Loading
قوت شفا سے لبریز نرم دل آویز دھیمہ لہجہ جن کی آواز جیسے کوئی بہت پیار سے دل کے رخسار پر ہاتھ رکھ دے جنہوں نے اپنے اور اگلے دور کی عوام کے جذبات کی ترجمانی کی، معاشرے کے مسائل سمیت سیاسی تقاضوں کو شاعری کا مرکز بنایا۔ ان کا شعر درد محبت سے بھی چُور ہے ،کلاسیکی سطح پر ایک نیا جہاں روشن کیا، ان کی ہر نظم غزل شعر لفظ میں خیال کی پھل جڑی ہے ، اپنے معنی کے تخلیقی تجربے سے اردو کی کائنات کو روشن کیا ، ماضی کی تمام بڑی شخصیات کا شعری خون کلام فیض کی رگوں میں دوڑتا ہے ، انسانی دوستی عدل و انصاف کا مسیحا محبتوں کا سفیر جذبات و احساسات کا ترجمان اردو کا فخر و ناز جرات اظہار کا معتبر نام فیض احمد فیض، جن کا اصلی نام فیض محمد خان تھا ۔ آپ 13 فروری 1911کو سیالکوٹ کے نواحی قصبے کالا قادر میں پیدا ہوئے ، والد کا نام بیرسٹر چوہدری سلطان محمد خان تھا جن کی دوستی علامہ اقبال ، سر سلمان ندوی، سر عبدالقادر ڈاکٹر ضیا الدین جیسی قدآور شخصیات سے تھی ، والد فیض والی افغانستان کے چیف سیکرٹری اور برطانیہ میں افغان سفیر رہ چکے تھے ، والدہ سلطان فاطمہ گھریلو خاتون تھیں جنہوں نے اپنے بچوں کی مثالی تربیت کی۔ فیض اور ان کے دونوں بھائیوں کو ایک چونی جو خرچ کے لیے ملتی تھی ان کے بھائی وہ لٹو اور پتنگ جیسے کھیلوں میں خرچ کر دیتے مگر فیض دو پیسے میں محلے کی لائبریری سے کتابیں کرائے پر لا کر پڑھا کرتے تھے ، فیض نے چھوٹی سی عمر میں کلاسیکی نظم اور نثر کی بیشتر کتابیں پڑھ لی تھیں ۔ طلسم ہوش رُبا ، فسانہ آزاد ، عبدالحلیم شرر کے ناول سمیت موجود ادب کی تمام مشہور کتابوں کا مطالعہ ان کا جنون بن گیا اردو کے تمام استادوں کے شعری نظری مجموعے ان کے ذہن کی زمین پر نصب ہو چکے تھے۔ سادگی زبان میں امیر مینائی اور داغ سے بے حد متاثر ہوئے ، زمانہ سکول میں خواہش والد پر انگلش فکشن کا مطالعہ بھی کیا جس میں چازڈیکن ، رائٹ ہیگز، آرتھر کونل ڈویل جیسے رائٹر ز کو پڑھ ڈالا تھا ۔ مادری زبان پنجابی تھی قرآن پاک کی تعلیم گھر میں حاصل کی تین سپارے حفظ کیے ، زندگی کے پچھتاوے میں ایک یہ بھی ہے کہ مرض چشم میں مبتلا ہونے کی وجہ سے مکمل قرآن پاک حفظ نہ کر سکے ، عربی اور فارسی کی تعلیم علامہ محمد اقبال ؒ کے استاد شمس العلما مولوی میر حسن سے حاصل کی ۔ مشن سکول سیالکوٹ میں ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا ، جہاں سے پہلی پوزیشن میں میڑک کا امتحان پاس کیا ۔ علامہ اقبال ؒ کی معرفت سے گورنمنٹ کالج لاہورمیں داخلہ ملا ، یہاں انگریزی ادب اور نیشنل کالج لاہور سے عربی میں ایم اے کیا ، فیض صاحب شاعر جرنلسٹ استاد کے علاوہ ہر انسانی حال کی الگ الگ خوشبو تھے ۔ فیض صاحب کو بچپن میں مقابلہ کلام میں پہلا کلام لکھنے پر شمس العلما مولوی میر حسن صاحب سے ایک روپیہ بطور انعام ملا ۔ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ۔ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے یہ ان کی پہلی نظم تھی جسے اُن کی شاعری کا اہم ترین سنگ میل سمجھا جاتا ہے، ایک ابھرتے ہوئے شاعر کا پیغام تھا کہ اُس کے شعر و خیالات عوام کی امانت ہیں ، فیض صاحب کا پہلا مجموعہ نقش فریادی کے نام سے چھپا جو 1940 میں منظر عام پر آیا اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا، فیض صاحب کہتے ہیں۔ پیام ایک ہی ہے کہ پروش لوح و قلم کرتے رہیں گے صرف وہی لکھو جو دل پہ گزرتی ہے کیونکہ وہی دوسرے دل پر اثر کرتی ہے ، فیشن و ثواب کے لیے مت لکھو کیونکہ آپ قلم کے جتنے بڑے بھی کاریگر ہوں آپ کا لکھا ہوا مصنوعی خیال کا پردہ چاک کر دیتا ہے اور معلوم پڑ ہی جاتا ہے کہ اپنے دل سے بات کہی ہے یا یہ کسی لالچ ، خوشامد یا نقالی میں کہی ہے۔ بس بنیادی بات یہی ہے دل پہ گزری لکھو ، انسان کی اپنی ذات بہت حقیر چیز ہے اس کی اپنی ذات کا وقار تو قدرت کے کاروبار زندگی میں اک ذرہ ہے ، وہ قدرت کے دریا کی اک بوند ہے اگر قطرے میں دریا دکھائی نہ دے تو واسطہ نقلی ہے ، لکھاری کو تو قطرے کو دجلہ دیکھنا ہوتا ہے ، یہی حقیقی لکھاری کا حسن قلم ہوتا ہے ‘ ۔ فیض صاحب کو پہلا عشق اٹھارہ برس کی عمر میں ہوا ، سوال ہوا کہ اسے زندگی میں حاصل کیوں نہ کیا ، فیض صاحب شرم و حیا کا پہرہ دینے والے خون و تربیت کے مالک تھے جس سے عشق ہوا اُس کے سامنے زبان اظہار کی ہمت ہی نہ کر سکے ، یک طرفہ پیار کی آگ مین جلتے رہے اور اُس لڑکی کی شادی کسی جاگیردار سے ہو گئی۔ اس لڑکی کا تعلق افغان گھرانے سے تھا ، یہ نو عمر لڑکی ان کے پڑوس میں رہتی تھی ، فیض صاحب اپنے کمرے کی کھڑی سے اسے آتے جاتے دیکھا کرتے تھے ، فیض صاحب نے اُس لڑکی سے منسلک اپنی خاموش محبت کی دیوانگی میں شعروں کے ڈھیر لگا دئیے ، اُن کا عشق اپنے شباب پر تھا اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ان کو سیالکوٹ سے لاہور جانا پڑا ، پھر فیض صاحب چھٹیوں میں لاہور سے سیالکوٹ آئے تو کھڑکی کی دوسری جانب انہیں وہ چہرہ نظر نہ آیا، انہوں نے کسی سے دریافت کیا تو علم ہوا کہ اُس کی شادی ہو گئی ہے ، فیض صاحب اس خبر سے ٹوٹے دل کے ساتھ واپس لاہور آ گئے ۔ معزز قارئین میں آپ کو بتاتا چلوں کہ دل کا ٹوٹنا اور ناکامی کا حادثہ یہ قدرت کے وہ مراحل ہوتے ہیں جو انسان کو مضبوط و منفرد بناتے ہیں تاکہ وہ بڑے مقام پر بڑی عوامی تعداد کا ترجمان بننے کے لیے تیار ہو سکے ، کہتے ہیں خدا ٹوٹے ہوئے دلوں میں رہتا ہے یہ دلیل دل ٹوٹنے کو فائدے کا سودا بتاتی ہے کیونکہ جس دل میں خدا کا بسیرا ہو جائے وہی انسان مخلوق خدا کا محبوب بنتا ہے اور ناکامی ایک مقام سے گزر کر اُس سے بڑے مقام پر پہنچنے کا راستہ دکھاتی ہے ۔ ایک بندی فیض صاحب کی نہ ہوئی مگر فیض صاحب زمانے کے ہو کر رہ گئے ، آئیے اب آگے بڑھتے ہیں اُس عورت کی جانب جس نے فیض صاحب کی زندگی کو مکمل و شاداب کر دیا ۔ 1941میں ایلس سے فیض صاحب نے والدہ کی رضامندی سے شادی کر لی ، ایلس نے فیض سے دوستی میں دیس کے ساتھ بھیس اور وطن کے ساتھ زبان بدل لی ، ایلس سے پہلی ملاقات ہندوستان میں ہوئی ، تب فیض صاحب امرتسر کے ایم او کالج میں انگریزی کے لیکچرار تھے ، پرنسپل ایس پی کالج تاثیر صاحب کے ہاں اکثر شاعر ، ادیب، لکھاری اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے لوگ ہفتہ اتوار کو جمع ہوا کرتے تھے جن میں فیض صاحب بھی تشریف لاتے۔ وہاں ایلس سے ملاقات دوستی میں بدلی ، دوستی شادی میں بدل گئی، فیض صاحب کا پنجابی جٹ برادری سے تعلق تھا جو فیملی سے باہر شادی نہیں کرتے تھے مگر فیض صاحب پابند و تنگ سوچ سے پاک تھے ، ایلس نے اسلام قبول کیا اور ایلس سے مسلمان ہو کر کلثوم بن گئیں ، کلثوم اور فیض صاحب کا نکاح شیخ عبداللہ نے مہاراجہ کشمیر کے سری نگر میں پڑھوایا جس میں ایک تحریری معاہدہ بھی ہوا جس میں فیض صاحب نے دوسری شادی نہ کرنے اور طلاق کا حق ایلس یعنی کلثوم کو سونپ دیا۔ اُس وقت شادی کی تیاریاں دہرے کی دہری رہ گئیں کیونکہ جنگ عظیم چھڑ چکی تھی ، بحری راستے بند ہونے کی وجہ سے دلہن کو برطانیہ سے لانے کا خواب من چاہے ارادے کے مطابق پورا نہ ہو سکا، اس لیے بارات میں چند لوگ ہی تھے ، جن میں فیض صاحب کے چھوٹے بھائی اور ایک دوست تھے ، بعد میں اس موقع پر مشاعرہ ہوا تھا جس میں جوش ملیح آبادی بھی شریک تھے۔ فیض صاحب کی ذاتی پسند کے خلاف وقت و حالات نے پانچ برس تک برٹش آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ میں بطورکیپٹن رہنے پر مجبور کیا ، فیض صاحب بتاتے ہیں کہ فوج کی تربیت یہ تھی کہ یہ نمک جو تم کھاتے ہو یہ اس لیے ہے کہ تم اس کا تقاضہ پورا کرو یعنی نمک حرام نہ بنو اور فرض پورا کرو ، اس کے برعکس فیض صاحب نے اپنی یہ بات منوائی کہ اس طریقے سے کام نہیں چلے گا اور سپاہوں سے یہ کہنا چاہیے کہ اپنے وطن کی خاطر حفاظت کے لیے تم لڑ رہے ہو تم نمک کے لیے نہیں لڑ رہے ہو اور فیض صاحب کی یہ بات نہ صرف مانی گئی بلکہ سپاہوں کو اس کے تابع بھی کیا گیا ۔ فیض صاحب اپنی قابلیت و ذہانت کی وجہ سے کچھ ہی عرصہ میں میجر پھر کرنل بھی گئے ، پھر 1947میں پاکستان بنتے ہی انہوں نے فوج کے محکمے کو چھوڑ دیا اور فوج سے صحافت کی جانب اپنا رخ کر لیا ۔ اپنے دوست میاں افتخار الدین کے کہنے پر انگریزی اخبار پاکستان ٹائم کے ایڈیٹر بن گئے ۔ ان کی دور اندیش نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ آزادی کے خواب کی تعبیر ابھی کوسوں دُور ہے ۔ تقسیم کے نام پر انسانیت کی تذلیل اور خون ریزی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے قیام پاکستان کے وقت ہی آزادی کا مرثیہ لکھ دیا تھا ، وہ پاکستان ٹائم اور اردو روزنامہ امروز کے اداروں میں ارباب اختیار کی توجہ مقصد کی جانب دلاتے رہے ، یو ں ان کا قلم آزادی کی حقیقی ترجمانی میں فکر اقبال کا فرض بھی نبھاتا رہا ، فیض صاحب مزدوروں کے درد کو بھی اپنے سینے میں محسوس کرتے تھے ، وہ حقوق مزدور کی آواز بن کر پانچ سال لیبر ایڈوائزری کمیٹی کے سرپرست رہے ، ٹریڈ یونین قائم کی ،انہیں منظم کیا اور فیڈریشن کے صدر بھی منتخب ہوئے ۔ جنوری 1959 کی ایک دوپہر لاہور کی سڑک پر ایک عجیب منظر تھا ، ایک تانگہ دوڑے چلا جا رہا ہے ، پیچھے دو سپاہیوں کے درمیان ایک شخص ہتھ کڑی پہنے بیٹھا ہے جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ چہرے پر بلا کا اعتماد ہے ، غریب مزدور ریڑھی والے
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل