Tuesday, February 04, 2025
 

مارشل لاء اور جمہوری دور

 



بچپن میں سنا کرتے تھے کہ مارشل لاء دور میں آئین معطل ہو جاتا تھا، آزادی اظہار رائے چھین لی جاتی تھی، کسی کو جمہوریت یا اپنی آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، جو بھی جمہوریت کی بحالی یا حکومت کے خلاف جدوجہد کرتا اسے قید کر دیا جاتا، زبان بندی کر دی جاتی، مارشل لاء دور میں ہونے والے ظلم و ستم کی کہانی ہم نے پیپلزپارٹی کے سابق صوبائی وزیر سید قمر عباس، سید ایوب شاہ، اعظم آفریدی اور بہت سے پیپلزپارٹی کے جیالوں سے سن رکھی تھیں، ان سے سنی داستانیں آج ہم دیکھ بھی رہے ہیں۔ بارہ اکتوبر سن 1999 کو جب نواز شریف حکومت کو تختہ الٹا گیا تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء کا نام لیے بغیر ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا، اس وقت پشاور کے مقامی روزنامہ میں رپورٹنگ کیا کرتا تھا اور اس ادارے میں کام شروع کیے ہوئے صرف 12 روز ہی گزرے تھے، شام کو اپنی بیٹ کی خبروں سے فارغ ہوکر گھر پہنچا تو والد محترم ٹی وی دیکھ رہے تھے اس وقت کیبل یا سوشل میڈیا کا زمانہ تھا، ٹی وی پر اچانک سے میڈیم نور جہاں کے گانے چلنا شروع ہوگئے والد بے ساختہ بولے ملک میں مارشل لاء لگ گیا ہے، میں نے والد محترم سے کہا نہیں ایسی بات نہیں میں ابھی دفتر سے آیا ایسے کوئی اثرات نہیں تھے، تو والد نے کہا کہ تھوڑی دیر میں معلوم ہوجائے گا، پانچ منٹ ہی گزرے تھے، گھر کے نمبر پر آفس سے فون آیا کہ دفتر پہنچے ملک میں ایمرجنسی لگ گئی ہے۔ میں نے والد کی طرف دیکھا اور آفس کو چل پڑا، کہنے میں تو مارشل لاء ہی تھا لیکن اس وقت جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء لفظ کے استعمال پر پابندی لگا دی، اخبارات کو ہدایات جاری کی گئیں کہ مارشل لاء کا لفظ استعمال نہیں کرنا، لیکن پھر بھی بعض اخبارت میں یہی سرخی لگی کہ ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا، پشاور کے ایک مقامی اخبار کی سرخی تھی کہ ’’نواز حکومت گئی فوج آگئی‘‘۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کے متبادل ق لیگ کو جنم دیا گیا، پنجاب میں ق لیگ اکثریت حاصل کرنے کے باعث مرکز میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی، انتخابات کو منصفانہ قرار دینے کے لیے خیبرپختونخوا میں دینی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کو حکومت دے دی گئی، یہی وجہ ہے کہ اس وقت ایم ایم اے کو ’’ملا ملٹری الائنس‘‘ بھی کہا گیا۔ اسی دور میں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کے درمیان دوریاں ختم ہوئیں، جنرل پرویز مشرف رجیم کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ’’اتحاد برائے جمہوریت‘‘ بنا، اس وقت بھی حکومت کے خلاف تحریک چلی، مظاہرے ہوئے جلسوں کا انعقاد کیا گیا، لیکن مشرف کے دور میں کسی بھی جماعت یا حکومت مخالف تحریک پر پابندی نہیں لگی حکومت نے اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کیے، جمہوریت برائے نام تھی لیکن کسی کی زبان بندی نہیں کی گئی، آزادی اظہار رائے تھی، صرف ایک چینل حکومت مخالف ہونے کی وجہ سے زیرعتاب رہا۔ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ نے مارشل لاء اور ڈکٹیٹرشپ کے خلاف آواز بلند کی، اگرچہ نواز لیگ پر یہ الزام رہا کہ وہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو دوام بخشنے میں برابر کی شریک رہی لیکن پیپلزپارٹی نے کبھی ڈکٹیٹر سے ہاتھ نہیں ملایا، لیکن اب کی بار انہونی ہوگئی ہے، بانی چیئرمین عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تحریک سے اب تک پیپلزپارٹی اور نواز لیگ نے وہ کچھ کر ڈالا جس کی امید نہیں کی جا رہی تھی، ایک جمہوری ملک اور جمہوری نظام میں اختلاف رائے، احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن خود کو جمہوری جماعت کا دعویٰ کرنے والی جماعتوں نے اپنے دور اقتدار میں مارشل لاء حکومتوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کو بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری پر ایسا ردعمل نہیں دینا چاہیے جو 9 مئی کو ہوا، اس کے بعد سے تحریک انصاف مسلسل پابندیوں کا سامنا کر رہی ہے، عام انتخابات میں انتخابی نشان لیا گیا تو نامزد امیدوار نشانہ بنے، خیبر پختونخوا میں اکثریت ملی تو سینیٹ الیکشن التوا کا شکار ہوگئے، مخصوص نشستوں پر خواتین امیدواروں کی بھی نامزدگیاں نہ ہوسکیں، خیبر پختونخوا کے علاوہ تحریک انصاف سیاسی سرگرمیاں بھی نہیں کر پا رہیں، جو کچھ اس وقت اپوزیشن جماعتوں یا تحریک انصاف کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے تب سوال تو اٹھتا ہے کہ، کیا ایسا جمہوری ملک یا جمہوری نظام ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والے سلوک کے ردعمل میں اس وقت سوشل میڈیا پر حکومت اور حکومتی اداروں کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا جا رہا ہے، حکومت یا اداروں کے خلاف اس طرح کا ردعمل ملکی استحکام کے لیے درست نہیں، اختلاف رائے ہو سکتا ہے اور جیسا کہ ہم نے سنا ہے اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے۔ حکومت کو اختلاف رائے برداشت بھی کرنا چاہیے لیکن اختلاف رائے کرنے والوں کو ملک کے استحکام کو مدنظر رکھنا چاہیے، جب اختلاف رائے کی حدیں پار ہوتی ہیں پھر جو بھی حکومت ہو، ادارے یا عام شہری اسے روکنے کے لیے قدم اٹھانا پڑتا ہے، اس وقت سوشل میڈیا پر جو پروپیگنڈا چل رہا ہے اسے روکنے کے لیے پیکا ایکٹ نافذ کر دیا گیا ہے لیکن اس سے ایک عام صحافی بھی خود کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہے، ایک جمہوری سیاسی جماعت سے ایک جمہوری حکومت میں اس طرح کے قانون کی توقع نہیں کی جا سکتی، بجائے اس کے عمل کا ردعمل مزید سخت ہوتا جائے حکومت کے ساتھ تحریک انصاف کو بھی اختلاف برائے اختلاف کو ختم کرنا ہوگا، پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکراتی دور شروع ہوا اور ختم بھی ہوگیا، دو فریقین کے درمیان کبھی بھی مذاکرات اس وقت کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والا نہیں ہوگا، ثالث کا کردار ادا کرنے والا ہی دو فریقین کو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر قریب لانے میں کامیاب ہوتا، اس وقت پی ٹی آئی اور حکومت انا کے جھنجھٹوں میں پڑ گئے ہیں، دونوں کو ملکی مفاد کو مد نظر رکھ کر مصالحت کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل