Loading
کہا جاتا ہے کہ کھیل غیر سیاسی ہوتے ہیں یا اس طرح کہہ لیجیے کہ کھیلوں کو سیاست کے مسائل سے دور رکھنا چاہیے، حالانکہ یہ بات کبھی بھی عملی طور پر تسلیم نہیں کی گئی ہے، بلکہ اب تو سیاسی اصولوں میں خاص طور پر خارجہ پالیسی کے اصولوں میں کھیلوں کی ڈپلومیسی کی اصطلاح بھی ایجاد ہوچکی ہے۔
بہرحال یہ بات یہاں اس لیے بیان کی گئی ہے تاکہ کالم کے آغاز پر قارئین سمجھ جائیں کہ آخر کھیلوں کی اہمیت کیا ہے؟ اور اس میں سیاسی عمل دخل ہوتا ہے یا نہیں۔ جب ہم اولمپکس کی بات کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں تمام تر دعوؤں کے باوجود کہ کھیلوں کو سیاسی مسائل سے دور رکھا جائے عملی طور پر ایسا نہیں کیا گیا ہے۔
2023 کی بات ہے کہ اولمپکس کی بین الاقوامی کمیٹی نے ستمبر 2023ء میں بین الاقوامی امن کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے، روس کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی، اور اس کے بعد اولمپک کھیلوں میں روس کی شرکت کو روک دیا۔ اس اقدام نے ایک پیشگی فیصلے کی بازگشت کی جس نے روس کی فٹ بال ٹیم کو قطر 2022 ورلڈ کپ کوالیفائرز سے بھی خارج کر دیا۔
اولمپک میں شرکت کی اہلیت IOC یعنی عالمی اولمپکس کمیٹی کی توثیق پر منحصر ہے، جسے کسی بھی صوابدید پر، اکثر جواز کے بغیر منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ یہ اختیار خاص طور پر یوکرین کے تنازعہ کے درمیان استعمال کیا گیا تھا۔ آئی او سی کے اس موقف کو دیکھتے ہوئے کہ بین الاقوامی امن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اولمپکس جیسے عالمی مقابلوں میں حصہ نہیں لینا چاہیے اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت اسرائیل پر بھی ایسی ہی پابندیاں کیوں نہیں لگائی جاتی؟اب اگر ہم تاریخی طور پر، IOC کے کچھ فیصلوں کو دیکھیں تو ہم جانتے ہیں کہ اس کمیٹی کی موجودگی کے باوجود بھی میزبان ممالک نے عالمی امن سے سمجھوتہ کرنے والے ممالک پر پابندیاں عائد کرنے کے اپنے حق کا استعمال کیا ہے، جنہیں اکثر بین الاقوامی اتحادیوں اور سول سوسائٹی کی تحریکوں کی حمایت حاصل ہے۔
IOC، اور دیگر اقوام سے اسرائیلی شرکت کو روکنے کی توقع تاریخی اقدامات سے جڑی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر، 1920 کے اولمپکس کی میزبانی کرنے والے بیلجیم نے جرمنی،آسٹریا، بلغاریہ، ہنگری اور ترکی سمیت اپنے جیو پولیٹیکل مخالفوں کو خارج کردیا، جرمنی کے اخراج کی مدت 1928 تک تھی۔ اسی طرح، 1928 کے لندن اولمپکس میں جرمنی اور جاپان کو دعوت نہیں دی گئی۔ یہ فیصلے میزبان ممالک کی طرف سے خود مختاری سے کیے گئے تھے۔
تاہم،آئی او سی نے خود فیصلہ کن کارروائی کی ہے، جیسے کہ جنوبی افریقہ کو 1964 کے ٹوکیو اولمپکس سے روکنا اور 1968 کے میکسیکو سٹی اولمپکس کے ذریعے 1992 میں نسل پرستانہ حکومت کے خاتمے تک اس اخراج کو برقرار رکھنا۔ 2000 میں افغانستان کو باہر رکھنا بھی اس لیے تھا کیوںکہ وہاں طالبان کی حکومت تھی۔
حالیہ دنوں میں اولمپکس سے متعلق آنے والی اطلاعات کے مطابق صیہونی حکومت فرانس کے شہر پیرس میں منعقد ہونے والی اولمپکس کھیلوں کے لیے ایک بڑی تعداد بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے، حالانکہ صیہونی حکومت نے غزہ میں اولمپک کمیٹی کے دفترکو بھی بمباری کرکے تباہ کردیا ہے۔ غزہ کے اسٹیڈیم کو بھی بمباری سے برباد کردیا گیا ہے، لٰہذا اب عالمی کمیٹی برائے اولمپکس کی غیر جانبداری پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ جس طرح انہوں نے روس کو یکطرفہ فیصلہ کا نشانہ بنا کر پابندی کا شکارکیا ہے تو یہاں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو کھلی آزادی کیوں دی گئی ہے؟ اس وقت کھیلوں کی دنیا میں یہ بحث چھڑچکی ہے کہ اسرائیل کو ہرگز بھی کھیلنے کا حق نہیں ہے۔ مزید برآں، غزہ اولمپکس کمیٹی کے دفتر کی مبینہ تباہی اور فلسطینی کھلاڑیوں کے نقصان نے پیرس 2024 اولمپکس میں اسرائیلی ایتھلیٹس کی شرکت پر بحث کو تیزکردیا ہے۔
ان واقعات کی روشنی میں، ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیموں نے مبینہ اندھا دھند کارروائیوں اور بین الاقوامی قانون پر ان کے اثرات کی تحقیقات کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔یہ تصور کہ دوسروں کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرنے والی قوموں کو اولمپکس اور کھیلوں کے عالمی مقابلوں سے خارج کردیا جانا چاہیے۔ یہ بحث عالمی سطح پر شروع ہوچکی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی اولمپکس کمیٹی نے اسرائیل پر پابندی عائد کرنے کی بجائے اولمپکس کھیلوں میں فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کرنے والے کھلاڑیوں کے لیے سزا کا اعلان بھی کردیا ہے۔
یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ کھیل سیاست سے جدا نہیں ہیں۔ آئی او سی کے جانبدارانہ فیصلوں نے کھیل کے میدان کی اہمیت کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ آج پوری دنیا کے کھلاڑی اپنے ممالک سے عالمی اداروں اور اولمپکس کمیٹی سے مطالبہ کررہے ہیں کہ غزہ میں جاری صیہونی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کے جرم میں اسرائیل پر اولمپکس 2024 میں پابندی عائد کی جائے کیونکہ یہ انسانیت کا تقاضہ ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اگر بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے روس کو اولمپک امن کے اصولوں کے خلاف کارروائیوں پر کھیلوں سے خارج کردیا ہے تو پھر ضروری ہے کہ یہ پیمانہ سب کے لیے ایک جیسا ہونا چاہیے، امن کے دشمن اور انسان دشمن قوتوں بالخصوص غزہ میں نسل کشی کرنے والی صیہونی حکومت پر پابندی عائد کی جائے۔ یہاں تک کہ عالمی عدالت انصاف نے بھی غاصب صیہونی حکومت کے وزیر اعظم نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دے کر وارنٹ گرفتاری نکال رکھے ہیں۔ ایسے حالات میں انصاف کا تقاضہ تو یہی ہے کہ اولمپکس 2024ء میں غاصب اسرائیل پر پابندی لگائی جائے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل