Loading
خطوط پر ٹکٹ لگانے کا آغاز یکم جولائی 1840 کو ہوا، جب دنیا کی پہلی ڈاک ٹکٹ "پینی بلیک" برطانیہ میں جاری کی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدا میں خط پر لگائی جانے والی ٹکٹ کی رقم بھیجنے والا نہیں بلکہ وصول کرنے والا ادا کرتا تھا، تاہم بعد میں اس قانون کو تبدیل کر دیا گیا۔ برصغیر میں ڈاک ٹکٹ کا آغاز 1852 میں ہوا جب "سندھ ڈاک" کے نام سے پہلی ڈاک ٹکٹ جاری کی گئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا ڈاک ٹکٹ 9 جولائی 1948 کو ملک کی سالگرہ کے موقع پر جاری کیا۔ تب سے لے کر آج تک پاکستان پوسٹ ماسٹر جنرل کی جانب سے لاکھوں ڈاک ٹکٹ جاری کیے جا چکے ہیں جن کی مالیت ایک روپے سے لے کر 50 روپے یا اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ ٹکٹیں رجسٹری، مخصوص پارسل اور دیگر اہم ڈاک کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں جاری کی جانے والی ٹکٹوں میں سیاسی، سماجی، آرٹسٹ اور کھلاڑیوں کی تصاویر شامل ہوتی ہیں۔ اب تک پاکستان 1500 سے زائد اقسام کی ڈاک ٹکٹیں جاری کر چکا ہے، جو پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ پریس میں چھپتی ہیں اور بعد میں پاکستان بھر کے 1500 سے زائد پوسٹ آفسز میں فراہم کی جاتی ہیں۔ چیف پوسٹ ماسٹر جنرل پنجاب، ارم طارق کے مطابق پاکستان میں ٹکٹیں برادر اسلامی ممالک اور دیگر دوست ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات، تربیلا و منگلا ڈیم کی سالگرہ، اسکواش، کرکٹ، ہاکی اور نیزہ بازی جیسے کھیلوں کے ساتھ ساتھ تاریخی مقامات کی مناسبت سے بھی جاری کی جاتی ہیں۔ آج بھی ہزاروں افراد روزانہ کی بنیاد پر اپنے خطوط، پارسل اور دیگر اہم دستاویزات پر ٹکٹ لگا کر اندرون و بیرون ملک بھیجتے ہیں، جبکہ سرکاری، نیم سرکاری اور عدالتی کارروائیوں میں بھی ان کا استعمال ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ڈاک ٹکٹوں کا رواج آج بھی برقرار ہے اور ہر ملک اپنی اہم شخصیات، تاریخی مقامات اور ثقافتی ورثے کی مناسبت سے مختلف ڈاک ٹکٹیں جاری کرتا رہتا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل