Loading
اگر کوئی اسرائیل میں اترتا ہے تو وہ لازماً ملک کے واحد بین الاقوامی بن گوریان ایرپورٹ پر ہی اترے گا۔ کہتے ہیں کہ ہرزل نہ ہوتا تو صیہونیت کی موجودہ نظریاتی شکل نہ ہوتی۔وائزمین نہ ہوتا تو شاید بالفور ڈیکلریشن نہ جاری ہوتا۔مگر بن گوریان نہ ہوتا تو شاید اسرائیلی ریاست ہی نہ ہوتی۔بیسویں صدی کی سو بااثر ترین عالمی شخصیات کی ٹائم میگزین لسٹ میں بن گوریان بھی شامل ہیں۔ بن گوریان اکتوبر اٹھارہ سو چھیاسی میں ایک پولش یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ان کے والد ایویگڈور گرون کٹر صیہونی تھے۔یوں بن گوریان کی گھٹی میں ہی صیہونیت تھی۔دیگر صیہونی رہنماؤں کے برعکس بن گوریان کی رسمی تعلیم اسکول تک ہی محدود رہی۔ البتہ انھوں نے عبرانی زبان پر عبور حاصل کر لیا اور وقتاً فوقتاً گذر اوقات کے لیے اس کی تدریس بھی کی۔ انیس سو پانچ سے انیس سالہ بن گوریان نے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی۔ ان کا جھکاؤ بائیں بازو کی جانب تھا۔وہ پولینڈ میں زیرِ زمین جیوش ورکرز پارٹی میں کچھ عرصے فعال رہے۔ان سرگرمیوں کی بنا پر دو بار جیل کی سیر بھی کی۔ بقول بن گوریان انھوں نے اپنے آبائی قصبے پلونسک میں کبھی بھی بطور یہودی کسی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کیا۔مگر پلونسک کے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد نے مرحلہ وار فلسطین کو اپنا وطن بنایا۔اس لیے نہیں کہ وہ اپنی زندگی سے تنگ تھے بلکہ وہ ایک یہودی وطن کی تعمیر کے جذبے سے سرشار تھے۔ انیس سو چھ میں بن گوریان خاندان بھی نقل مکانی کر گیا۔انھوں نے جافا کے قریب قائم ایک یہودی بستی میں ڈیرہ ڈالا اور دیہاڑی دار مزدور بن گئے۔ ان کا مقابلہ مقامی عرب مزدوروں سے تھا جو اپنے کام میں زیادہ ماہر اور کم پیسے میں مزدوری پر بھی آمادہ رہتے تھے۔ جافا میں بن گوریان کو جیوش سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے پرانے کامریڈز بھی مل گئے۔بن گوریان کو پارٹی کی منشور کمیٹی میں شامل کیا گیا۔مگر پھر پارٹی کے دو دھڑے ہو گئے۔ایک دھڑا مقامی عرب اور یہودی آبادی پر مشتمل مشترکہ ریاست کی جدوجہد کا حامی تھا۔ بن گوریان اور دیگر ساتھیوں کا خیال تھا کہ ہمیں صرف یہودی ریاست کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ مشترکہ ریاست کی صورت میں یہودی یورپ کی طرح یہاں بھی اکثریتی عرب آبادی کے رحم و کرم پر رہیں گے۔رفتہ رفتہ بن گوریان کا نظریاتی کیمپ مضبوط ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ پندرہ رکنی پارٹی کانفرنس کی اکثریت نے اس چارٹر کی منظوری دی کہ پارٹی یہودیوں کی سیاسی و معاشی آزادی کی جدوجہد کا محور بنے گی۔ پارٹی ارکان عام لوگوں کو بھی عبرانی کے لسانی دھاگے میں پرونے کی کوشش کرینگے تاکہ ایک متحدہ قومی تصور مستحکم ہو سکے۔ انیس سو گیارہ میں پارٹی قیادت نے یورپی طاقتوں سے کسی تعاون کی امید نہ ہونے پر فیصلہ کیا کہ عثمانی حکومت سے راہ و رسم بڑھائی جائے۔چنانچہ بن گوریان اور ان کے نوجوان ساتھیوں نے ترک علاقے سالونیکا کا رخ کیا تاکہ مقامی یہودی کمیونٹی میں سیاسی کام کرنے کے ساتھ ساتھ ترک زبان بھی سیکھ لیں۔ انیس سو چودہ میں بن گوریان اور ان کے کامریڈ بن زیوی سالونیکا سے فلسطین جانے کے لیے بحری جہاز میں ہی تھے کہ پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی۔بن گوریان اور بن زیوی نے یروشلم پہنچتے ہی ترک افواج کی مدد کے لیے یہودی نوجوانوں کو بھرتی ہونے پر آمادہ کیا۔چالیس جوانوں پر مشتمل یہودی ملیشیا قائم ہوئی۔ مگر عثمانی انتظامیہ نے اس جذبے سے متاثر ہونے کے بجائے بن زیوی اور بن گوریان کو جبراً قاہرہ بھیج دیا۔ وہاں سے دونوں امریکا روانہ ہو گئے تاکہ صیہونیت کا پرچار کریں اور فلسطین میں مزید یہودی آبادکاری اور موجود آبادکاروں کی فلاح کے لیے چندہ لے سکیں۔یہ دورہ نظریاتی و مالی طور پر زیادہ کامیاب نہیں رہا۔مگر جب بن گوریان کی ادارات میں یہودی آبادکاروں کی جدوجہد اور قربانیوں کے بارے میں مضامین کا ایک مجموعہ ’’ عظیم اسرائیل ماضی اور حال ‘‘ انیس سو اٹھارہ میں نیویارک سے شایع ہوا تو اس کتاب کی ہزاروں کاپیاں تیزی سے بک گئیں۔ بن گوریان کی بطور مستند لکھاری اور بطور ایڈیٹر شہرت پھیلتی چلی گئی۔ جب بن گوریان اور ان کے ساتھیوں پر پہلی عالمی جنگ کے وسط میں واضح ہونے لگا کہ اب عثمانی سلطنت کا وقت پورا ہو گیا اور سلطنتِ برطانیہ کا آفتاب عروج پر ہے تو انھوں نے وفاداری پلٹنے میں لمحہ نہیں لگایا اور برطانوی فوج میں بھرتی ہو گئے۔ان کا جیوش لیجن برطانیہ کی فلسطین مہم میں عثمانیوں کے خلاف لڑا۔ فلسطین اور دیگر علاقوں سے عثمانی بوریا بستر لپٹ گیا۔ بن گوریان اور دیگر برطانیہ کی نظر میں گڈ بوائے بن گئے۔ انیس سو انیس میں فوج میں چھانٹی کے سبب جیوش لیجن کی بھی ضرورت نہیں رہی۔بن گوریان دوبارہ ٹریڈ یونین تحریک میں فعال ہو گئے۔انیس سو اکیس میں انھیں فلسطین کی صیہونی لیبر فیڈریشن (حساردوت ) کا جنرل سیکریٹری چن لیا گیا اور اس عہدے پر وہ انیس سو پینتیس تک فائز رہے۔ چونکہ یہودی آبادکاروں میں کسانوں ، محنت کشوں اور ہنرمندوں کی اکثریت تھی لہٰذا بن گوریان اس طبقے کی آنکھ کا تارہ ہو گئے۔البتہ یورپ اور امریکا کی یہودی بورژوازی نے دامے درمے اپنے اپنے ممالک کے حکمران طبقات تک نسلی و مذہبی قوم پرستی کی آواز پہنچانے میں ضرور کلیدی کردار نبھایا۔ بن گوریان اور ان کے ساتھیوں نے یہودی مزدور طاقت کو منظم اور یکجا رکھنے کے لیے مپائی کے نام سے سیاسی تنظیم قائم کی ( یہی جماعت اسرائیل کی تشکیل کے بعد لیبر پارٹی کے نام سے جانی گئی اور اس نے انیس سو ستتر تک بلاشرکتِ غیرے حکومت کی )۔ انیس سو پینتیس تک بن گوریان صیہونی تحریک کے سب سے طاقت ور رہنما کے طور پر ابھرے۔وہ عالمی صیہونی تنظیم کے صدر اور فلسطین میں یہودی آبادکاری کی نگراں جیوش ایجنسی کے چیئرمین بن گئے۔ انھوں نے لیبر تحریک کا ایک مسلح بازو ہگانہ کے نام سے قائم کیا۔اگرچہ ہگانہ دیگر مسلح یہودی ملیشیاؤں کے مقابلے میں اعتدال پسند سمجھی جاتی تھی۔مگر جب یہودی آبادکاروں کو محسوس ہوا کہ انیس سو چھتیس تا انتالیس کے عرصے میں فلسطینی تحریک دبانے میں برطانیہ کا بھرپور ساتھ دینے کے باوجود برطانیہ ایک یہودی ریاست کے قیام میں مدد دینے کے بجائے ٹال مٹول کر رہا ہے تو تمام مسلح ملیشیائیں عالمی جنگ ختم ہوتے ہی اس نکتے پر متفق ہو گئیں کہ ریاست کے قیام کے لیے دھشت گردی سمت ہر حربہ جائز ہے۔اب یا کبھی نہیں۔ چنانچہ ارگون اور لیوی نامی مسلح جتھوں نے عرب آبادی کو جبراً شہروں سے نکالنا شروع کیا اور ہگانہ نے یروشلم میں برطانوی انتظامیہ کا ہیڈ کوارٹر کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑا دیا۔اس واقعہ کے کچھ عرصے بعد برطانیہ نے یہاں سے نکلنے میں عافیت سمجھی۔ چودہ مئی انیس سو اڑتالیس کو بن گوریان نے تل ابیب میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا اور اگلے دن برطانوی اقتدار فلسطین سے ختم ہو گیا۔تین لاکھ فلسطینی پہلے ہی نکالے جا چکے تھے۔بقیہ چار لاکھ اسرائیل پر چار عرب ممالک کے حملے کی ناکامی کے بعد نکال دیے گئے۔اس جنگ میں نہ صرف برطانوی اور غیر قانونی طور پر اسمگل ہونے والا امریکی اسلحہ کام آیا بلکہ سوویت یونین کی تائید سے چیکو سلوواکیہ نے بھی نوزائیدہ ریاست کی بھرپور فوجی امداد کی۔ بن گوریان انیس سو تریسٹھ تک اسرائیل کی قیادت کرتے رہے۔ان کی وزارتِ عظمی میں یہودی ملیشیاؤں کو ضم کر کے اسرائیلی ڈیفنس فورس تشکیل پائی۔انیس سو چھپن کی سویز جنگ بھی ہوئی۔مغربی جرمنی نے ہٹلر کی نسل کشی کے ازالے کے لیے پانچ ارب ڈالر ہرجانے کی رقم اسرائیل کو مہیا کی اور آج تک کسی نہ کسی شکل میں احسان چکا رہا ہے۔ بن گوریان انیس سو ستر میں عملی سیاست سے ریٹائر ہو کر جنوبی اسرائیل کے ایک گاؤں میں بس گئے اور وہیں یکم دسمبر انیس سو تہتر کو ان کا ستاسی برس کی عمر میں انتقال ہوا۔وہ اکتوبر انیس سو تہتر کی عرب اسرائیل جنگ دیکھ کے رخصت ہوئے۔ نہوم گولڈمین عالمی صیہونی کانگریس کے انیس سو اکیاون تا اٹھہترصدر رہے۔ان کے بقول بن گوریان نے مجھ سے انیس سو چھپن میں ایک نجی ملاقات کے دوران کہا : ’’ میں عربوں کی جگہ ہوتا تو کبھی اسرائیل کو تسلیم نہ کرتا۔یہ ایک فطری ردِعمل ہے۔ ہم بھلے سمجھتے ہیں کہ اس سرزمین کا وعدہ ہم سے خدا نے کیا تھا۔ مگر عربوں کو ہمارے عقیدے سے کیا واسطہ ؟ ہمارا خدا ان کا تو نہیں۔یہ سچ ہے کہ ہم بنی اسرائیل سے ہیں مگر یہ بھی دو ہزار برس پرانی بات ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ ہم صدیوں سے تعصب کا مسلسل شکار ہیں۔ہمیں ہٹلر کے نسل کش کیمپوں سے گذرنا پڑا۔مگر یہ عربوں کا تو دوش نہیں۔وہ تو بس یہی جانتے ہیں کہ ہم آئے اور ان کا ملک چوری کر لیا۔وہ آخر کیوں اسے قبول کریں ‘‘ ؟ ۔ (وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل