Loading
انسان بھی کیا چیز ہے، کبھی کبھار تو اتنی انتہا کی درندگی کرتا ہے کہ درندے بھی شرمسار ہو جاتے ہیں۔ کسی کو انتہا تک ماراپیٹا جائے، بے رحمانہ قتل کردیا جائے … تو اس کی سفاکیت کی انتہا کی مثال دینے کے لیے درندگی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے مگر درندے کی تو جبلت ہے کہ وہ صرف بھوک کے وقت کسی کو مارتا ہے یا اس وقت مارتا ہے جس وقت اسے کسی سے اپنی جان کا خطرہ ہو، خواہ وہ انسان ہو یا کوئی دوسرا جانور۔ ہاں کبھی کبھار کسی کو بے قصور بھی مار سکتا ہے مگر اس میں اور ہم میں دماغ کے درست استعمال کا فرق بھی تو ہے۔ اگر ہر جانور کے پاس ہمارے جتنا فہم اور دماغ ہو تو پھر تو ہم سب ایک جیسے ہوتے، بالکل ایسے ہی جیسے کہ کچھ انسان درندوں جیسے یا درندوں سے بھی بدتر ہوتے ہیں۔آج کل کے زمانے میں جہاں برداشت کی کمی انتہا کو پہنچ گئی ہے، اس زمانے میں بھی ایسا المناک واقعہ ہونا… بربریت کی انتہا ہے، درندگی کا نقطۂ عروج ہے اور درندوں کو بھی مات دیتاہے۔ یہ واقعہ ڈسکہ کے نواح میں پیش آیا ہے اور اس بربریت کاشکار ہونے والی زارا لگ بھگ ایک ماہ قبل ہی سعودی عرب سے پاکستان آئی تھی، اس کے ہاں دوسرے بچے کی ولادت متوقع تھی۔ اس کاشوہر بھی سعودی عرب میں ہی ہوتا ہے اور اس کا بد قسمت باپ شبیر احمد ، گوجرانوالہ میں پولیس میں اے ایس آئی ہے۔ اس نے اپنی بیٹی سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر رابطہ نہ ہونے کی صورت میں وہ خود اس کے سسرالی گھر چلا گیا جہاں اسے بتایا گیا کہ زاراصبح سے ہی کہیں چلی گئی تھی، غالبا اپنے میکے گھر میں۔ اس کی سسرال اس کی سگی خالہ کا گھر تھا۔ اس کے والد کو یہ بات کھٹکی کہ اگر وہ صبح سے کہیں گئی ہوئی تھی تو اس کا اڑھائی سالہ بیٹا کیوں اس کے بغیر وہاں تھا۔ پولیس والا ہونے کا فائدہ تو تھا، ا س نے شک کا اظہار کیا اور فوراً اس کے محکمے کے سینئر افسران نے جلد تحقیقات کی اجازت دے دی۔جلدہی بات منظر عام پر آگئی کہ زاراکی خالہ جو کہ اس کی ساس بھی تھی، اسے زارا نے منع کیا کہ وہ جادو ٹونوں کے چکروں میں نہ پڑے۔ جانے کیا مسائل تھے کہ جن کے باعث اسے ان چکروں میں پڑنا پڑا ؟ ورنہ اس کے بچے شادی شدہ تھے، بیٹے کے ہاں اولاد نرینہ بھی تھی اور دوسرے بچے کی آمد متوقع تھی۔ بیٹی بھی اپنے گھر میں خوش ہی ہو گی کہ اس کے ہاں بھی اولاد نرینہ ہے اور اس کا شوہر بھی بیوی کے اور ساس کے کہے میں ہے ورنہ کون داماد اور نواسہ یوں کسی کی بہوکے قتل میں ساجھے دار بنتے ہیں، اس کے مردہ جسم کے ٹوٹے ٹوٹے کرتے ہیں۔ سات ماہ کی حاملہ کو قتل کرتے اور اس کے جسم کے ٹکڑے کرتے وقت تو درندے بھی کانپ جائیں مگر نہ کانپے تو ان ظالموں کے ہاتھ ۔ اس دوہرے قتل کے بعد بھی ان کے اندر کا جانور سکون میں نہیں آیا کہ اس کا چہرہ جلا کر مسخ کردیا گیا اور اسے ناقابل شناخت بنا دیا گیا، اس کے بعد اس کے جسم کے ٹکڑوں کو کئی حصوں میں بانٹ کر تھیلوں میں ڈالا گیا اور انھیں کسی نالے میں بہا دیا گیا۔ اس واقعے کو سن کر تو آسمان بھی کانپ اٹھا ہے، کیا قصور کر دیا ہو گا اس نے کہ جس کی اسے اتنی کڑی سزا ملی اور کیا ان مجرموں کو جو کہ پکڑے جا چکے ہیں اور سارا واقعہ بھی کھل کر سامنے آچکا ہے، انھیں کوئی سزا ملے گی یا یہ بھی ماضی کی طرح صاف بچ نکلیں گے اور دندناتے پھریں گے؟بہوؤں کو ذرا سے قصور کی پاداش میں یا بے قصور بھی مار دیے جانے کا نہ یہ پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری۔ پرانے زمانے سے ہی ایسا چلا آ رہا ہے، پہلے پہل بہوؤں پر تشدد کیا جاتا تھا ، انھیں چوٹی سے پکڑ کر سب گھر والوں کے سامنے گھسیٹا جاتا تھا، زیادہ غصہ آتا تو کوئی بھی چیزمار کر سر پھاڑ دیا جاتا تھا، سگریٹوں اور جلتے ہوئے کوئلوں سے داغا جاتا تھا، ناک کاٹ دی جاتی تھی۔ وقت گزرا تو طریقۂ واردات بھی ماڈرن ہوگئے، پہلے تیل والے چولہے پھٹنے لگے اور بہوئیں یا بیویاں جھلس کر موت کے منہ میں چلی جاتیں ، اگر زندہ بچ بھی جاتیں تو مردوں سے بد تر۔ گیس کے سلنڈروں پر چولہے منتقل ہوئے تو سلنڈر پھٹنے سے بہوئیں مرنے لگیں، مشین پر کپڑے دھوتے ہوئے مشین میں کرنٹ آ جانے سے۔ یہ ساری حادثاتی اموات صرف بہوؤں کی ہی ہوتی ہیں، ساسوں اور نندوں کی نہیں، شوہروں یا مردوں کی نہیں۔اولاد نہ ہوتی ہو تو بہو کا قصور، سارے تعویذ تاگے ان کے لیے، اپنے بیٹے کا میڈیکل کروانے کو بھی اس کی توہین سمجھاجاتا ہے۔ جہیز کم لائے تو بہو کا قصور، اگراولاد ہوجائے تو اس کی تربیت کا ہر سقم ماں کے کھاتے میں، اولاد بگڑ جائے تو اس کی پاداش میں اسے گالم گلوچ۔ ہر بات میں لے دے کر قصور وار بہوٹھہرتی ہے ، ہر کہانی کے انجام میں اسی کو مرنا پڑتا ہے۔ حالات و واقعات جوں جوں منظر عام پر آئیں گے، بات پرانی ہوتی جائے گی، ہم اور آپ بھول جائیں گے تو یہ ساس اور نند بھی ملک کی ہزاروں اور لاکھوں کی طرح اسی دنیا میں دندناتی پھریں گی۔ ٹیلی وژن کے ایک چینل پر خبروں میں بتا رہے تھے کہ ساس نے بتایا ہے کہ اس نے ہمسایہ ملک کے ڈرامے دیکھ دیکھ کر یہ سب سیکھا، بہوکو قتل کرنا بھی اس نے انھی ڈراموں سے سیکھا ہے۔ ہمارے ملک کے ڈرامے کیا کم ہیں، ان سے کون سا ساری مثبت باتیں ہی سیکھی جاتی ہیں، قتل، چوریاں ، ڈاکے، اغوا، ناجائز تعلقات اور جانے کیا کیا۔ ہمیں ہر بات میں سارا الزام ہمسایہ ملک پر لگانے کی عادت ہو گئی ہے خواہ وہ سموگ ہو یا وارداتیں۔ قتل جیسے اقدام کے لیے آپ کے اندر نفرت کو اتنا بڑا ہونا ہوتا ہے کہ وہ آپ کے قد سے اونچی نکل جائے اور اپنے وجود سے انسانیت کا آخری قطرہ تک ضایع کر دینا ہوتا ہے۔ جہالت کی انتہا تک ہونا ہوتا ہے کہ آپ جادوٹونے اور تعویذ کے چکروں میں پڑیں۔ جانے کون سی خواہشات ہوتی ہیں کہ جن کا برتن ہمیشہ خالی ہی رہتا ہے، بھرتا ہی نہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل