Loading
اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین ججز کے تبادلوں کے خلاف ایک شور نظر آرہا ہے۔ یقیناً ان تبادلوں کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی سنیارٹی بھی تبدیل ہو گئی ہے۔ اور لاہور ہائی کورٹ سے تبدیل ہونے والے جسٹس سرفراز ڈوگر اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر موسٹ جج بن گئے ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی اب سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر آگئے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان اور سندھ ہائی کورٹس سے بھی جج صاحبان کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ کیا گیا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ ان تبادلوں کا واحد مقصد جسٹس محسن اختر کیانی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے سے روکنا ہے۔ لیکن اب تو سینئر موسٹ کو چیف جسٹس بنانا ضروری نہیں۔ آپ پہلے تین میں سے کسی ایک کو بھی چیف جسٹس بنا سکتے ہیں۔ اس لیے صرف جسٹس محسن اختر کیانی کو چیف جسٹس بنانے سے روکنے کے لیے یہ تبادلے ناگزیر نہیں تھے، آپ دوسرے اور تیسرے نمبر کے جج کو بھی چیف جسٹس بنا سکتے ہیں۔ اس لیے معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے۔ لیکن یہاں یہ بات بھی سامنے رکھنا ہوگی کہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاہور ہائی کورٹ سے تبادلے کے بعد جج صاحب چیف جسٹس بنیں گے۔ اس سے پہلے جسٹس اقبال حمید الرحمٰن سمیت دو اور ججز کو بھی لاہور ہائی کورٹ سے تبدیل کر کے اسلام آباد ہائی کورٹ بھیجا گیا اور وہ وہاں چیف جسٹس بنے۔ اس لیے ایسا کچھ نہیں ہو رہا جو پہلی دفعہ ہوا ہے۔ ہمیں یہاں یہ بات سمجھنی ہو گی کہ ججز کا ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلہ کوئی آسان کام نہیں۔ پہلی بات یہ کہ یہ تبادلے کا قانون کوئی 26ویں آئینی ترمیم میں نہیں لایا گیا۔ آئین پاکستان اور قانون میں ججزکا ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلہ پہلے سے موجود ہے۔ اور ایسا کئی بار ہوا بھی ہے۔ ہمیں یہاں یہ بات بھی سمجھنی ہے کہ یہ کسی فرد واحد کا اختیار نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ جب چاہیں کسی بھی جج کا ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلہ کر دیں۔ سب سے پہلے جن دو ہائی کورٹس میں باہمی تبادلہ ہونا ان دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کا متفق اور راضی ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر تبادلہ نہیں ہو سکتا۔ جس جج کا تبادلہ ہو اس کا راضی ہونا بھی ضروری ہے۔ جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان کا راضی ہونا ضروری ہے۔ پھر حکومت کی باری ہے۔ پھر صدر مملکت اس تبادلے کی منظوری دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی راضی نہ ہو تو تبادلہ نہیں ہو سکتا۔ اب جن ججز کا تبادلہ ہوا ہے۔ تو عملی طو رپر ،ملک کے پانچ چیف جسٹس صاحبان تبادلوں کے اس عمل میں شریک ہوئے۔ یہ عدلیہ میں ایک بڑی ایکسرسائز تھی۔ پانچ چیف جسٹس صاحبان اس بات پر متفق ہوئے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ وہاں دوسر ی ہائی کورٹس سے ججز کے تبادلوں کی ضرورت ہے۔ آپ دیکھیں لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس متفق ہوئیں۔ پھر ہی لاہور ہائی کورٹ سے جج کا تبادلہ ممکن ہوا۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس متفق ہوئے پھر ہی وہاں سے جج کا تبادلہ ممکن ہوا۔ اسی طرح سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس متفق ہوئے تو وہاں سے جج کا تبادلہ ممکن ہوا۔ یہ سب تبادلے تب تک ممکن نہ ہوتے جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نہ مانتے۔ اس طرح چار ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی باہمی مشاورت اور ضامندی سے ہی یہ تبادلے ممکن ہوئے ہیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ کی باری آئی اور پھر حکومت میدان میں آئی۔ اس لیے میں بار بار یہ واضح کر رہا ہوں یہ ایک مشکل کام ہے اور وسیع مشاورت اور رضامندی کے بغیر ممکن نہیں۔ اب تبادلے کیوں ہوئے۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ کیوں پانچ چیف جسٹس اس بات پر متفق ہوئے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوسرے ہائی کورٹس سے ججز کو لانے کی ضرورت ہے۔ کیوں عدلیہ کے ذمے داران اس نتیجے پر پہنچے کہ ججز کے تبادلوں کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ اس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلے چھ ججز نے ایک مشترکہ خط لکھا جس کا بہت شور ہوا۔ عدلیہ میں مداخلت کی بات کی گئی۔ میں نے تب بھی لکھا تھا کہ یہ ایک سیاسی خط ہے۔ ورنہ ہائی کورٹس کے جج صاحبان کے پاس عدلیہ میں مداخلت روکنے کے لیے وہ تمام اختیارات موجود ہیں جو سپریم کورٹ کے پاس ہیں۔ انھوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے یا انھوں نے سپریم جیوڈیشل کونسل کو خط لکھا ہے۔ دونوں اداروں کے پاس ایسا کوئی خاص اختیار نہیں جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے پاس نہیں۔ آئین نے ہائی کورٹ کے جج کو عدلیہ میں مداخلت روکنے کے لیے مکمل اختیارات دیے ہیں۔ وہ اس معاملہ میں اپنے چیف جسٹس کا بھی محتاج نہیں۔ اگر کوئی مداخلت تھی تو یہ جج صاحبان اس کو روکنے کی مکمل طاقت رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے اختیار کا استعمال نہیں کیا۔ اور خط لکھ دیا۔ یہ ایسے ہی جیسے ایک جج کے پاس کسی مقدمہ کا فیصلہ کرنے کا اختیار موجود ہو اور وہ خود فیصلہ کرنے کے بجائے اوپر کی عدالت کو لکھ دے آپ فیصلہ کریں۔ اس لیے خط میں کوئی مدد طلب نہیں تھی۔ بلکہ اس سے ایک سیاسی بیانیہ بنانے میں مدد فراہم کی گئی۔ میں اس خط کو اس تناظر میں دیکھتا ہوں۔ آج میں سمجھتا ہوں عدلیہ کے بڑے اور ذمے داران بھی اس خط کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک بھی یہ خط ایک سیاسی خط سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ اس کے بعد بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں جیسی سیاست رہی ہے، جو ماحول رہا ہے، وہ کوئی ٹھیک نہیں تھا۔ اس لیے وہاں جو بھی ہو رہا تھا قانونی حلقوں میں بھی اسے پسند نہیں کیا جا رہا تھا۔ آج ہم پانچ چیف جسٹس صاحبان کے تبادلوں کے عمل میں شرکت اور ان کی رضامندی کو بھی اس تناظر میں دیکھ سکتے ہیں کہ انھوں نے بھی ان خطو ط کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا ہے۔ بہر حال ابھی کھیل باقی ہے۔ ابھی لاہو ر ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتی باقی ہے۔ ابھی سپریم کورٹ میں نئے ججز کی تعیناتی باقی ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت بھی باقی ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کھیل ختم ہو گیاہے۔ ابھی عدلیہ میں کئی سیاسی محاذ گرم ہونے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہم نے جسٹس منصور علی شاہ کے بنچ سے ایک فیصلہ دیکھا جو آئینی بنچ نے ختم کر دیا۔ اسی طرح ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ اس لیے یہ تبادلوں سے کوئی مسائل مکمل طور پر حل نہیں ہوئے۔ کشمکش جاری ہے۔ اور ابھی اس کا کوئی حل ممکن نظر نہیں آرہا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل