Loading
اٹلی کے سائنس دان Galileo Galilei نے 16ویں صدی میں ایک دور بین ایجاد کی اور اس دوربین سے یہ ثابت ہوگیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ اس سائنسی نظریے نے چرچ کے پادریوں کے فرسودہ خیالات پر ضرب لگائی۔ چرچ کے احکامات پرگلیلیو عتاب کا شکار ہوئے۔ انھیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں مگر گلیلیو اپنے نظریے پر قائم رہے۔گلیلیو نے ایک دفعہ تو چرچ سے معافی بھی مانگی اور جیل سے رہائی پائی۔ گلیلیو نے اپنے شاگرد کے استفسار پرکہا تھا کہ میں نے معافی مانگ لی مگر زمین سورج کے گرد گھومتی رہی ہے مگر جب گلیلیو نے اپنی تحقیق جاری رکھی تو اگر اس وقت اس کو پھانسی دیدی گئی مگر پھر ساری دنیا نے گلیلیو کا یہ نظریہ مان لیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ سائنسی ایجادات نے ہمیشہ معاشرے کی ہیئت کو تبدیل کیا ہے۔ ان ایجادات سے مذہبی سماجی نظریات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔گزشتہ صدی میں ہونے والی سائنسی ایجادات نے دنیا کو تبدیل کیا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایجاد نے بھی ریاست اور معاشرے کے فرسودہ نظریات کو پامال کردیا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اس سے پہلے آنے والی ٹیکنالوجیز میں ایک فرق یہ ہے کہ ٹیکنالوجی سستی بھی ہے اور اس کا استعمال انتہائی آسان ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال شروع ہوگیا تھا۔ امریکا اور سوویت یونین کے خلائی نظام کا دارومدار دیوہیکل کمپیوٹر کے نظام پر تھا۔ 1969میں امریکا کا نیل آرم اسٹرونگ چاند پر اترا تھا تو آرم اسٹرونگ کے چاند پر اترنے کے مناظر امریکا اور یورپی ممالک کے ناظرین نے اپنے ٹیلی وژن سیٹوں پر براہِ راست دیکھے۔ 60 اور 70 کی دہائی سے امریکا اور یورپی ممالک میں تجارتی معاملات میں کمپیوٹرزکا استعمال فروغ پاگیا تھا۔ ان ممالک میں بینکوں اور اسٹاک ایکسچینج کا نظام کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر منتقل ہوگیا تھا۔ امریکا اور برطانیہ میں بینکوں نے اے ٹی ایم بوتھ کے ذریعے چوبیس گھنٹے نقد رقم کی فراہمی کی سہولت اپنے صارفین کو فراہم کرنا شروع کردی تھی۔ امریکا اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی تدریس بھی شروع ہوچکی تھی۔ 80کی دہائی کے آخری برسوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی پذیر ممالک میں درآمد شروع ہوگئی تھی۔ آئی ٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تب جنرل ضیاء الحق اور امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے افغان پروجیکٹ کے ذریعے اپنی آیندہ نسلوں کی قسمت کو تبدیل کرنے میں مصروف تھے۔ دائیں بازوکی جماعتوں کے رہنما جنرل ضیاء الحق کے فلسفہ جہاد کی ترویج کرنے میں مصروف تھے اور اپنی اولادوں کے لیے ترقی کا راستہ تعمیر کر رہے تھے تو اسی وقت بھارت میں وزیر اعظم راجیو گاندھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کو نچلی سطح تک رائج کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا تھے اور بھارتی سائنس دان جنوبی بھارت میں سلیکون ویلی بنا رہے تھے۔ پاکستان میں 80کی دہائی میں قائد اعظم یونیورسٹی میں کمپیوٹرکا شعبہ قائم ہوا تھا۔ عظیم مارکسٹ دانشور پروفیسر جمیل عمر رومانیہ سے کمپیوٹرکی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اس شعبے کے طلبہ کی تربیت کا فریضہ انجام دیتے تھے مگر پھر جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے پروفیسر جمیل عمر اور ان کے دو ساتھی اساتذہ کو ایک اخبار ’’جمہوری پاکستان‘‘ شایع کرنے کے جرم میں لاہورکے شاہی قلعہ اور اسلام آباد کے خفیہ سیف ہاؤسز میں مقید کر دیا تھا۔ 90کی دہائی میں پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی رائج ہونا شروع ہوئی۔ اب اسکول کی سطح سے یونیورسٹی تک کمپیوٹرکے مضمون کی تدریس ہونے لگی۔ اس وقت صرف انٹرنیٹ سسٹم آیا تھا اور جن صاحبِ ثروت لوگوں کے پاس کمپیوٹر تھا وہ Email کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں سے رابطے کی سہولت سے مستفید ہوتے تھے۔ نئی صدی میں کمپیوٹر کی جگہ لیپ ٹاپ اور اسمارٹ ٹیلی فون مارکیٹ میں آگئے۔ اب Email کے ساتھ WhatsApp، Facebook، Twitter اور Instagram کے پلیٹ فارمز رائج ہوگئے۔ چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھے بزرگوں تک کے لیے ابلاغ کی ایک نئی سہولت حاصل ہوگئی۔ اس کے ساتھ آئی ٹی کے ذریعے روزگارکے نئے مواقعے حاصل ہوئے۔ اب مردوں سے زیادہ خواتین نے اس سہولت سے فائدہ اٹھانا شروع کیا۔عدالت نے ایک شخص کی عرض داشت پر Youtubeپر اس بناء پر پابندی عائد کردی تھی، تاکہ معاشرے میں فحاشی نہ پھیل سکے۔ Youtube پر پابندی سے پاکستانی طالب علم ہی یورپ، امریکا اور دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں کی لائبریریوں میں موجود نادرکتابوں اور جدید تحقیقی مقالوں کے مطالعے سے محروم ہی نہیں رہ گئے تھے بلکہ ہر سطح کے طالب علم دنیا کے ہر موضوع پر Youtube پر موجود بین الاقوامی ماہرین کے لیکچرز اور وڈیوز سے استفادہ نہیں کرسکتے تھے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے ہر موضوع پر آگہی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہر شخص کو آئی ٹی کے کسی بھی پلیٹ فارمز کے ذریعے اپنی بات پہنچانے کی آزادی حاصل ہوگئی مگر اس کے ساتھ ہی بعض لوگوں نے رجعت پسندانہ اور جنونی مواد کو بھی اپ لوڈ کرنا شروع کردیا۔ اس منفی پروپیگنڈے سے نوجوان خاص طور پر متاثر ہوئے۔ ریاست کے مفاد کے خلاف مواد کے اپ لوڈ ہونے سے پابندیوں کے نفاذ کی منصوبہ بندی شروع ہوگئی۔ پہلے ٹویٹر "X" پر پابندی لگادی گئی، پھر "X" تک رسائی کے لیے VPN کا استعمال بڑھا تو مذہبی ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ادھر امریکا کے انفارمیشن ٹیکنالوجی پر سوچ و بچار کے لیے تھنک ٹینک کے نائب صدر ڈینیل کاسترو نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی پابندیاں وقتی سیاسی فائدے تو دے سکتی ہیں مگر ان پابندیوں کی طویل مدتی معاشی عدم استحکام سمیت پاکستان کو قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ ڈینیل کاستروگزشتہ ہفتے اسلام آباد آئے تھے، انھوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ سروس پر پابندیاں عجیب سی بات لگتی ہے۔ ڈینیئل کاسترو نے اپنے بیانیے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان پابندیوں کی بھاری قیمت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تاجر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے بیرون ممالک سے کاروبارکرتے ہیں۔ ان کے لیے اپنا سرمایہ دیگر ممالک منتقل کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچے گا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر ملک خود مختار ہے مگر اہداف واضح ہونے چاہئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عموماً سیاسی استحکام کے لیے انٹرنیٹ سروس پر پابندی لگائی جاتی ہے مگر ان پابندیوں میں کچھ ریڈ لائنز طے ہونی چاہئیں۔ ڈینیئل کاستروکا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویٹر"X" ایک تجارتی سرگرمی ہے۔ اس پر پابندی معیشت کے لیے خطرناک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی سرکردہ ڈیجیٹل معیشت آئی ہے۔ ڈینیئل کاسترو نے مزید کہا کہ انٹرنیٹ سروس چند گھنٹوں کے لیے بند کی جائے تو اس کے معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ڈینیئل کاسترو نے انکشاف کیا کہ لاہور میں ان کی کئی یونیورسٹیوں کے طلبہ سے ملاقات ہوئی، یہ طلبہ انٹرنیٹ پر پابندیوں کی بناء پر ملک چھوڑنے کا سوچتے ہیں۔ یہ تو ایک امریکی ماہرکے خیالات تھے۔ ملک میں بھی مثبت سوچنے والے ذہین افراد ایسی ہی رائے دے رہے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ نئی ٹیکنالوجی پر پابندی کا مطلب پتھرکے دورکی طرف سفرکرنا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل