی ساکھ کا ہے، اگر ایک ملک کسی بین الاقوامی معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کر کے دوسرے ملک کی زندگی کی شہ رگ پر ہاتھ ڈال سکتا ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی رہے، تو کل کو کوئی بھی معاہدہ محفوظ نہیں رہے گا۔ سندھ طاس معاہدہ محض ایک آبی دستاویز نہیں بلکہ خطے میں امن، تعاون اور بقائے باہمی کی علامت ہے۔ اس کی خلاف ورزی دراصل ان تمام اصولوں کی نفی ہے جن پر عالمی نظام قائم ہے۔ عالمی برادری کو اب محض بیانات سے آگے بڑھ کر عملی کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ پانی کو تنازع کے بجائے تعاون کا ذریعہ بنایا جا سکے اور جنوبی ایشیا کو ایک ایسے بحران سے بچایا جا سکے جس کے اثرات نسلوں تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل