Loading
’’ریاست کے خلاف مذموم سرگرمیوں میں ملوث افراد، اُن کے سہولت کاروں اور مالی معاونت کرنے والوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔‘‘ ان خیالات کا اظہار چیف آف آرمی اسٹاف سید عاصم منیر نے قبائلی ڈسٹرکٹ جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا کے دورے کے موقعے پر کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور اس کی تمام شکلوں کو ختم کیا جائے گا، جس کے لیے ہم پُرعزم ہیں۔ وانا میں جنرل عاصم منیر نے فوجی جوانوں سے خطاب میں جن صائب خیالات کا اظہارکیا ہے، وہ دو دہائیوں سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نہ صرف حقیقی تصویر پیش کر رہے ہیں بلکہ اس کے تدارک کے لیے حل بھی تجویز کر رہے ہیں۔ افغانستان کی جانب سے فتنۃ الخوارج کی واضح سہولت کاری کی وجہ سے پاکستان کو مسلسل دہشت گردی کا سامنا ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق اس وقت بھی فتنتہ الخوارج کے دہشت گرد اور ان کی سینئر قیادت افغانستان میں موجود ہے، فتنتہ الخوارج کے تربیتی مراکز اور ان کی لاجسٹک بیس افغانستان کے اندر موجود ہیں۔ افغان عبوری حکومت کی جانب سے ان خوارج کو افغانستان کے بارڈر پر ملٹری پوسٹ کے ساتھ رکھا جاتا ہے اور ضرورت پڑنے پر ان خوارج کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے فوری داخل کیا جاتا ہے۔ افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں ہی دہشت گردی کی زیادہ کارروائیاں اس لیے ہوتی ہیں کہ انھیں ہر طرح کی معاونت وہیں سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے بھی مالی امداد دہشت گردوں تک پہنچ رہی ہے، جب تک انھیں ملنے والی مالی امداد کو روکا نہیں جاتا، وہ اپنا کام کرتے رہیں گے۔ مسلسل سیاسی عدم استحکام، جس کی وجہ دانشورانہ بددیانتی اور داخلی مسائل کی ناقص تفہیم تھی، نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انتشار اور ابہام کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ رہی کہ عوامی سیاست میں جھوٹ اور غلط معلومات پھیلائی گئیں اور دھوکے بازی سے کام لیا گیا لیکن اس غلطی پرکوئی ندامت محسوس نہیں کی گئی اور نتائج کو نظر انداز کر دیا گیا۔ پاکستان کو معاشی طور پر استحکام سے روکنے کے لیے کچھ عناصر مسلسل کام کر رہے ہیں۔ ایسے عناصر نے پاکستان کی معاشی ترقی کو روکنے کی پوری کوشش کی۔ انتہاپسند گروہوں کی فنانشنل لائف لائن کاٹنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی جس کی وجہ سے مسائل ناقابل حل ہوتے گئے، اب وقت آگیا ہے کہ انتہاپسند تنظیموں کی فنانشل سپلائی لائن مکمل طور پر بند کر دینی چاہیے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی ایک وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ٹی ٹی پی سے وابستہ لوگ بڑی تعداد میں پاکستان میں واپس آ گئے ہیں اور انھیں اس وقت کی پاکستانی حکومت نے مکمل سپورٹ کیا تھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں ٹی ٹی پی اور دیگر ایسے عناصر کے خلاف ماضی میں کارروائیاں تو ہوئیں لیکن دہشت گردی کی جڑیں ختم کرنے کے لیے کوئی طویل المدت پالیسی نہیں بنائی گئی۔ کالعدم تنظیمیں اور دہشت گرد گروپ مالی امداد کے لیے کثیر الجہتی نیٹ ورک استعمال کرتے ہیں۔ ان فنانشل ذرایع اور فنانس کی ترسیل و وصولی کے میکنزم کی سو فیصد نشاندہی کرنا خاصا مشکل ہے، فنانشل لائف لائن کے حوالے سے مختلف مقاصد، نظریات اور اہداف کے حامل دہشت گرد گروپس ایک دوسرے کے ساتھ لنک بھی ہوسکتے ہیں۔ ان کا کریمنل مافیاز کے ساتھ بھی گٹھ جوڑ ہوسکتا ہے کیونکہ ان کے کئی اہداف مشترکہ ہوتے ہیں جن میں ایک اہم ترین ہدف ریاست کے سسٹم کو کرپٹ کرنا،سسٹم میں اپنے لوگ داخل کرنا اور بلیک اکانومی کے حجم کو بڑھوا دینا شامل ہیں۔ اسی طرح سیاست میں بھی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے۔ ایسا کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سسٹم ان پر ہاتھ نہ ڈال سکے، یوں دہشت گرد گروہ اور کریمنل مافیاز کے ساتھ ساتھ وائٹ کالر کریمنل طبقہ پیدا ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ طبقہ ریاست کے امور پر گرفت مضبوط کرلیتا ہے۔ ایسی صورت میں دہشت گرد گروہوں اور کریمنل مافیاز پر قانون ہاتھ نہیں ڈال سکتا اور یوں پورا ملک لاقانونیت کی لپیٹ میں آجاتا ہے، ریاست اور قانون کی رٹ کمزور ہوجاتی ہے، صرف بے وسیلہ اور غریب طبقہ ہی قانون کی گرفت میں رہتا ہے لہذ ا ضروری ہوتا کہ ایسے گروہوں کو ختم کرنے کے فول پروف حکمت عملی اپنائی جائے۔ سسٹم کو وائٹ کالر کریمنلز سے پاک کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اگر سسٹم انتہاپسندنظریات، انتہاپسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے ہمدردوں اور سہولت کاروں سے پاک ہوجائے تو دہشت گردی اور لاقانونیت پر قابو پانا مشکل نہیں رہتا موقف کے لیے رقم بھتے اور غیر ملکی ایجنسیوں کی جانب سے موصول ہوئی ہے۔ افغانستان بارڈر پر ہماری توجہ بہت زیادہ نہیں ہے، اس لیے وہاں ٹی ٹی پی وغیرہ کی سرگرمیاں بڑھی ہیں۔ ٹی ٹی پی کافی منظم گروپ ہے، افغانستان سے متصل پاکستان کے کافی علاقے پر ان کا اثر و رسوخ ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید انھیں وہاں حاصل مقامی حمایت ہے یا پھر مقامی افراد حکومت کی مکمل رٹ نہ ہونے کے باعث ٹی ٹی پی کے لوگوں سے بگاڑنا نہیں چاہتے تاکہ وہ محفوظ رہیں، وہ خوف کا شکار ہیں۔ فاٹا کے علاقوں کا خیبرپختونخوا میں انضمام تو ہوا تو لیکن بات کتابی انضمام سے آگے نہیں بڑھی، ان علاقوں پر توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ خیبرپختونخوا میں اب تک زیادہ تر دہشت گرد حملوں کا نشانہ سیکیورٹی ادارے اور پولیس رہی ہے۔ بنیاد پرستی نے 2001کے بعد عسکریت پسندی میں زبردست اضافہ کیا اور 2013 میں عسکریت پسندوں کے حملوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ پاکستان میں حالات معمول پر لانے کے لیے 10 فوجی آپریشن کیے گئے۔ پاکستان میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچ رپبلکن آرمی (بی آر اے)، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، لشکر جھنگوی (ایل ای جے) اور داعش سے واضح خطرات موجود ہیں۔ ان تنظیموں کی متعدد سسٹر آرگنائزیشن بھی کام کررہی ہیں۔ دہشت گرد گروہوں کے ساتھ مذاکرات ہمیشہ غیر موثر ثابت ہوئے ہیں اور انھیں خوش کرنے کی پالیسیاں بار بار ناکام رہی ہیں۔ جرائم اور اسمگلنگ جو دہشت گردی کی مالی مدد کا جانا پہچانا ذریعہ ہیں، کے خلاف قانون کے دائرے میں رہ کر جارحانہ انداز میں کارروائی کی جائے۔ حالیہ برسوں میں پرتشدد انتہا پسندانہ بیانیے مختلف سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ سازشی نظریات اور پرتشدد نظریات کے درمیان روابط کی گہرائی اور باریکی کو سمجھا جا سکے۔دہشت گردی کی جاری لہر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب بھی کسی نہ کسی طریقے سے ان گروہوں کو مالی امداد مل رہی ہے۔ یہ اتنا بڑا چیلنج ہے کہ نہ صرف کالعدم تنظیموں کی مالی معاونت روکنا مشکل ہے بلکہ عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی پاکستانی حکومت کو خطیر رقم درکار ہے۔ پاکستان نے سخت اقدامات کیے تو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نام نکلا تھا، لیکن ہمارے نظام میں موجود کمزوریوں اور مجبوریوں کی وجہ سے اقدامات پر مستقل عمل نہیں ہو رہا۔ مذہبی ہم آہنگی کے فقدان کے باعث ملک میں تخریبی فکر فروغ پا رہی ہے۔ انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ شدت پسندوں کے عزائم کو ناکام بنا کر ملک میں روا داری، امن اور بھائی چارے کو فروغ دیا جا سکے۔ اہم بات یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی کا واضح فقدان رہا ہے۔ قانون نافذ کرنیوالے ادارے دہشت گردی میں ملوث بعض افراد کو حراست میں تو لیتے ہیں تاہم ناقص اور ادھوری تفتیش اور شواہد کی کمی کی وجہ سے اکثر ان مشتبہ افراد کو ریلیف مل جاتا ہے۔ ثبوتوں کی کمی اور تفتیش میں کوتاہی کی وجہ سے بعض کیسز میں زیر حراست افراد کوقانونی ریلیف ملتا ہے ۔ اس نقص یا کمی کو ختم کرنے کے لیے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری تفتیش کار اگر غلط، بے بنیاد اور ادھوری تفتیش کرتا ہے اور اس کا فائدہ مجرم یا دہشت گرد یا ان کے سہولت کار کو پہنچتا ہے تو اس حوالے سے قانون سازی ہونی چاہے تاکہ تفتیش کار کی بھی باز پرس ممکن ہوسکے۔ اسی طرح عدالتی فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق تو حاصل ہے لیکن غلط فیصلہ کرنے والے ججز سے باز پرس کا کوئی قابل عمل میکنزم بھی ہونا چاہیے تاکہ سسٹم کو نقائص سے پاک کیا جائے، اس سے نظام عدل میں بیلنس پیدا ہوگا۔ اکثر حملوں میں خود کش حملہ آور بھی ہلاک ہو جاتے ہیں، ایسے میں کیس نامعلوم افراد کے خلاف درج ہوتا ہے۔ پولیس میں تفتیشی افسران کی کمی ہے ، جدید ٹیکنالوجی اور علوم سے ناآشنائی کے باعث بھی 50 فیصد کیسز خراب ہوتے ہیں۔ عدالت کو سزائیں دینے کے لیے ثبوت چاہیے، جو نہیں ملتے تو وہ مقدمہ خارج کر دیتی ہے۔ ہمیں بنیادی وجوہات سے نمٹنے اور انتہا پسندی کے بڑے عوامل کا مقابلہ کرنے کو ترجیح دینی ہوگی۔ اس ضمن میں گورننس اور قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانا، بنیاد پرستی کا خاتمہ، معاشی کمزوری سے نمٹنا، آن لائن پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا اور عسکریت پسندی سے نمٹنا شامل ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل