Loading
راقم کے سلسلہ کالم و مضامین بعنوان ’زباں فہمی‘ اور واٹس ایپ حلقے،’بزمِ زباں فہمی‘ میں بارہا ایسا ہوچکا ہے کہ کسی ’برتے ‘ہوئے موضوع کی تکرار ناگزیر محسوس ہوئی۔ اس کی دو وُجوہ ہیں: ا)۔ استفسار یا اعتراض کرنے والے نے خاکسار کی تحریروتقریر دیکھی سُنی نہیں یا نظراَنداز کردی۔ ب)۔ سائل کی سمجھ بوجھ کے مطابق جواب (یعنی کافی یا مُسکّت جواب) موصول نہ ہونے پر اُس کی یہ خواہش ہو کہ دیگر اہل علم اس بابت کوئی انکشاف کریں یا معلومات میں تصحیح واضافہ کردیں۔ ایسا ہی ایک اہم موضوع ہے ’نقطہ نظر ۔یا۔نکتہ نظر‘ جو پلٹ پلٹ کر ہمارے سامنے آتا ہے اور ہر مرتبہ وضاحت کرنی پڑتی ہے۔ تعجب کا مقام یہ ہے کہ ہمارے بعض بزرگ، صاحبِ علم معاصر بھی اس معاملے میں ابہام کا شکار ہیں۔ بات بہت سامنے کی ہے۔ آپ کو قدیم ومستند ومعتبر لغات میں یہ دونوں ہی تراکیب (صحیح یا غلط کی بحث سے قطع نظر) نہیں ملیں گی، کیونکہ یہ اُردو کی اپنی نہیں، بلکہ انگریزی اصطلاح Point of view or View point کی مترجمہ صورت ہیں یا فقط ایک ہے یعنی نقطہ نظر۔ آنلائن لغت ’ریختہ ‘ کے اندراج کے مطابق ’’نقطہ نظر ‘‘ کی تعریف یہ ہے: ’’نُقطَۂ نَظَر: دیکھنے یا سوچنے کا انداز یا ڈھنگ نیز نظریہ، اندازنظر، اندازِ فکر؛ مرکزنگاہ‘‘۔ اب چونکہ متعدد بار کی وضاحت کے باوجود بات منطقی انجام کو نہیں پہنچی تو ہم پر واجب ہے کہ نئے سِرے سے اس بابت خامہ فرسائی کریں۔ یہاں ضمنی نکتہ یہ ہے کہ بارہا لکھنے کے باوجود، اب بھی ایسے لوگ ملتے ہیں (بشمول بزرگ معاصرین )، جنھیں ’خامہ آرائی‘ اور ’خامہ فرسائی‘ کا فرق معلوم نہیں۔ خامہ کہتے ہیں قلم کو، آرائی سے مراد ہے سجانا;جب کسی دوسرے کی تحریر کی تعریف کرنا مقصود ہو تو یہ ترکیب استعمال ہوتی ہے، جبکہ خامہ فرسائی سے مراد ہے قلم گھسیٹنا;یہ اپنے لیے استعمال کی جاتی ہے ، مثلاً ا)۔ اقبال کی خامہ آرائی کے سبھی قائل ہیں۔ ب)۔ میں نے فُلاں موضوع پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔ نُقْطہ کے اردو معانی فرہنگ آصفیہ: عربی، اسم مذکر: ا)۔ خط کی انتہا، وہ مقدار جو تقسیم نہ قبول کرسکے، مگر اُس کی طرف اشارہ کرسکے۔ب) بِندی، صفر، مرکز ج) کرن بِندی: دال جو شعاع سے بندھتی ہے۔ جمع: نُقط آنلائن لغت ریختہ: اسم، مذکر (ریاضی) وہ نشان جس کی نہ چوڑائی نہ موٹائی نہ لمبائی ہو، قلم کی نوک کاغذ پر رکھنے سے جو نشان بنے، بنِدی، صفر کا نشان۔ (ہندسہ) وہ جگہ جہاں دو خطوط ایک دوسرے کو کاٹیں یا ملیں۔ مرکز، بنیاد، بنیادی بات، خیال، تہہ کی بات، باریک بات۔ بنِدی کا نشان جو کسی چیز کے انتخاب کو ظاہر کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے (شعر وغیرہ پر)، نقطۂ انتخاب۔ نشان جو شک کے اظہار کے لیے بنایا جاتا ہے، نقطۂ شک۔ دائرے کے وسط کا وہ مقام جس سے خطِ دائرہ تک خطوط کھینچے جاتے ہیں (اور طوالت میں برابر ہوتے ہیں، نقطہ ٔ پر کار) مقرر کردہ مقام یا جگہ، نشان۔ شگاف کو نقطہ (ب) سے شروع کرکے نقطہ (ح) تک لے جاؤ۔ چھوٹاسا دھبا یا نشان، داغ۔ وہ باریک روشنی جو شعاعوں کے جمع ہونے سے بنتی ہے، کرن بنِدی۔ وہ صفر کا نشان جو بعض حروف پر دیا جاتا ہے جیسے ب کے نیچے ایک نقطہ، ت کے اوپر دو نقطے۔ (تصوف) ذات ِبحت اور مرتبہ ٔ سلبِ صفات کو کہتے ہیں جو منقطع الاشارہ ہے اور اس کو نقطۂ ذات کہتے ہیں کہ نقطہ ٔ بائِ بسم اللہ سے ذات مراد لیتے ہیں۔ چھوٹی سی چیز؛ کسی چیز کا ذرا سا حصہ ۔ (طب) اصطلاح ِدواسازی میں دوا کا قطرہ، دوا کی بوند ۔ وہ نشان جس پر نشانہ لگاتے ہیں، ہدف۔ ۔(ع۔نُقط، نِقاط۔ جمع) مذکر۱۔صفر۲۔ شک ظاہر کرنے کے لیے بھی نقطہ دے دیا کرتے ہیں۔ ؎ شعر خدا کاتب کی سفاکی سے بھی محفوظ فرمائے اگر نقطہ اُڑادے نامزد، نامرد ہوجائے (راغبؔ مرادآبادی) ویسے ابھی خاکسار اپنے گھر پر نہیں، ورنہ نجی کتب خانے میں موجود، اپنے 104سالہ بزرگ مشفق معاصر محقق جناب محمد شمس الحق کی تالیف ’اردو کے ضرب المثل اشعار۔ تحقیق کی روشنی میں‘ سے دیکھ کر، مندرجہ ذیل فرسودہ شعر کی صحیح شکل بیان کرتا;بہرحال یہ دو طرح مشہور ہے: ا)۔ ہم دعا لکھتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مُجرم کردیا ب)۔ ہم خُدا لکھتے رہے اور وہ جُدا پڑھتے رہے ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مُجرم کردیا اب قیاس کہتا ہے کہ اوّل شکل ہی درست ہے۔ (یہ احتیاطاً اس لیے لکھ رہا ہوں کہ کل کو کوئی صاحب میرے بزرگ کی کتاب سے حوالہ نکال کر تغلیط نہ فرمائیں)۔ ویسے اردو میں ایسے بے شمار الفاظ موجود ہیں جن میں ایک نقطہ کم یا زیادہ کرنے سے معانی بدل جاتے ہیں، جیسے محُوّلہ بالا شعر میں ’نامزد‘ سے ’نامَرد‘ ، اسی طرح ’نفل‘ سے ’نقل‘، دال (کھانے والی ۔یا۔دلیل) سے ذال (حرف);مزید نقطے کم یا بیش کرنے کی مثالیں بھی ملتی ہیں جیسے آب سے آپ، سال سے شال، رال سے زال (ایرانی لو ک داستان کا نِسائی کردار;سندھی میں محض عورت)، نام سے تام (کئی مفاہیم) علیٰ ہٰذا القیاس! نُقْطہ کے مرکب الفاظ: مَرکَزی نُقطَہ، نُقْطَہ آغاز، نُقطَہ اِنتِخاب، نُقْطَہ اِنْجِماد، نُقطَہ تَقاطُع، نُقطَہ گاہ، نُقطَہ مُقاِبل، نُقْطَہ مَوہُوم، نُقْطَہ نَظَر آزاد دائرۃ المعارِف عُرف وِکی پیڈیا (اردو) میں بتایا گیا کہ’’اگر آپ اپنا پنسل، بال پین یا سیاہی کی پن وغیرہ کو اٹھالیں اور ایک کاغذ سے اسے مَس کریں یا اس سے لگائیں تو کاغذ یا کوئی دوسری چیز جو بھی ہو اس پر ایک نشان بن جا تا ہے، جو آپ کے لیے نقطے کا تصور پیش کرے گا۔ یہ ایک نقطہ (انگریزی: dot) ہوگا‘‘۔ بات کی بات ہے کہ ریختہ ڈاٹ آرگ پر ایک ہندوستانی شاعر جناب ناصر بھوپالی کا مجموعہ کلام بعنوان ’یک نقطہ دیوان‘۔ اردوکا اوّلین ایک نقطہ دیوان موجود ہے جو 2013ء میں شایع ہوا تھا۔ یہ نُکتہ وضاحت طلب ہے کہ اُنھوں نے ایسا نام کیوں رکھا۔ سرِدست اتنی فرصت نہیں کہ بندہ پوری کتاب پڑھ کر جان سکے۔ ایک تحقیق کی رُو سے رُموزِاوقاف میں شامل، نقطہ یعنی Dot or full stop دوسری صدی قبل از مسیح (علیہ السلام) میں بازنطی ایم (Byzantium) کے ایک شخص اَرسٹوفینز (Aristophanes) نے متعارف کروایا تھا۔ [The full stop (Commonwealth English), period (North American English), or full point]۔ اَرسٹوفینز257 ق ۔م میں یونان کے قدیم شہر بازنطی ایم میں پیدا ہونے والا، قدیم شاعر ہومر کی ادبی خدمات کا عالِم، ادیب، نقّاد اور قواعد کا ماہر، اسکندریہ (Alexandria) کے عظیم کتب خانے کا ’صدر کُتب دار‘ [Head librarian] تھا جو180ق۔ م یا 185ق ۔م میں، اسکندریہ میں فوت ہوا۔ ایک مدت تک نقطہ یا ڈاٹ بہت کم استعمال ہوتا تھا، پھر انٹرنیٹ کی ایجاد سے یکایک اس کا استعمال بہت زیادہ ہونے لگا اور بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق نقطے کو1996 میں امریکا کے سب سے مفید (کارآمد) لفظ قرار دیاگیا تھا۔ ’’ایک اندازے کے مطابق 2018 کے اختتام تک دنیا بھر میں 3.8 بلین ای میل اکاؤنٹس سے ہر روز (اندازاً) کوئی 205 بلین ای میلز بھیجی اور موصول کی جاچکی ہیں‘‘۔ نقطے یا ڈاٹ کا استعمال مارس کوڈ سگنل (Morse code) میں بھی ہوتا ہے اور ایک خبر کے مطابق ’’مارس کوڈ سگنل‘‘ کا ابتدائی استعمال بحری جہاز ٹائٹینک سے بھی کیا گیا تھا۔ جب اس ڈوبنے والے بحری جہاز کا انجن روم پانی سے بھر گیا تو وہاں سے ایک ایسا ہی پیغام بھیجا گیا تھا۔ تاہم اس ڈوبنے والے بحری جہاز میں موجود سگنل آپریٹرز کا ابتدائی طور پر پیغام نظرانداز ہوگیا تھا، جو ڈاٹ اور ڈیشز میں تھا۔ یہ پیغام ایک دوسری کشتی سے بھیجا گیا تھا اور اس پیغام میں برف کے حوالے سے خبردار کیا گیا تھا۔ اگر یہ تھوڑی سی توجہ دیتے اور اس پیغام کو آگے کپتان کو بھیج دیتے تو شاید وہ برفیلی چٹان سے بچ جاتے‘‘۔ (بحوالہ بی بی سی)۔ مزیدبرآں نقاط کی مدد سے تصویر کشی (Pointillism) ایک فن ہے جس کی ابتداء تو بظاہر 1886ء میں دو فرینچ مصوّروں ژاغ ژے سُو غا (Georges Seurat) اور پَول سِین ناک (Paul Signac) نے کی تھی، مگر آثارِقدیمہ کی دریافتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فن انسان نے ہزاروں سال پہلے بھی سیکھا تھا۔ یہاں نقطوں کی اہمیت اس اَمر سے بھی نمایاں ہوتی ہے کہ تحریروتقریر کی زبان اور اِشاروں کی زبان کے علاوہ، نابینا افراد کی کتب بینی کے لیے نقطوں پر مبنی بریل ’زبان‘ (طرزِتحریر) ایجاد کی گئی جو بہت مقبول ہوئی اور آج ہمارے یہاں نابینا افراد کی بہت بڑی تعداد اِس سے مستفیض ہوتی ہے۔ بریل طرزِتحریر کے مُوجِد ایک نابینا فرینچ معلّم Louis Braille (4جنوری1809ء تا 6جنوری1852ء) تھے (اس نام کا فرینچ تلفظ’’لُوئیِ بِغیئے‘‘ ہے یعنی پہلے حصے میں حرف S ساکن ہے، جبکہ دوسرے میں حرف Lدونوں مرتبہ ساکن ہے)۔ موصوف نے محض پندرہ سال کی عمر میں، مُوسیقی میں ایسے طرزِتحریر کی بنیاد ڈالی جو آج بھی قابلِ عمل ہے۔ بریل کو اِنگریزی میں Somatosensory system یا sensory nervous system کہتے ہیں۔ یہ درحقیقت قوت لامسہ (چھُوکر محسوس کرنے کی قوت یا صلاحیت) کی مدد سے لکھنے کا نظام ہے جو اُبھرے ہوئے نقطوں والے ’رسم الخط‘ پر مبنی ہے۔ اردو میں اس زبان یا طرزِتحریر میں لکھی گئی اوّلین کتاب ِ معلوماتِ عامّہ (General knowledge Quiz book)، کا مُرتِب پروفیسر حافظ سید نسیم الدین میرا دیرینہ دوست ہے جس نے یہ کارنامہ 1981ء میں انجام دیا اور پھر 1985ء میں پاکستان ٹیلیوژن کے انتہائی مقبول پروگرام ’نیلام گھر‘ میں اوّلین ’پاک سوزوکی‘ کار کا اِنعام حاصل کرکے دنیا بھر میں عزت وشہرت حاصل کی۔ یہ انعام اُس دور میں برّاعظم ایشیا کا، شعبہ معلوماتِ عامّہ کا سب سے بڑا اِنعام تھا جو 1987ء میں خاکسار سہیل نے بھی جِیتا۔ تلاشِ مواد میں کسی نامعلوم کالم نگار کے، ایک معاصر اَخبار میں مطبوعہ، ایک کالم میں یہ نقطہ آغاز دیکھ کر بہت خوشی ہوئی،’’نقطے پر غور کرنے والے عجب نکتہ رس ہیں۔ نقطے سے عجیب عجیب نکات نکالتے ہیں‘‘، انہی صاحب کی تحریر میں مندرجہ ذیل اقتباس اچھا لگا: ’’نقطے کی تعریف یہ ہے کہ نقطہ اُس نشان کو کہتے ہیں جس کی لمبائی، چوڑائی اور اونچائی صفر ہو… صفر اور لامتناہی کے درمیان جو نسبت ہے، اُسے کوئی صاحبِ نسبت ہی پہچانتا ہے… اگر کوئی قابلِِ شمار خفیف ترین عدد بھی لکھنے میں آئے گا تو وہ نقطہ نہیں ہوگا، وہ نقطہ نہ رہے گا… بلکہ ایک لائن ہوگی۔ اس تعریف کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خارج میں کسی کینوس پر، کسی قرطاس پر کوئی نقطہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ باریک سے باریک قلم بھی کوئی قابلِ پیمائش نشان چھوڑ دے گا اور نقطہ اپنی تعریف اور تعین سے باہر ہوجائے گا۔ اب اس نقطے کا تعین کہاں ہو؟… خارج میں ممکن ہی نہیں رہا کہ نقطہ اپنی اصل تعریف میں معین ہوسکے… یہ تعین صرف انسانی شعور میں ہوگا۔ انسانی شعور کا ایک طبق باطن بھی ہے۔ یہ نقطہ جو بے جہت، بے سمت اور ناقابلِ تعین ہے، اس کا تعین انسانی باطن میں ہورہا ہے۔ اس سے یہ نکتہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ لاتعین کا تعین حضرتِ انسان ہی کے پاس ہے۔ نشانِ بے نشاں حضرتِ انسان ہے۔ جو خود کسی کا نشان ہو، اسے اپنا نشان اور نشیمن بنانے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ فقر کا راز یہی ہے‘‘۔ مگر افسوس یہ ہوا کہ اسی تحریرمیں آخری دو پیرا زبان کی اغلاط سے پُر تھے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد (پاکستان) کا ترجمان مجلّہ بھی ’’نقطہ نظر‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا کرتا تھا۔ اس کی اشاعت کے جاری ہونے کی بابت اطلاع نہیں ہوئی، البتہ اس ادارے کی سرکاری ویب سائٹ پر مندرجہ ذیل تعارف دیکھنے کو ملا: ’’نقطہ نظر‘‘ کا تازہ شمارہ نمبر35(اکتوبر2013 ۔ مارچ 2014ء) شائع ہوگیا ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کا ششماہی اردو مجلہ ہے۔ جس میں نئی کتابوں کا تعارف اور ان پر تبصرہ ہوتا ہے۔ اسلام، ثقافت، تاریخ، مسلم دنیا اوراس سے متعلقہ مباحث پر پاکستان میں اردو میں شائع ہونے والی کتابیں اس کا موضوع ہیں۔ 1996ء سے شائع ہونے والے اس جریدہ نے پاکستانی مسلمانوں کے نظریات، روایات اور مسائل و مشکلات کے بارے میں سامنے آنے والے علمی کام کو سمجھنے اوراس کا شعور عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک عام قاری کے لیے یہ جریدہ بنیادی مباحث کی تفہیم کے ساتھ ساتھ دستیاب مآخذ اور مصنفین تک رسائی کو آسان بناتا ہے۔ اس ششماہی جریدے کے مدیر ڈاکٹر سفیر اَختر ہیں‘‘۔ یہاں تک بات نقطے کے گرد گھومتی رہی، اب کچھ نُکتہ رَسی ہوجائے، بلکہ نُکتہ سنجی ہوجائے۔ جب روزنامہ ایکسپریس، ادبی صفحے (ادب نگری) پر یہ سلسلہ مختصر کالم (مابعد مفصل مضامین) شروع ہوا تو خاکسار نے اس کے لیے چار عنوانات تجویز کیے تھے کہ اِن میں انتخاب کرلیں، ایک عنوان ’نکتہ سنجی‘ بھی تھا۔ یہاں اپنے فاضل بزرگ معاصر ڈاکٹر رَؤف پاریکھ کی اسی موضوع پر لکھی گئی ایک نگارش سے اقتباس نقل کرتا ہوں: ’’عربی میں ایک لفظ ہے نُکتہ۔ یہ لفظ اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کا مطلب ہے: باریک بات، رمز کی بات، گہری بات، عقل کی بات۔ لطیفے یا چٹکلے کو بھی اردو میں نُکتہ کہتے ہیں۔ اسی سے نکتہ رَس کی ترکیب ہے یعنی گہری یا باریک بات تک پہنچنے والا، ذہین۔ باریک بات کو سمجھنے والے کو نکتہ سنج یا نکتہ شناس کہتے ہیں۔ نکتہ سنج کی ترکیب کو سخن شناس یا خوش گفتا ر کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ نکتہ داں یعنی باریک بات یا عقل کی بات کو سمجھنے والا۔ نکتہ چیں اور نکتہ چینی میں بھی یہی نکتہ ہے اور نکتہ چیں کا مطلب ہے جو عیب ڈھونڈے۔ نکتہ چینی یعنی خامیاں چُننے کا عمل۔ لیکن یہ چینی اردو کی چینی یعنی شکر نہیں ہے بلکہ یہ فارسی کا چِیں (چُننے ولا) اور چینی (چُننے کا عمل) ہے۔ نکتہ چینی اسی لیے سب کو بری لگتی ہے کہ اس میں اردو کی چینی نہیں ہوتی۔ غالب نے کہا: نکتہ چیں ہے غم ِ دل اُس کو سنُائے نہ بنے‘‘ ایک ضروری اضافہ اپنے بزرگ معاصر کی تحریر پر کرتا چلوں کہ جدید فارسی میں Composing/Typing کو حُروف چِینی کہا جاتا ہے جبکہ دیگر الفاظ بھی مستعمل ہیں۔ ٓآخرش یہ بات کہتا چلوں کہ ہم اردووالے کسی بھی معاملے میں اَزخود تحقیق کی زحمت کم کم گوارا کرتے ہیں اور کسی بھی بڑے کی کوئی بھی بات اُچک کر اُسے پھیلانا بہت اچھا اور ضروری سمجھتے ہیں جو غلط ہے۔ آج ہی اپنی بزم زباں فہمی میں ’مشرقی پاکستان/ بنگلہ دیش میں اردوبنگلہ لسانی تفاوت‘ کے موضوع پر اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے ایک مرحوم بزرگ کے حوالے سے یہ بات کرچکا ہوں کہ اگر وہ میرے والد سے بھی ایک سال بڑے تھے تو اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں اُن کے کام پر رَدِّتحقیق نہیں کرسکتا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل