Thursday, December 12, 2024
 

پنجاب؛ بدترین اسموگ کے باوجود ماحولیاتی لیبارٹریوں کی کمی

 



لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں کو جہاں بدترین فضائی آلودگی اور اسموگ کا سامنا ہے وہیں ماحولیاتی لیبارٹریوں کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ پنجاب میں صرف 14 لیبارٹریاں رجسٹرڈ ہیں ان میں سے بھی زیادہ تر  کی رجسٹریشن کی میعاد ختم ہوچکی ہے۔ فیکٹریوں ،کارخانوں اور صنعتی یونٹس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ماحول دوست ٹیکنالوجی استعمال کریں، صنعتی یونٹس سے خارج ہونیوالےدھویں، پانی ، فضلے، آوازکے شور کی جانچ کی جاتی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر اپنے کارخانوں، فیکٹریوں اور  صنعتی یونٹس کے امیشن کے ٹیسٹ پرائیویٹ لیبارٹریوں سے کرواتے ہیں اور پھر وہ رپورٹس ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو جمع کروائی جاتی ہیں۔ دی اربن یونٹ کی سیکٹورل امیشن انونٹری آف لاہور2023 کے مطابق لاہور کی فضائی آلودگی میں صنعتوں سے خارج ہونیوالے امیشن کا حصہ 9 فیصد ہے، پنجاب میں  مجموعی طور پر 17 ہزار 857 صنعتی یونٹس ہیں  جن میں 718 کیمیکل اور پیٹرولیم، انجینئرنگ 6324، فوڈ ڈرنکس اور تمباکو 3750، چرمی ربڑ اور پلاسٹک 1808، غیر دھاتی اور معدنیات 387، کاغذ اور کاغذی بورڈ 934 اور دیگر شامل ہیں۔ جبکہ لاہور  ڈویژن میں قائم رجسٹرڈ صنعتی یونٹس کی تعداد 560 ہے، ان کے علاوہ غیررجسٹرڈ یونٹس جن میں اینٹوں کے بھٹے اور دیگر چھوٹے یونٹس شامل ہیں  ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ صنعتی یونٹس پابند ہیں کہ وہ اپنی کیٹگریز کے مطابق ادارہ تحفظ ماحولیات کو امیشن رپورٹ  جمع کروائیں۔ صنعتوں کو مائع اور گیس کے اخراج کے مطابق کیٹگری میں رکھا گیا ہے۔ کیٹگری اے میں شامل صنعتیں ہرماہ، کیٹگری بی میں شامل صنعتیں تین ماہ جبکہ کیٹگری سی میں شامل صعنتیں 6 ماہ بعد امیشن سے متعلق رپورٹ جمع کروانے کی پابند ہیں۔ پبلک پالیسی اور ماحولیات کے ماہر داورحمید بٹ کہتے ہیں کہ پاکستان انوائرمنٹل ایکٹ 1997 کے تحت تمام صنعتی یونٹ اورانڈسٹریاں سمارٹ رولز کے تحت سیلف مانیٹرنگ اور رپورٹنگ کرنے کی پابند ہیں لیکن بمشکل 10 سے 20 فیصد صنعتی یونٹ ہی اس پرعمل کرتے ہیں۔ یہ صنعتی ادارے حکومت سے سرٹیفائیڈ ماحولیاتی لیبارٹریوں کے ذریعے گیس اورمائع امیشن ٹیسٹ  کرواتے ہیں لیکن ہمارے یہاں ان لیبارٹریوں کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس اگرخود اتنے وسائل نہیں کہ وہ ان تمام صنعتی یونٹس کو چیک کرسکے تو پھر نجی شعبے میں ماحولیاتی لیبارٹریوں کی تعداد بڑھانی ہوں گی اور ان کی مانیٹرنگ کا نظام بھی سخت کرنا ہوگا تاکہ پرائیویٹ لیبارٹریاں فیک رپورٹس نہ بناسکیں۔  پنجاب میں اس وقت صرف 14 پرائیویٹ ماحولیاتی لیبارٹریاں ہیں ، ان لیبارٹریوں میں سے بھی کئی ایسی ہیں جن کے لائسنس کی مدت ختم ہوچکی ہے لیکن ادارہ تحفظ ماحولیات  ان کی تجدید کررہا ہے اور نہ ہی نئی لیبارٹریوں کو لائسنس دیے جارہے ہیں۔ قومی تحقیقی تجربہ گاہ برائے موسمیاتی تبدیلی، پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ایسوسی ایٹ پروفیسرڈاکٹر ضیاالحق کا کہنا ہے صنعتی ادارے نجی ماحولیاتی لیبارٹریوں سے اپنے امیشن کے ٹیسٹ کرواتے اور پھر وہ رپورٹس حکومت کو جمع کرواتے ہیں لیکن زیادہ تر نجی لیبارٹریز کی رپورٹس قابل بھروسہ نہیں ہوتیں ، اندسٹری مالکان ان سے مل ملاکر مرضی کی رپورٹس بنوا لیتے ہیں۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ حکومت اپنی موبائل ماحولیاتی لیبارٹریاں بنائے جو مختلف اضلاع میں صنعتی یونٹس کا معائنہ کریں ،وہاں امیشن چیک کرکے نتائج کے مطابق کارروائی کرے۔ ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر شعبہ لیبارٹریز محمد فاروق نے بتایا کہ ماحولیاتی لیبارٹریوں کے قیام اوران کی رجسٹریشن کی تجدید کی منظوری کی سفارشات ایڈوائزری کمیٹی دیتی ہے۔ ایڈوائزری کمیٹی کی سفارشات پر ڈی جی ادارہ تحفظ ماحولیات نئی لیبارٹری کے قیام ،رجسٹریشن کی تجدید کی منظوری دیتے ہیں۔ ایڈوائزری کمیٹی کی تشکیل حکومت نے دینا ہوتی ہے اور یہ معاملہ ابھی پراسیس میں ہے تاہم محکمے کے 6 افسران پرمشتمل ایک سب کمیٹی بنادی گئی ہے جو  نئی لیبارٹریوں کے قیام اور پرانی لیبارٹریوں کی رجسٹریشن کی تجدید کے معاملات کو دیکھ رہی ہے جلد ہی ان کا فیصلہ ہوجائے گا۔   

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل