Loading
خیبرپختونخوا حکومت نے نئے ضم شدہ اضلاع کے لیے این ایف سی ایوارڈ میں تعاون نہ کرنے پر وفاقی حکومت کو خط لکھ دیا اور کہا ہے کہ ضم شدہ اضلاع کے بقایا فنڈز ملنے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی ایکسٹینشن قبول نہیں کریں گے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیر خزانہ و بین الصوبائی رابطہ مزمل اسلم کی جانب سے خط وفاقی وزیر خزانہ کو ارسال کیا گیا ہے جس میں کے پی حکومت نے کہا ہے کہ پچیسویں آئینی ترمیم کے تناظر میں خیبرپختونخوا کی مکمل آبادی اور جغرافیہ کے اندراج کے بغیر ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی ایکسٹینشن قبول نہیں کریں گے۔ خط میں تحریر ہے کہ 5 ستمبر 2024ء کو وزیراعلی خیبرپختونخوا کے زیر صدارت منعقدہ گرینڈ جرگہ میں تمام اسٹیک ہولڈرز نے ضم اضلاع کے باقی فنڈز ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے، اٹھارویں ترمیم کی تحت این ایف سی ایک آئینی مشاورتی فورم ہے جس پر عمل درآمد نہیں ہورہا، قبائلی اضلاع کو قومی دھارے میں لانے کے لیے مالی لحاظ سے کمزور صوبے میں ضم کر لیا گیا، چھ سال گزرنے کے باوجود 6.1 ملین افراد کو این ایف سی ایوارڈ کے بین الصوبائی ٹرانسفر طریقہ کار کے تحت جگہ نہیں دی گئی، 70 سال سے محروم ضم اضلاع کو مالی لحاظ سے کمزور خیبرپختونخوا کے حوالے کرنا مسلسل ایک چیلنج ہے۔ کے پی حکومت نے خط میں کہا ہے کہ ضم اضلاع کے لیے دس سالہ ترقیاتی پلان کے باوجود مالی فنڈز کی فراہمی معدوم کر دی گئی ہے، خیبرپختونخوا کو وفاقی ادائیگیوں سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے، ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے منظور ہونے کے وقت ضم اضلاع وفاق کا حصہ تھا، تب ہی اس کا این ایف سی میں کوئی ذکر نہیں، ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت ضم اضلاع کو کم ترقی یافتہ بلوچستان کے مقابلے میں بہت کم فنڈز دئیے گئے، ضم ہوتے وقت ضم اضلاع کی گزشتہ سات دہائیوں کی محرومیوں کا تخمینہ درست نہیں لگایا گیا۔ خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ساتویں این سی ایوارڈ میں فی الفور درستی کی جائے، این ایف سی ایوارڈ کے لیے جلد از جلد اجلاس بلایا جائے، ساتواں این ایف سی ایوارڈ آئین کے ساتھ متصادم ہے، آئین میں متعارف کرائے گئے خیبرپختونخوا کا حصہ این ایف سی ایوارڈ میں دیا جائے، خیبرپختونخوا کے آئینی جغرافیہ اور آبادی کو تسلیم کیے بغیر ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی ایکسٹینشن ناقابل قبول ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل