Loading
برصغیر پاک و ہند پر اللہ رب العزت کا خصوصی فضل و کرم ہے کہ اولیاء اللہ اورصوفیاء کرام کی مساعی اور محنتوں کی بدولت اللہ کے محبوب دین اسلام سے والہانہ محبت کے چراغ روشن ہیں۔ یہ سلسلہ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ سے شروع ہوا، خواجہ سید علی ہجویریؒ، حضرت بابا فرید الدینؒ، خواجہ بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ سے ہوتا ہوا، حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، مولانا قاسم نانوتویؒ، مولانا محمد الیاسؒ، مولانا خورشید احمد گنگوہیؒ، مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، مولانا زکریا کاندھلویؒ، مولانا اشرف علی تھانویؒ، سید انور شاہ کشمیریؒ تک پہنچا اور ان اولیاء اللہ کا فیض آج تک جاری و ساری ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ اس سرزمین پر اولیاء اللہ کی تعلیمات سے اسلام پھیلا اور کروڑوں قلوب ایمان کی دولت سے فیض یاب اور منور ہوئے۔ اللہ رب العزت کا کرم اور اولیاء اللہ کی کرامت و تاریخ ساز جدوجہد اور محنت و عرق ریزی نے انسانیت کے مردہ قلوب کو اسلام کی تابندہ روشنی سے منور کیا۔
ہم نے اپنے دور میں ان اولیاء کے فیض کو بانٹتے جن شخصیات کو دیکھا ان میں دو شخصیات گزشتہ دنوں دار الفنا سے دارالبقا چل کر اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوچکے ہیں۔ 13 اور 14 دسمبر 2025 کو عالم اسلام کی یہ دو عظیم روحانی شخصیات یک بعد دیگرے دار فانی سے دار بقا کی جانب کوچ کر گئیں، ان کی وفات نے پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام پر سوگ کی چادر تان رکھی ہے، پوری دنیا کے علماء و مشائخ، ان کے خلفاء، لاکھوں مریدین اور عوام الناس ان ہستیوں کے انتقال پر غمزدہ ہیں۔
ان میں سے ایک ہستی کا نام حضرت مولانا پیر عبدالرحیم نقشبندی سجادہ نشین خانقاہ حبیبیہ دارالعلوم حنفیہ چکوال ہے، جن کی وفات کی خبر 13 دسمبر کو سوشل میڈیا کے ذرریعے پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور دوسری شخصیت حضرت اقدس حافظ پیر ذوالفقار نقشبندی ہیں جو 14 دسمبر کو دار فانی سے رخصت ہوئے۔
دونوں ہستیوں کا تعلق سلسلہ نقشبندیہ سے تھا، تصوف کے سلاسل میں سلسلہ نقشبندیہ خلیفہ بلافصل امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے اور عجیب اتفاق دیکھئے کہ 14 دسمبر کو 22 جمادی الثانی یعنی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یوم وصال تھا۔ اسی روز حضرت پیر عبدالرحیم نقشبندی رحمہ اللہ علیہ کا نماز جنازہ پڑھا گیا، ان کے سفر آخرت میں چکوال کی سرزمین پر جیسے انسانوں کا سمندر امڈ آیا ہو۔ اور 23 جمادی الثانی کو ہی حضرت حافظ پیر ذوالفقار نقشبندی رحمہ اللہ علیہ نے جان، جان آفریں کے سپرد کی۔ اور اگلے دن لاکھوں عقیدت مندوں کی آہوں اور سسکیوں میں نماز جنازہ پڑھائی گئیں۔
یہ دوشخصیات اس زمانے کی عظیم شخصیات تھیں، پیر ذوالفقار نقشبندی رحمہ اللہ علیہ کا شمار عالم اسلام کی 500 بااثر شخصیات میں ہوتا تھا۔ میری زیادہ عقیدت و محبت اور قربت حضرت پیر ذوالفقار نقشبندیؒ سے میرے مرشد و مربی باباجان ولی ابن ولی شیخ المفسرین و المحدثین حضرت مولانا حمداللہ جان ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ اور میرے بڑے بیٹے محمد ابوبکر ابن اشفاق کی وجہ سے رہی۔ ان کے چہرہ پرنور کو دیکھ کر اللہ رب العزت کی یاد آجاتی تھی۔
پیر حافظ ذوالفقار احمد نقشبندی 1 اپریل 1953 کو صوبہ پنجاب کے شہر جھنگ کے ایک کھرل خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم اسکولوں اور کالجوں میں ہوئی۔ 1972میں بی ایس سی الیکٹریکل انجینئر کی ڈگری حاصل کرکے اسی شعبے سے وابستہ ہو گئے، پہلے اپرنٹس الیکٹریکل انجینئر، پھر اسسٹنٹ الیکٹریکل انجینئر بنے، اس کے بعد چیف الیکٹریکل انجینئر بن گئے، جس زمانے میں وہ انجینئر بن رہے تھے اس زمانے میں جمناسٹک، فٹ بال، سوئمنگ کے کیپٹن اور چمپیئن بھی رہے، ابتدائی دینیات، فارسی اور عربی کی کتابیں بھی پڑھیں، قرآن کریم بھی حفظ کیا، یہاں تک کہ جب وہ لاہور یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے ان کا روحانی تعلق عمدہ الفقہ کے مصنف سید زوار حسین شاہ سے ہو گیا، جو نقشبندیہ سلسلے کے ایک صاحب نسبت بزرگ تھے، شیخ ذو الفقار احمد نے ان سے مکتوبات مجدد الف ثانی سبقاً سبقاً پڑھی، ان کی وفات کے بعد وہ خواجہ غلام حبیب نقشبندی مجددیؒ کے دامن سے وابستہ ہو گئے، یہ 1980 کی بات ہے، 1983میں خلافت سے سرفراز کیے گئے، اس دوران انھوں نے جامعہ رحمانیہ جہانیاں منڈی اور جامعہ قاسم العلوم ملتان سے دورہ حدیث کی اعزازی اسناد بھی حاصل کیں۔
اپنے مرشد کی وفات کے بعد وہ پوری طرح دین کے کاموں میں لگ گئے، کئی سال امریکا میں گزار کر مستقل طور پر جھنگ میں مقیم تھے، لڑکوں اور لڑکیوں کے متعدد دینی ادارے ان کی سرپرستی اور اہتمام میں چل رہے تھے، پچاس سے زائد ملکوں کے اصلاحی و تبلیغی دورے بھی کر چکے تھے، دینی و عصری علوم کی جامعیت ان کی امتیازی خصوصیت تھی، انگریزی زبان پر عبور حاصل تھا، ہر سال رمضان المبارک کا مہینہ (صرف آخری عشرہ) افریقی ملک زیمبیا میں گزرتا تھا، جہاں وہ اپنے مریدین اور خلفاء کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ اعتکاف فرماتے تھے۔
ہر سال حج کے ایام میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مجلسیں لگتی تھیں اور بے شمار عقیدت مند، ان مجلسوں میں ان سے استفادہ کرتے تھے، گویا سال کے بارہ مہینے ان کا فیض جاری رہتا تھا۔ وہ معھد الفقیر الاسلامی، جھنگ کے بانی تھے۔ موجودہ دور میں پوری دنیا کفر و ضلالت اور الحاد مغربیت کی زد میں جاں بلب ہے۔ مسلم ممالک تک لادینیت کے زہر سے آلودہ ہیں۔ دہریت اور جدت طرازی نے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی ثقافت و معاشرت اور تہذیب و تمدن کو تبدیل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ گمراہی کے ان مہیب سایوں، شرک و کفر اور بدعات و توہمات کے اندھیروں میں اپنے اکابرین کی طرح حضرت پیر ذوالفقار نقشبندی روشنی کی کرن بن کر پوری ملت اسلامیہ کے لیے مشعلِ راہ بنے رہے۔ ذکرِ الٰہی، صفائی قلب، تزکیہ نفس اور انسانیت اور تعمیر سیرت کے لیے کوشاں رہے۔
پوری دنیا میں آپ کے مریدین، متعلقین اور محبین موجود ہیں۔ مولانا محمد سیف اللہ، مولانا محمد حبیب اللہ، مفتی ابو لبابہ شاہ منصور، مولانا احمد جان (روس)، مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی (بھارت)، مولانا مفتی انعام الحق(بھارت)، مولانا اسلم پوریؒ، مفتی محمد منصور (ایران)، شخ کمال الدین (امریکا) جیسے جید علماء و مشائخ کا شمار آپ کے خلفاء میں ہوتا ہے، حضرت پیر ذو الفقار احمد نقشبندیؒ نے تصنیف کے میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں جن میں سے بہت سی کتابیں ان کے افادات و ارشادات کا مجموعہ ہیں، ان میں فقہ کے بنیادی اصول، زادِ حرم، اولاد کی تربیت کے سنہرے اصول،خواتینِ اسلام کے کارنامے، حیا اور پاکدامنی، مغفرت کی شرطیں، علم نافع، اسیر برما، عشق الہی، دوائے دل، عشق رسولﷺ، عمل سے زندگی بنتی ہے وغیرہ۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے سچے غلام اور عاشق تھے۔ مولانا پیر عبد الرحیم نقشبندیؒ، حضرت پیر غلام حبیب نقشبندیؒ کے جانشین تھے اور پیر ذوالفقار احمد نقشبندیؒ ان کے خلیفہ تھے۔
سلسلہ عالیہ حبیبیہ نقشبندیہ کے دو سرخیل مشائخ کی بیک وقت رحلت عالم اسلام کے لیے بہت بڑا سانحہ ہے۔ ایسا خانقاہی اصلاحی قومی اور ملی نقصان جس کی تلافی خدا ہی کے مقصود و منشاء پر موقوف ہے۔ یوں تو جو شخص بھی جاتا ہے، ایک خلا چھوڑ جاتا ہے لیکن حضرت مرشد عالم رحمہ اللہ علیہ سے فیض یافتہ دونوں مشائخ کی بیک وقت رحلت تمام خانقاہوں، مدارس اور علمی و روحانی وابستگان کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ مگر ان کے قائم کردہ ادارے اور خانقاہیں تا روز قیامت قرآن و سنت کی ترویج اور مسلمانوں کے تزکیہ نفس اور اصلاح کے قائم و دائم رہیںگے انشاء اللہ۔ اللہ کریم حضرات کریمین کی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول و مقبول فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اپنے محبوب ترین بندوں میں شامل فرمائے اور ان کے پسماندگان، خلفاء، مریدین، متعلقین اور معتقدین کو صبر جمیل اور ہمیں ان کے بہترین نعم البدل سے نوازے۔ آمین ثمہ آمین
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل