Loading
نومبر 2016 میں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی بار انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو انھوں نے محفوظ قدم اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف سے بات کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔ وزیر اعظم آفس کی طرف سے جاری کردہ ٹرمپ، نواز شریف گفتگو کا ٹرانسکرپٹ بے مثال اور انتخابی مہم کے دوران پاکستان کے بارے میں ریپبلکن رہنما کے موقف کے برعکس تھا۔ بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کی بات ہے، ٹرمپ نے پاکستان کو ایک عظیم ملک قرار دیا۔ یہ وہی ٹرمپ تھا، جس نے اپنی انتخابی ریلیوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار پر سوال اٹھائے اور ملک کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے بارے میں بھی بات کی۔ یہ ٹرمپ ہی تھا، جس کی قیادت کا غیر روایتی انداز اپنے ساتھ غیر متوقع پالیسیاں ہی لے کر آتا ہے۔ ٹرمپ نے نواز شریف سے بات کرنے کے لیے رسمی حلف کا بھی انتظار نہیں کیا جس کی ایک وجہ افغانستان میں تعینات ہزاروں امریکی فو جیوں کا ایک ناقابل شکست جنگ میں پھنسنا بھی تھی۔ غیر ملکی جنگوں کے خلاف بات کرنے والے اور افغانستان پر حملے کو ایک غلطی قرار دینے والے ٹرمپ جلد از جلد اپنے تمام فوجی جوانوں کو واپس بلانا چاہتے تھے لیکن ایسا پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ تاہم ٹرمپ نے پاکستان کی تمام فوجی اور سول امداد بند کر کے اپنے انتخابی وعدے پر عمل کیا، حالانکہ واشنگٹن سے اس طرح کی امداد پہلے ہی کم ہو چکی تھی۔ افغانستان میں امریکا کے لیے کچھ وقار بچانے کے لیے اس وقت انہوں نے براہ راست وزیراعظم عمران خان سے رابطہ کیا تھا۔پاکستان نے اس موقع سے فوری فائدہ اٹھایا کیونکہ افغانستان اکثر امریکا کے ساتھ تعلقات کے پیچھے محرک رہا ہے۔ اپنے غیر روایتی طرز حکمرانی کے مطابق ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ براہ راست رابطے کا ایک چینل کھولا۔ یقیناً ان رابطوں میں ٹرمپ کے قریبی ساتھی سینیٹر لنڈسے گراہم نے مدد کی جو عمران کے بہت بڑے مداح تھے۔ پاکستان اور وائٹ ہاؤس کے درمیان براہ راست رابطے کے باعث ٹرمپ نے عمران خان کو واشنگٹن کے دورے کی دعوت دی۔امریکی اسٹیبلشمنٹ اندورنی طور پر افغان ڈیل پر مہر لگنے سے پہلے ہی پاکستان کو یہ اعزاز دینے کے حق میں نہیں تھی تاہم ٹرمپ نے اپنی دعوت کو آگے بڑھاتے ہوئے عمران کی میزبانی کی اور انھیں ’’عظیم دوست‘‘ قرار دیا۔ ان دونوں کی بعد میں کئی اور مواقع پر ملاقات ہوئی لیکن یہ تبادلے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی لانے میں ناکام رہے۔2020 میں جب جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ شکریہ کیلیے ملاقات کرنے کی زحمت تک گوارانہیں کی، جس سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ واشنگٹن کی نظر میں اسلام آباد کی خارجہ پالیسی کو اولین ترجیح نہیں سمجھا جاتا۔ اگست2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء نے واشنگٹن کی نظروں میں پاکستان کی اہمیت کو مزید کم کر دیا ۔ 2016 اور اب کے درمیان بہت کچھ بدل چکا ہے۔ آج، دنیا ٹرمپ کے بطور صدر پہلی مدت کے مقابلے میں کہیں زیادہ غیر مستحکم ہے۔ یوکرین تنازعہ جاری ہے جسے یورپ اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ اس کے بعد مشرق وسطیٰ میں ایک ابلتا ہوا بحران ہے۔ اسرائیل غزہ، مغربی کنارے اور اب لبنان میں اپنی نسل کشی کی پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس پس منظر میں ٹرمپ کی انتخابی جیت پاکستان کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟ خارجہ پالیسی کے ماہرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے پُرامید ہونے کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے پاس بہت سے دوسرے مسائل ہیں جن سے نمٹنے کے لیے پاکستان ترجیحی فہرست میں شامل نہیں۔ عمران کے حامی اس امید پر جشن منا رہے ہیں کہ وہ اپنے "اچھے دوست کی رہائی کو یقینی بنائے گا۔واشنگٹن میںجنوبی ایشیائی ماہر مائیکل کگلمین نے ٹرمپ کی کامیابی کے چند گھنٹے بعد بتایا کہ میں عمران خان کی حالت زار کے بارے میں کچھ ٹویٹس یا دیگر عوامی حوالوں کو نظر اندازنہیں کروں گا۔ اگر بائیڈن انتظامیہ خان کی صورت حال کے لیے کچھ قصور وار ہے، تو اب ٹرمپ کی کامیابی کے بعد وہ خوش ہو سکتے ہیں ۔ لیکن یہ خیال کرنا کہ ٹرمپ عمران خان کے وکیل بن جائیں گے اور مدد کریں گے یہ خیال واقعی بے حد متاثر کن ہے، ٹرمپ دوسرے ممالک میں حقوق اور جمہوریت کے بارے میں اپنی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے مشہور نہیں ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی جیت پاکستان کو خارجہ پالیسی اور اقتصادی محاذ پر سنگین چیلنجز سے دورچار کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، ٹرمپ نے چینی اشیا پر ٹیرف بڑھانے کا وعدہ کیا ہے جوایک نئی تجارتی جنگ کو جنم دے سکتا ہے، اس سے عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے، یہ دیکھتے ہوئے کہ ٹرمپ اکثر ایسے پیچیدہ معاملات کو براہ راست نمٹاتے ہیں ان کی انتظامیہ پاکستان کو چین سے دوری برقرار رکھنے کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہے۔ ٹرمپ نے پہلے خبردار کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کو چینی قرض ادا کرنے کے لیے بیل آؤٹ نہیں ہونے دیں گے ۔ کچھ ماہرین کو خدشہ ہے کہ واشنگٹن آئی ایم ایف کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو چین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال سکتا ہے ۔ کوگل مین کا کہناتھا کہ پاکستان میں چینی سیکیورٹی خدشات پر تناؤ کی صورتحال کاٹرمپ انتظامیہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتی ہے۔ جب ٹرمپ صدر تھے تو ان کی انتظامیہ نے سی پیک کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے لیے ایک بڑی پچ تیار کی ۔ ٹرمپ بیجنگ کے ساتھ کم تعلقات رکھنے والے ممالک کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی میں تعاون ودیگر اقدامات کر کے چین سے مفاہمت تک پہنچنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اس تناظر میں دونوں ممالک میں تجارت کا امکان بھی ہوسکتا ہے، لیکن بائیڈن انتظامیہ کی طرح وہ تجارتی تعاون کو بڑھانے میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ طویل مدتی معاشی استحکام کے مزید اشارے نہ ملیں۔ مجموعی طور پر میں بائیڈن کے نقطہ نظر کے ساتھ تسلسل کی توقع کروں گا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل