Thursday, December 26, 2024
 

انسانی حقوق : دہرا معیار

 



انسانی حقوق کا تصور انسان کی بنیادی ضرورتوں اور وقارکا تحفظ کرتا ہے۔ یہ اصول ایک ایسی دنیا کا خاکہ پیش کرتے ہیں جہاں ہر انسان کو برابر کا درجہ حاصل ہو اور اس کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے۔ تاہم یہ بات نہایت اہم ہے کہ اس تصورکا حقیقی ماخذ سمجھا جائے۔  مغربی دنیا میں انسانی حقوق کی تشہیر ایک جدید خیال کے طور پرکی جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی ان اصولوں کو پیش کیا اور ان پر عمل کرنے کی تلقین کی۔ اسلام نے انسان کو تمام مخلوقات میں افضل قرار دیا اور اس کی عزت و تکریم کو بنیادی حق تسلیم کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے آخری خطبے کو انسانی حقوق کی ابتدائی اور جامع دستاویز کہا جاتا ہے۔ حجۃ الوداع کے موقعے پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں، جیسے یہ دن، یہ مہینہ اور یہ مقام حرمت والے ہیں۔‘‘ یہ الفاظ انسانی حقوق کے جامع اصول کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ یہ پیغام نہ صرف مسلمانوں کے لیے تھا بلکہ پوری انسانیت کے لیے تھا جو انسانی وقار، مساوات اور انصاف کا پیغام دیتا ہے۔ اسلام نے عورتوں، بچوں، غلاموں اور اقلیتوں کو بھی وہ حقوق دیے جن کا تصور اس وقت کے کسی بھی نظام میں موجود نہیں تھا۔ اسلام سے پہلے عورت کو معاشرے میں حقیر چیز سمجھا جاتا تھا، لیکن قرآن نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ عورت اور مرد برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔ بچوں کے حقوق کو بھی اولین حیثیت دی گئی۔ غلاموں کے لیے آزادی کا راستہ کھولا گیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت کی گئی۔ اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی اور ان کے حقوق کا تحفظ مسلمانوں پر فرض کیا گیا۔ آج مغرب انسانی حقوق کے حوالے سے خود کو علمبردار ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ محض ایک دکھاوا ہے۔ عالمی سطح پر جو انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، وہ صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص نظر آتا ہے جو کسی نہ کسی طرح اسلام کے خلاف ہیں یا اس کے مخالف نظریات رکھتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت فلسطین،کشمیر، افغانستان، شام اور میانمار جیسے خطوں میں ہونے والے مظالم ہیں۔ ان تمام جگہوں پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن انسانی حقوق کے علمبردار ان مظالم پر خاموش نظر آتے ہیں۔ غزہ اور فلسطین کی صورتحال اس بات کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اسرائیل کی جانب سے نہتے فلسطینیوں پر ہونے والی بمباری اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر دنیا کی خاموشی ایک المناک حقیقت ہے۔ بچے، عورتیں اور بوڑھے ظلم و ستم کا شکار ہیں، ان کے گھروں کو مسمارکیا جا رہا ہے، ان کی زمینوں پر قبضہ ہو رہا ہے، لیکن عالمی انسانی حقوق کے ادارے اور مغربی ممالک اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ کیا فلسطینی انسان نہیں ہیں؟ کیا ان کے حقوق نہیں ہیں؟ یہ سوال عالمی برادری کے دوغلے رویے کو بے نقاب کرتا ہے۔ اسی طرح کشمیر میں دہائیوں سے جاری بھارتی مظالم بھی عالمی انسانی حقوق کے نظام کی ناکامی کی داستان سناتے ہیں۔ لاکھوں کشمیریوں کو ان کے گھروں میں قید کردیا گیا، ان کے بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے، خواتین کی عزتیں پامال کی جاتی ہیں اور نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن انسانی حقوق کے دعوے دار ان مظالم پر خاموش ہیں۔  یہ رویہ اس حقیقت کو آشکارکرتا ہے کہ مغربی دنیا کے انسانی حقوق کے تصورات درحقیقت سیاسی اور نظریاتی مفادات کے تابع ہیں۔ انسانی حقوق کے قوانین اور ادارے صرف ان جگہوں پر متحرک نظر آتے ہیں جہاں مغربی مفادات کو خطرہ لاحق ہو یا ان کے نظریات کو فروغ دینے کا موقع ہو۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف مظالم پر انسانی حقوق کے پرچم تلے جو خاموشی اختیار کی جاتی ہے، وہ مغربی دنیا کے دہرے معیار کی واضح مثال ہے۔ اسلامی تاریخ انسانی حقوق کی ایسی روشن مثالوں سے بھری ہوئی ہے جو آج کے دعویداروں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ خلافتِ راشدہ کے سنہری دور میں غیرمسلموں کے ساتھ انصاف کے بے شمار واقعات موجود ہیں۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب ایک بوڑھے یہودی کو دیکھا جو بھیک مانگ رہا تھا تو فرمایا’’ یہ انصاف نہیں کہ ہم نے تمہارے جوانی میں تم سے جزیہ لیا اور بڑھاپے میں تمہیں بے سہارا چھوڑ دیا۔‘‘ انھوں نے فوراً حکم دیا کہ بیت المال سے اس کی کفالت کی جائے۔تاکہ یہ اپنا بڑھاپا آسانی سے گزار سکے۔ یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ اسلام میں انسانی حقوق کسی مذہب یا نسل تک محدود نہیں۔  آج عالمی برادری کو انصاف کے اصولوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ انسانی حقوق کا حقیقی تحفظ اسی وقت ممکن ہے جب یہ حقوق بلاتفریق مذہب، نسل، رنگ یا تہذیب سب کے لیے مساوی ہوں۔ جب مغربی دنیا انسانی حقوق کی بات کرتی ہے تو اس میں اسلام اور مسلمانوں کو الگ رکھنا ایک بڑی ناانصافی ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جب انسانی حقوق کا ذکرکیا جائے تو ان میں تمام انسانوں کو شامل کیا جائے اور ظلم و ستم کے خلاف بلا امتیاز آواز اٹھائی جائے۔اسلامی ممالک کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاداوراتفاق پیدا کریں اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک متفقہ اور مضبوط موقف اپنائیں تاکہ انھیںاستحکام حاصل ہو۔ جب تک امت مسلمہ اپنی حیثیت کو نہیں پہچانے گی اور اپنی آواز کو مضبوط نہیں کرے گی، تب تک مغربی دنیا انسانی حقوق کے نام پر اپنے مفادات کا کھیل کھیلتی رہے گی۔ انسانی حقوق کے عالمی دن کو ہمیں ایک موقعے کے طور پر لینا چاہیے کہ ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ ہمیں اپنی نسلوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ اسلام نے کس طرح انسانوں کو عزت، وقار اور انصاف کے اصول سکھائے ہیں، اگر ہم اسلام کے اصولوں پر عمل کریں تو نہ صرف ہم اپنی قوم بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مثالی نظام پیش کر سکتے ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی دن کا پیغام یہ ہے کہ دنیا کو دہرے معیاروں سے نکل کر حقیقی انصاف اور مساوات کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ جب تک انسانی حقوق کے اصولوں کو تمام انسانوں کے لیے یکساں طور پر نافذ نہیں کیا جاتا، یہ صرف ایک بے جان نعرہ بن کر رہ جائے گا۔ اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی انسانیت کو جو جامع اورکامل نظامِ حقوق عطا کیا تھا، وہ آج بھی دنیا کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو انسانیت کو نہ صرف حقیقی آزادی اور وقار فراہم کرتا ہے بلکہ اس کے ذریعے عالمی سطح پر امن و انصاف کا قیام بھی ممکن ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل