Saturday, November 23, 2024
 

جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہوگا

 



بقول علامہ یہی ایک حقیقت اور حرف مجرمانہ ہے کہ جوکبھی’’تھا‘‘وہ اب نہیں ہے اور اسی طرح جو اب’’ہیں‘‘ نہیں ہوجائیں گے۔یہ ایک مستقل اور کبھی نہ ٹوٹنے والا سلسلہ ہے۔نادان ہیں وہ جو اب ہیں کہ ایسے بہت سارے ’’ہیں‘‘ تھے جو اب ’’نہیں‘‘ہوچکے ہیں۔ رحمان بابا نے اس بات کو بہت ہی سادہ الفاظ میں واضح کیا ہے فرماتے ہیں ہر ’’زندہ‘‘ چہ د مردہ پہ قبر ورشی دومرہ بس دے نصحیت پہ دا دنیا ترجمہ۔ہر زندہ جب کسی مردہ کی قبر کے پاس گزرجاتا ہے اس سے بڑی نصحیت اور کوئی نہیں کہ وہ مردہ بھی کبھی اسی کی طرح زندہ ہواکرتا تھا میرتقی میر نے بھی کہا ہے کہ کل پاوں ایک کاسہ سر پر جاپڑا یک سر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر میں بھی کبھو کسو کا سر پر غرورتھا بہت سارے سر پر غرور آج ہیں جو یہ بھول چکے ہیں کہ ہر ’’ہے‘‘ کو ایک دن’’تھا‘‘ ہونا ہے۔اتنے بڑے بڑے’’ہے‘‘ ہم نے دیکھے ہیں کہ ہزار ہزار ’’ہے‘‘ کے برابر تھے لیکن آج وہ’’تھے‘‘بلکہ’’ہے ہے‘‘ ہوچکے ہیں کہ جن اولادوں کے لیے انھوں نے بہت سامال حرام و مال حبیثہ جمع کیا تھا وہ بھی ان کی قبروں تک بھول چکے ہیں صرف ان کی قبریں باقی ہیں جو ’’مزارشریف ‘‘بن کر اب بھی’’کماؤ‘‘ ہیں۔ میں نے زندگی میں صرف ایک شخص کو دیکھا ہے جو کہتا تھا کہ میں اولادوں کے لیے ’’کیوں‘‘کماؤں ،کیا ان کے ہاتھ پاؤں نہیں ہوں گے اگر ان کے بھی ہاتھ پاؤں ،کان، ناک اور سرہوگا تو وہ جانے اور ان کا کام۔کچھ عرصے سے میں کیا آپ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کچھ لوگ ارب پتی کھرب پتی ہوکر بھی باز نہیں آرہے ہیں۔ دنیا جہاں کی گالیاں بددعائیں کوسنے سن کر بھی بدستور ’’لگے‘‘ ہوئے ہیں ان کے بارے میں اکثر کہتاہوں کہ پشت ہا پشت سے عوام کا خون پسینہ چوس چوس کر جو مال اور جاگیریں انھوں نے بنائی ہیں یہ ان جرائم کی اس دنیا میں سزا ہے۔ خود اپنے ہاتھوں خود کو’’سزا‘‘ دے رہے ہیں بے قرار ہیں پریشان ہیں اپنے اوپر خواب وخور اور میٹھی نیند حرام کرچکے ہیں، کبھی کبھی یہاں وہاں سرگرداں پھر رہے ہیں اور پھر’’جب لاد چلے گا بنجارا‘‘تو کیا؟ ان سب کو قسم دیجیے کہ اپنے قبر نشین آباواجداد کا نام تو’’بیچنے‘‘ کے لیے لے رہے ہوں لیکن کبھی اکیلے دو رکعت پڑھ یا دو سورتیں تلاوت کرکے دعا کی ہے یا کرتے ہیں۔ ٹالسٹائی کا ایک افسانہ ہے جس میں بادشاہ کسی شخص سے خوش ہوکر پوچھتا ہے کہ مانگ کیا مانگتا ہے۔ اس شخص نے کہا مجھے بہت ساری زمین چاہیے۔ بادشاہ اسے لے گیا اور کہا یہ گھوڑا لو اور جتنی زمین کے گرد شام تک دائرہ بنالو وہ تمہاری۔لیکن سورج ڈوبنے تک تمہیں واپس یہاں پہنچنا ہے۔ وہ شخص گھوڑے پر سوار ہوکر چل پڑا گھوڑے کو تیز سے تیز دوڑانے لگا اور زیادہ سے زیادہ زمین کے گرد دائرہ بنانے لگا۔حرص کے مارے وہ دائرے کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرتا گیا ادھر سورج کو دیکھتا گیا اپنے خیال میں کافی زمین گھیرنے کے بعد وہ واپسی کے سفر پر چل پڑا لیکن گھوڑا اتنا تھک چکا تھا کہ ایک مقام پر گر پڑا اور پھر نہیں اٹھا ۔گھوڑا مرنے کے بعد وہ خود تیزی سے دوڑنے لگا لیکن آخر کار تھک گیا کچھ فاصلے تک آہستہ آہستہ چلتا رہا پھر گرپڑا اور گھٹنوں کے بل چلنے لگا گھٹنے بھی جواب دے گئے تو سینے کے بل گھسٹنے لگا۔لیکن سورج غروب ہونے تک اس نشان کو نہیں چھو سکا ادھر سورج غروب ہوگیا اورادھر نشان سے کافی دور اس کا دم بھی نکل گیا۔بادشاہ نے حکم دیا اسے یہیں دفن کردو کہ اصل میں اسے صرف دو گز زمین چاہیے تھی۔ یہ جن لوگوں کو ہم دیکھ رہے ہیں انھیں بھی بہت کم دولت کی ضرورت ہے لیکن یہ کمائے جارہے ہیں کمائے جارہے ہیں بلکہ چرائے جارہے ہیں چرائے جارہے ہیں، نہ آرام سے کھا پاتے ہیں نہ سو پاتے، پریشان سرگرداں۔اس سے بڑی سزا اور کیا ہوسکتی ہے۔ہمارے علاقے میں ایک شخص تھا جو بہت مالدار ہوگیا ٹرانسپورٹر،ٹھیکیدار، سوداگر اور بہت ساری جائیدادیں بھی اس نے خرید لیں۔اتنا مشہور ہوا کہ آس پاس کے علاقے میں ہر دوسرے بچے کانام اس کے نام پر رکھاجانے لگا۔ ایک دن ایک جرگے کے سلسلے میں ہم وہ علاقہ غیر کے ایک مقام پر یکجا تھے، بات ختم نہیں ہوئی تو دوسرے دن کے لیے بھی ہمیں رات وہاں گزارنی پڑی۔ اس نے میزبان سے کہا کہ مجھے ایسا کمرہ چاہیے جس میں ذرہ بھر روشنی یا آواز نہ آئے۔ علاقہ غیر میں ایسے ساؤنڈ اینڈ لائٹ پروف کمرے کہاں؟لیکن ایک تہہ خانہ تھا جس میں اس کی شب بسری کا انتظام کیاگیا۔صبح جاگے تو صاحب کی آنکھیں سرخ اور طبیعت ناساز تھی کیونکہ تہہ خانہ بھی ساونڈ پروف نہ تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ساری رات نیند نہیں آئی ہے اور بتایا کہ میں ایسے کمرے میں سوتا ہوں جس میں رمق بھر بھی کوئی آواز یا روشنی نہیں آتی ہو، وہ بھی نیند کی گولیاں کھاکر۔کھانے میں وہ صرف سوکھے ٹوسٹ اور ابلی ہوئی بغیرنمک کی سبزیاں گویا مکمل شکرحرام اور نمک حرام تھا۔اور اس وقت اس کی ملکیت میں چالیس بسیں اور پچاس ٹرک تھے ، اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور میں کئی بنگلے اور مارکیٹ تھیں، لگ بھگ دو سو ایکڑزرعی زمین تھی، روپے پیسے کا پتہ نہیں کہ کتنے کھرب ہوں گے۔چاروں بیٹوں کی الگ کاریں اور خود اس کی بھی تین چار کاریں تھی۔پورے پاکستان میں بے شمار اڈے بھی تھے۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے جائیدادوں پر پل پڑے۔ بڑا تو منشیات اور عیاشیوں کی وجہ سے پاگل ہوگیا، دوسرے کو فلمسازوں، اداکاروں کے ساتھ عیاشی لے ڈوبی۔تیسرے نے اپنے حصے کی دولت جوئے میں اڑادی، چوتھے نے آئس کے نشے میں اپنی بیوی اور بچوں کو قتل کیا۔اس کی قبر بنگلے کی چاردیواری کے ایک کونے میں تھی۔لیکن مجال ہے جو دفن کے بعد کوئی اولاد ایک بار بھی فاتحہ پڑھنے گئی ہو پڑے فاتحہ کوئی آئے کیوں کوئی دو پھول چڑھائے کیوں کوئی ایک شمع جلائے کیوں میں وہ بے کسی کا مزار ہوں

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل