Loading
آئیے !خواجہ احمد عباس کی زبانی ہی آزاد قلم اور ان کی صحافت کے حوالے سے کچھ معلومات حاصل کرتے ہیں۔ ان کے الفاظ ہیں:’’پہلی بار میں نے اپنا ہاتھ لکھا ہوا اخبار نکالا۔ اس کا نام کچھ ’’علی گڑھ میل‘‘ جیسا تھا۔ ( ہو سکتا ہے اس کا ایسا ہی کوئی دوسرا نام رہا ہو چونکہ اس اخبار کی فائل اور دو سال بعد جاری کیے میرے طبع شدہ اخبار ’’دی علی گڑھ اوپینین‘‘ کی دو فائلیں 1947 کے ہنگاموں کے دوران گھر کے دیگر کاغذات اور تصاویر کے ساتھ نابود کر دی گئی تھیں) یہ ہاتھ سے لکھا ہوا اخبار ہی دنیائے صحافت میں میرا پہلا سنجیدہ مضمون تھا۔ شروع شروع میں اس میں صرف مقامی خبریں ہوتی تھیں لیکن جب 1928 میں سائمن کمیشن آیا اور پورے ملک میں اس کا بائیکاٹ کیا گیا تو اس کے لیے سیاسی ہونا ناگزیر ہو گیا تھا۔
طبقاتی تصادم کی ابتدا ہو چکی تھی۔ ہر جگہ ہڑتالیں ہو رہی تھیں، کسانوں کے مظاہرے ہو رہے تھے۔ خبروں کو بلیک آؤٹ کیا جا رہا تھا۔ لکھنؤ کے (رُڈیارڈ کپلنگ شہرت یافتہ) روزانہ ’’پاینیئر‘‘ کے کالموں میں اس کا مذاق اڑایا جا رہا تھا۔ اس لیے ہم کانگریس کا اخبار ’’دی بامبے کرونیکل‘‘ بذریعہ ڈاک منگواتے تھے اور اس میں قومی تحریک اور کسانوں کی تحریک سے متعلق خبریں اٹھا کر نمایاں طور سے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے اخبار میں پیش کیا کرتے تھے۔ ہم ’’پاینیئر‘‘ کو ’’کپلنگ گزٹ‘‘ کہتے تھے۔ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کی پیشانی پر درج ’’خبریں جو لائق اشاعت ہیں‘‘ کی طرز پر ہم اپنے اخبار کی پیشانی پر لکھتے تھے۔ ’’خبریں، جن کی کپلنگ گزٹ شایع کرنے کے لائق نہیں سمجھتا۔‘‘
جزیرہ نہیں ہوں میں: ص۔67
اسی سوانح حیات کے ایک باب ’’میرا پہلا آخری صفحہ‘‘ میں پھر وہ لکھتے ہیں کہ:
’’دراصل یہ ایک کالم نہیں تھا، ایک صفحہ تھا۔ سنڈے ایڈیشن کا آخری صفحہ۔ ایک ایسا کشکول جس میں ادارتی باقیات بھی ہوتے تھے، اختتامیہ اشعار بھی، فلسفیوں کے اقوال بھی، کبھی کبھی کوئی خبر بھی، تبصرہ و تنقید بھی اور مختلف موضوعات پر گپ شپ بھی۔ ابتداً اسے ایک ہی شخص کے نام سے منسوب نہیں کیا جاتا تھا۔ ’ہم‘ کا استعمال ادارت کی خلاف ورزی نہیں تھا۔ ’ہم‘ سے مراد وہ تمام بے نام وقایع نگار تھے جن کو مختلف پیراگرافس کو تشکیل دینا تھا۔ چند ہفتوں کے بعد کسی نہ کسی وجہ سے تمام ساتھی ساتھ چھوڑ گئے اور اس صفحہ کی تمام تر ذمے داری مجھ غریب پر آ پڑی۔ تام ’’ہم‘‘ کا استعمال کچھ دیر تک جاری رہا۔ جب تک میں بامبے کرونیکل میں رہا، آخری صفحہ کو مختلف لوگوں کی تحریروں کا معمہ ہی سمجھا جاتا رہا۔ کچھ ہی مہینوں میں مجموعہ کا چہرہ بے نقاب ہونے لگا۔ چند برسوں میں صفحہ پر دیا جانے والا قلمی نام راقم کی شناخت چھپانے کا پردہ بننے کے بجائے روایت بن گیا۔ 1947 میں جب میں نے اس سے زیادہ شوخ باتصویر ’’بلٹز‘‘ کے لیے ’’آخری صفحہ‘‘ لکھنا شروع کیا تو پہلی مرتبہ اس بات کا اعلان ہوا کہ ’’آخری صفحہ‘‘ کا خالق خواجہ احمد عباس ہے۔‘‘
میں جزیرہ نہیں ہوں: ص۔271
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ انگریزی بلٹز 17 ؍فروری 1963 میں منظر عام پر آیا۔ ان میں 17؍فروری کی تاریخ مشترک ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایک حقیقت یہ ہے کہ ’بلٹز‘ سے پہلے خواجہ احمد عباس کا یہ کالم آزاد قلم ہفتہ وار عوامی دور میں شایع ہونا شروع ہو گیا تھا۔ عوامی دور کے مدیر سجاد ظہیر تھے۔ جس کا پہلا شمارہ 6؍دسمبر 1959 کو منظر عام پر آیا تھا اور اس کے افتتاحی شمارہ ہی سے خواجہ احمد عباس کا یہ کالم آزاد قلم کے عنوان سے اس میں شریک اشاعت تھا۔ ملاحظہ ہو سید سجاد ظہیر کا یہ ادارتی نوٹ:’’خواجہ احمد عباس کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ہمیں مسرت ہے کہ موصوف نے مندرجہ ذیل عنوان کے تحت برابر عوامی دور میں لکھنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اور ہم ان کے مضامین کا سلسلہ پہلی اشاعت سے شروع کر رہے ہیں۔‘‘
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آزاد قلم کے عنوان سے خواجہ احمد عباس کا یہ کالم (یا مضمون) پہلے پہل عوامی دور میں 1959 میں شروع ہوا تھا۔ جب بلٹز (اردو) کی اشاعت کا آغاز ہوا تو یہ 1963 میں بلٹز (اردو) میں منتقل ہو گیا اور 1987 تک جاری رہا۔ یاد رہے کہ 7؍جون 1987 خواجہ احمد عباس کی تاریخ وفات ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ سلسلہ یہاں منقطع ہو گیا۔ اس سے ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ آزاد قلم کی شروعات بلٹز اردو سے نہیں بلکہ ہفتہ وار عوامی دور 1959 سے ہوتی ہے۔ دوسری سچائی یہ کہ خواجہ احمد عباس کا یہ کالم باوجود کوشش کے مسلسل شایع نہیں ہو پاتا تھا۔ خواہ اس کی وجہ کالم نگار کی مصروفیت ہو یا کچھ اور۔ چونکہ ’عوامی دور‘ کے کل 95 شمارے منظر عام پر آئے لیکن صرف 13 شماروں میں ہی ’آزاد قلم‘ کی اشاعت عمل میں آ سکی ہے۔
یہ عام خیال ہے کہ ’بلٹز‘ کا آزاد قلم مسلسل اور متواتر شایع ہوتا رہا اور خواجہ احمد عباس خواہ سفر میں ہوں یا حضر میں اس کو لکھنا کبھی نہیں بھولتے تھے اور ’بلٹز‘ کی بھی یہی کوشش رہتی تھی کہ یہ کالم پابندی سے ’بلٹز‘ میں بلاناغہ شایع ہوتا رہے۔ لیکن یہ ایک کارِ مشکل تھا چنانچہ بلٹز کے صفحات اس کے شاہد ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ ’آزاد قلم‘ شریکِ اشاعت نہیں ہو سکا۔ وجہ کچھ بھی رہی ہو۔ اسی لیے میں نے یہاں سال بہ سال کا گوشوارہ تیار کیا ہے جس سے اندازہ ہو سکے گا کہ آزاد قلم کب کب شایع نہیں ہو سکا۔ اس کے لیے کتاب میں شامل فہرست کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
بلٹز اردو ہندوستان کے طول و عرض میں نہ صرف پڑھا جاتا تھا بلکہ اس میں شایع ہونے والی تحریروں اور مضامین پر سنجیدگی سے غور بھی کیا جاتا تھا۔ ان تحریروں سے عوام کی ذہن سازی ہوتی تھی اس طرح یہ اخبار عوام کی رجحان سازی میں بہت ہی اہم کردار ادا کر رہا تھا۔ سیاست اور سماج کے رخ کو بدلنے میں بھی اس اخبار کا بہت اہم کردار تھا۔ بلٹز اردو سے بڑی اہم شخصیتیں وابستہ تھیں۔ اختر احسن حیدر آباد، منیش رائے سکسینہ، حسن کمال جیسی شخصیتیں بحیثیت مدیر اس سے وابستہ رہیں۔ انور عظیم جیسے ترقی پسند فکشن نگار اور دانشور 1968 تک اس کے ایڈیٹر رہے بلکہ انور عظیم بلٹز اردو کے بنیاد گزار مدیر کہے جا سکتے ہیں۔
اس کی ادارتی ٹیم میں محمود ایوبی جیسے اہم افسانہ نگار اور ہارون رشید جیسی شخصیتیں بھی شامل تھیں۔ اس اخبار کا سرکولیشن بھی بہت زیادہ تھا اور عوام کو اس اخبار کا بے چینی سے انتظار رہتا تھا۔ جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس میں خواجہ احمد عباس کا کالم شایع ہوتا تھا۔ یہ کالم بہت ہی مقبول اور مشہور تھا۔ خواجہ احمد عباس کا اندازِ تحریر اور ان کے سماجی اور سیاسی نکات لوگوں کو بہت متاثر کرتے تھے۔
بلٹز کی مقبولیت میں خواجہ احمد عباس کے کالم کا جو کردار رہا ہے اس کا اعتراف سبھی لوگ کرتے ہیں۔ انھوں نے تقریباً چالیس برسوں تک یہ کالم لکھا۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھی مصروفیت مانع ہو جاتی تھی۔ رضوان احمد جیسے معتبر صحافی نے بڑی اہم بات لکھی ہے کہ:’’یہ شاید ایک مثال ہو کہ دنیا کے کسی صحافی نے اتنی طویل مدت تک ایک ہی اخبار میں ایک ٹھوس کالم لکھا ہو۔ اس لحاظ سے عباس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیے جانے کے لائق ہے۔‘‘
وہ ایک صاحبِ طرز صحافی تھے مگر ان کی صحافتی خدمات کے حوالے سے بھی بہت کم لکھا گیا ہے۔ وہ خود ایک جگہ لکھتے ہیں:’’ادیب اور تنقید نگار کہتے ہیں کہ میں ایک اخبار چی ہوں۔ جرنلسٹ کہتے ہیں کہ میں ایک فلم والا ہوں۔ فلم والے کہتے ہیں ایک سیاسی پروپیگڈنسٹ ہوں۔ سیاست داں کہتے ہیں کہ میں کمیونسٹ ہوں۔ کمیونسٹ کہتے ہیں کہ میں بورژوا ہوں۔‘‘
الغرض خواجہ احمد عباس کی شناخت بہت سے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تھی اور اس کا انھیں خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ انھوں نے ایک جگہ خود ہی لکھا ہے:’’میں خواجہ احمد عباس، کہانی کار، صحافی، فلم ساز اور ہدایت کار کے روپ میں پل پل جیتا رہا ہوں۔ کتنی بار سوچا ہے کہ خود کو کسی ایک سانچے میں فٹ کر لوں تاکہ یہ شب و روز میرے اپنے ہو جائیں لیکن یہ دیکھ کر اور سوچ کر کہ میری نسل نے جس ادبی، ثقافتی، سیاسی اور سماجی انقلاب کی بنیاد رکھی تھی، وہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے، میں نے خود کو علیحدہ علیحدہ شعبوں میں تقسیم کر دیا ہے کہ جب انقلاب آتا ہے تو وہ زندگی کے صرف ایک شعبہ میں نہیں آتا، وہ زندگی، سیاست، ادب، صحافت، کلچر زبان، ثقافت اور معاشیات کے مختلف النوع پہلوؤں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔‘‘(جاری ہے)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل