Sunday, December 22, 2024
 

56 سال کی قانونی جنگ کے بعد بہن نے بھائی کو سزائے موت سے بچالیا

 



56 سال سے زائد کی قانونی جنگ کے بعد بہن نے اپنے بھائی کو سزائے موت سے بچالیا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق جاپان کی عدالت نے گزشتہ ماہ دنیا کی سب طویل قید کاٹنے والے سزائے موت کے قیدی کو بے گناہ قرار دیکر رہا کردیا جس سے جاپان کی طویل ترین قانونی لڑائی کا خاتمہ ہوگیا۔ جاپان کے شہر ہماتسو سے تعلق رکھنے والے 81 سالہ ایوائو ہاکاماتا کو 1968 میں چار افراد کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔   ایووائو ہاکاماتا کی 91 سالہ بہن ہیڈیکو ہاکاماتا نے اپنے بھائی کو بے گناہ ثابت کرنے کیلئے طویل قانونی جنگ لڑی اور اپنی نصف عمر اسی میں گزار دی، وہ اپنے بھائی کی جانب سے ایک قانونی معاون کے طور پر عدالت میں پیش ہوئیں۔  بہن نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ جب ایوائو کو بتایا گیا کہ اسے بری کیا جارہا ہے تو اسے بلکل یقین نہیں آیا اور وہ خاموش رہا۔ واضح رہے کہ جاپان میں سزائے موت کے قیدیوں کو صرف چند گھنٹے پہلے ہی پھانسی کی اطلاع دی جاتی ہے اور قیدی ہر وقت یہی سمجھتے ہیں کہ آیا آج ان کا آخری دن ہوگا۔ انسانی حقوق کے ماہرین نے طویل عرصے سے اس طرح کے سلوک کو ظالمانہ اور غیر انسانی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس سے قیدیوں کو سنگین ذہنی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایوائو ہاکاماتا نے اپنی نصف سے زیادہ زندگی پھانسی کے انتظار میں قید تنہائی میں گزاری باوجود اس کے کہ جرم کا ارتکاب انہوں نے نہیں کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ایواؤ جس پروسیسنگ پلانٹ پر کام کرتے تھے وہاں سے 30 جون 1966 کو انکے باس، اسکی بیوی اور دو نوعمر بچوں کی لاشیں ملی تھیں جنہیں چاقو مار کر قتل کیا گیا تھا۔ واقعے کے ایک سال دو ماہ بعد 1968 میں جائے وقوعہ کے قریب سے ایوائو ہاکاماتا کے کپڑے ملنے پر انہیں اس قتل میں ملوث قرار دے دیا گیا، حکام نے ایواو ہاکاماتا پر چاروں افراد کے قتل، ان کے گھر کو آگ لگانے اور 200,000 ین کی نقدی چوری کرنے کا الزام لگایا، 1980 میں اسے موت کی سزا سنائی گئی۔ حکاماتا نے 1981 میں دوبارہ مقدمے کی سماعت کی درخواست دائر کی جسے مسترد کر دیا گیا  2008 میں انہوں نے دوسری بار درخواست دائر کی، شیزوکا ڈسٹرکٹ کورٹ نے 2014 میں ان کی درخواست منظور کر لی اور اسی سال ہاکاماتا کو رہا کر دیا گیا۔ کیس کی دوبارہ سماعت 2023 میں شروع ہوئی۔ کیس کی دوبارہ سماعت کے بعد ستمبر 2024 میں صدارتی جج کوشی کنی نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ  لباس کو تفتیشی حکام نے پروسیس کیا اور وہاں چھپایا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ثبوت من گھڑت تھے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل