Loading
21 فروری کو دنیا بھر میں مادری زبان کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ا س دن کی مناسبت سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مادری زبان کی اہمیت، فروغ اور موجودہ صورتحال پر سیر حاصل گفتگوہوئی۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔ بینش فاطمہ ساہی (ڈائریکٹر جنرل ، پنجاب ادارہ برائے زبان، فن و ثقافت) مادری زبانوں کے حوالے سے عالمی سطح پر کام ہو رہا ہے اوراب باقاعدہ عالمی دن منایا جاتا ہے۔ عالمی اداروں کی تحقیق کے مطابق مادری زبان میں تعلیم زیادہ موثر ہوتی ہے کیونکہ یہ زبان تو بچہ اپنی پیدائش سے پہلے ہی سیکھ رہا ہوتا ہے اور یہ اس کے لاشعور کا حصہ بن جاتی ہے لہٰذا جب وہ اس زبان میں تعلیم حاصل کرے گا تو اسے نئی زبان سیکھنے کی تگ و دو نہیں کرنی پڑے گی اور اس طرح اس کیلئے تعلیم آسان ہوگی۔ ٹیکنالوجی کی وجہ سے دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے اور ایک یونیفارم کلچر نظر آنے لگا ہے جس کی وجہ سے اب اس طرف توجہ دی جارہی ہے کہ مختلف کلچر، ثقافت، روایات اور زبانوں کو فروغ دیا جائے۔ دنیا کا حسن ڈائیورسٹی میں ہے۔ ہم جس خطے میں موجود ہیں یہ دنیا کی قدیم اور ترقی یافتہ تہذیب ہے جو ہم تک پہنچی ہے۔ ہماری مادری زبانیں وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کر رہی ہیں اور ان میں یہ صلاحیت ہے کہ دیگر زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمو سکیں۔ ہمیں اپنی علاقائی زبانوں کی اہمیت اور عزت بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اس خطے میں حکمرانوں کی زبان کو فروغ ملا، کبھی فارسی، کبھی انگریزی اور کبھی اردو بھی سٹیٹس کو کا حصہ سمجھی گئی۔ ایسے میں ہم نے اپنی علاقائی زبانوں سے کچھ دوری اختیار کی۔ امریکی شاعر جیفری چوسر نے ابھی شاعری شروع نہیں کی تھی مگر ہمارے ہاں بابا فریدؒ پنجابی میں شاعری کرتے تھے۔ بابا فریدؒ یہاں ہجرت کرکے آئے ۔ان کی اپنی زبان اور حکومتی زبان فارسی تھی مگر انہوں نے فارسی میں شاعری نہیں کی بلکہ پنجابی زبان میں کی، انہیں معلوم تھا کہ یہاں کے لوگ اپنی زبان میں زیادہ سمجھیں گے۔ انہوں نے اس زمانے میں پنجابی ادب کی داغ بیل رکھی۔ اسی طرح وارث شاہؒ کی شاعری میں جتنے مضامین ا ور جتنی گہرائی ہے، وہ شیکسپیئر سے زیادہ ہے۔ ہمہ گیریت، رواداری، اخوت اور بھائی چارے کا جو پیغام ہماری زبان دے رہی ہے یہ اس وقت کی ضرورت ہے۔ آج ہم اپنی تہذیب کو چھوڑ کر مشکل میں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت آگئی ہے جس کا نقصان سب کو ہو رہا ہے۔ ہم اپنی ثقافت سے دور ہو رہے ہیں، زبان چھوڑنے سے ہم اپنی تہذیب چھوڑ رہے ہیں لہٰذا ہمیں اپنی زبان کو اپنانا اور اس پرفخر کرنا ہے۔ تمام زبانیں اہم ہیں کیونکہ یہ تہذیبوں کی حقیقی روح تک پہنچنے میں مدد کرتی ہیں۔ تہذیب کو اگلی نسل تک منتقل کرنے کا ذریعہ زبان ہے۔ زبان چھوڑنا تہذیب چھوڑنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم اس خطے میں صرف ایک زبان کو فروغ دیں گے تو اس سے مسائل پیدا ہوں گے۔ تمام زبانیں ہماری ہیں جنہوں نے وہ رعنائیاں اور خوبصورتی عطا کی ہے جو ہمارا حسن ہے۔ پنجاب اتنا بڑا صوبہ ہے کہ اس میں کئی ملک سما سکتے ہیں۔ ہم سب صدیوں سے اکٹھے ہیںاور ایک دوسرے کے ساتھ اخوت، محبت، بھائی چارے اور رواداری کے ساتھ رہتے ہیں۔ کوئی زبان بری نہیں ہوتی ، یہ اللہ نے ودیت کی ہیں۔ زبان اور حروف خیالات کی عکاسی کرتے ہیں۔ غلط بات کسی بھی زبان میں ہو وہ غلط ہے۔ اخلاقیات اور اقدار زبان کی بنیاد پر نہیں ہوتی اور نہ ہی زبان اس کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ زبان ایک صلاحیت ہے جس سے روزگار کو منسلک کرنا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ پیار محبت سے رہنے کیلئے بھی زبان سکھانی چاہئیں اور ان کی افادیت بھی بتانی چاہیے۔ پنجاب میں یہ دیرینہ مطالبہ چلا آرہا ہے کہ پرائمری کی سطح پر بچوں کو مقامی زبانوں میں تعلیم دی جائے ۔ ہم سن کر زبان سیکھتے اور بولتے ہیں۔ جب تک اس کو پڑھیں اور لکھیں گے نہیں تب تک ہم اپنی زبان کو نہیں بچا سکتے اور نہ ہی صحیح معنوں میں اسے فروغ ملے گا۔ گزشتہ برس پنجابی کلچر ڈے کے موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پنجابی زبان کو سکول کی سطح پر متعارف کرانے کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ اس حوالے سے محکمہ سکولز ایجوکیشن کام کر رہا ہے، ہم نے بھی اپنی سفارشات دی ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے جسے جلد بازی میں نہیں کیا جاسکتا،اس پر کام جاری ہے۔ جدید دور میں ہمیں مادری زبان میں مواد بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مزید ناول، کہانیاں، ڈرامے و دیگر مواد اپنی زبان میں بنانے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر علاقائی زبانوں میں کانٹینٹ بناکر اسے فروغ دینا ہوگا۔ پلاک نے پنجابی ڈکشنری بنائی ہے، ہم اسے ڈیجیٹلائز کر رہے ہیں جس کے بعد یہ سافٹ کافی میں دستیاب ہوگی۔ ہم نے پنجابی زبان میں بچوں کیلئے رنگین قائدے بھی بنائے ہیں، ہم این جی اوز اور اکیڈیمیا کے ساتھ مل کر پنجابی زبان کے فروغ کیلئے کام کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں اور نوجوانوں پر توجہ دینی ہے، انہیں اپنی زبان سے جوڑنا ہے۔ ہمیں اپنے قابل، تعلیم یافتہ افراد کو نوجوانوں کیلئے رول ماڈل بنانا ہے کہ وہ اپنی زبان میں بات چیت کریں۔ ہمارا میوزک پنجابی میں ہے، اسے پسند بھی کیا جاتا ہے اور یہ گانے ہٹ ہوتے ہیں۔ ہم کھانا، گانا اور پہناوا تو پنجابی کا کرتے ہیں لیکن زبان بولتے ہوئے ہچکچاتے ہیں، ہمیں یہ جھجھک ختم کرنا ہوگی اور اپنی زبان، کلچر اور ثقافت پر فخر کرنا ہوگا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران (ڈین فیکلٹی آف اورینٹل لرننگ، جامعہ پنجاب) آئین پاکستان، قومی زبان کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں کے تحفظ اور فروغ کی بات بھی کرتا ہے۔ زبانیں خاندان کی طرح ہیں جس میں سب ساتھ رہتے ہیں۔ یہ کثیر الثقافتی طرز عمل کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کوئی بھی زبان اکیلے ترقی نہیں کرتی بلکہ اس کے ساتھ دوسری زبانیں بھی ترقی کرتی ہیں اور جب کوئی زبان ختم ہوتی ہے تو صرف زبان ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ تہذیب کا ایک مضبوط حصہ ہم سے جدا ہوجاتا ہے۔ آج بھی جب میں دعا مانگتا ہوں تو اپنی زبان میں مانگتا ہوں۔ مشتاق احمد یوسفی نے ایک انتہائی دلچسپ بات کہی کہ گالی، گنتی، سرگوشی اور گندا لطیفہ تو صرف اپنی زبان میں ہی مزہ دیتا ہے۔ مادری زبان انتہائی اہم ہے۔ بہت سارے ایسے الفاظ ہیں جن کا کسی اور زبان میں ترجمہ کرنے سے ان کا لطف ختم ہوجاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم نے اپنے بچوں کو ان کی مادری زبان سے دور کر دیا تو وہ اپنی میراث سے دور جائیں گے۔ خواجہ غلام فریدؒ کہتے ہیں ہک ہے ہک ہک ہے ہک دی ہر دم سک ہے جیڑا ہک کو ں ڈوں کر جانے او کافر مشرک ہے یہ جو لفظ ’سک‘ہے، میرے نزدیک اس کا ترجمہ کسی زبان میں نہیں کیا جاسکتا۔ یہ طلب و تڑپ ہے۔ آپ ؒ مزید لکھتے ہیںکہ ہن تھی فریدا شاد ول مونجھاں کو نہ کر یاد ول جھوکاں تھیسن آباد ول اے نیں نہ واہسی ہک منڑی خواجہ غلام فرید ؒ چولستان میں ہیں۔ وہاں پانی نہیںہے، زندگی مشکل ہے لیکن ایک امید ہے۔ ہمیں اپنی علاقائی زبانوں سے امید کا پیغام ملتا ہے، ہمیں ان سے محبت کرنی چاہیے۔ایک معاشی نمو ہوتی ہے اور ایک ثقافتی نمو۔ دنیا میں جو بھی ثقافتی طور پر امیر ہیں وہ اپنی زبان سے جڑے ہیں۔ بابا بلھے شاہ،ؒ خواجہ غلام فریدؒ و دیگر کو پڑھیں، ہیر پڑھیں،مزہ اصل زبان میں ہی ہے، اس کے ترجمے میں نہیں۔ علاقائی مادری زبانوں کی شاعری میں اتنی طاقت اور توانائی ہے جو دنیا کی بڑی زبانوں میں نہیں ہے۔ سندھ کی طرح اگر پنجاب میں بھی پنجابی، سرائیکی میں بچوں کو ابتدائی تعلیم دی جائے تو بہتری آسکتی ہے۔ بچے نے اپنی دادی، ماں سے اپنی مادری زبان میں کہانیاں سنی ہیں۔ یہ اسے اپنی زمین کے ساتھ جوڑتی ہے اور زمین ایک بڑی طاقت ہے۔ مادری زبان کے ساتھ جذباتی وابستگی ہے۔ اردو بنیادی طور پر سیکولر زبان ہے جس میں دنیا کا ہر لفظ اپنی حقیقی شکل میں یا معمولی تبدیلی کے ساتھ جذب ہوجاتا ہے۔ یہی خوبصورتی ہماری علاقائی زبانوں کی بھی ہے۔ پنجابی، فارسی، پشتو، سندھی، سرائیکی و دیگر زبانیں ایک ڈور سے بندھی ہیں، ان میں ایک لفظ کو بیان کرنے کیلئے ایک سے زائد الفاظ موجود ہیں۔ ہماری زبانیں ترقی یافتہ ہیں اور ان میں امکانات موجود ہیں۔ مادری زبانوں کا دن منانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگوں میں اپنی مادری زبانوں سے محبت ہو۔ دنیا میں صرف وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنی تہذیب، اقدار اور زبان سے محبت کرتی ہیں۔ اب دنیا تبدیل ہورہی ہے۔ بہت ساری زبانیں اس لیے معدوم ہورہی ہیں کہ انہوں نے ٹیکنالوجی سے اپنا رشتہ نہیں جوڑا۔ اردو کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ تو شاعری ، عشق و محبت کی زبان ہے۔ اس میں تکنیکی معاملات نہیں ہوسکتے۔حیدرآباد دکن میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور میڈکل کی تعلیم اردو زبان میں دی جا چکی ہے، اس حوالے سے کتب موجود ہیں۔ یہ آئینی تقاضہ بھی ہے اور سپریم کورٹ کا حکم بھی،ا س کے باوجود ہم اسے نافذ نہیں کر پارہے کیونکہ ہماری نیت میں کمی ہے۔ اردو کے نفاذ کیلئے سرکلر اور حکم نامے انگریزی زبان میں ہوتے ہیں۔ ریاست کے پاس نافذ کرنے کی طاقت ہوتی ہے۔ زبان کے نفاذ میں جہاں کمی ہے اسے دور کرنا چاہیے۔ ہماری مختلف علاقائی زبانیں ہیں، سکولوں میں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں، ان کی حیثیت برقرار رکھنی چاہیے۔ یہ زر کی دنیا ہے، سرمایہ دارانہ نظام ہے، جس کی طلب ہوگی، اس کی رسد ہوگی۔ آج مادری زبانوں میں روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تو ان پر کام کا آغاز ہوجائے گا اور لوگ اس طرف آنا شروع کر دیں گے۔ دنیا میں پہلے اردو زبان میں سافٹ ویئر موجود نہیں تھے مگر آج موجود ہیں۔ گوگل اردو کے ساتھ ساتھ سندھی، بلوچی اور پشتو پر بھی توجہ دے رہا ہے کیونکہ اسے معلوم ہوگیا ہے کہ ان کی طلب موجود ہے۔ مادری زبانوں سے محبت اور تہذیب جڑی ہے، اس کے فروغ کیلئے سرکاری سطح پر وسائل مختص کرنے چاہئیں اور سب کو اپنا اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔ انہیںا ٓرٹیفیشل انٹیلی جنس اور جدید ٹیکنالوجی سے جوڑنا چاہیے تاکہ انہیںد وام ملے۔ ایک ماہر لسانیات نے 45 برس پہلے کہا تھا کہ دنیا جتنی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے اس میں اردو زبان کی عمر صرف 50 برس ہے۔ آج اردو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے زندہ ہے، یہ موبائل اور کمپیوٹر میںا ٓگئی ہے۔ دنیا میںکئی چھوٹے ملک ہیں جو اپنی زبان سے جڑے ہیں، جب ان کے ہوائی اڈوں پر جاتے ہیں تو سب کچھ ان کی اپنی زبان میں ہوتا ہے، ان کے سافٹ ویئر اپنی زبان میں ہیں۔ انگریزی زبان ایک سہولت ہے لیکن اس کے باوجود ممالک اپنی زبان سے جڑے ہیں۔ انہیں سمجھ ہے کہ اپنی زبان میں پڑھنے والا بچہ تخلیق کار بن سکے گا۔ ہم انگریزی زبان پڑھا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بڑے سائنسدان پیدا نہیں ہوسکے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تخلیق کے بجائے تقلید کی۔ جب ہم اپنی زبان، روایات، اقدار، ثقافت اور ماحول کو ساتھ لے کر چلیں گے تو ترقی کریں گے۔ ہمارے ملک کی مختلف جامعات میں زبانوں پر ریسرچ سینٹرز موجود ہیں۔ پنجابی کے حوالے سے پلاک ایک بہترین ادارہ ہے۔ سرائیکی سینٹرز بھی قائم ہیں اور ان پر بھی تحقیق ہورہی ہے۔ میرے نزدیک صرف پڑھانا کافی نہیں ہے۔ کیا بچے یہ زبانیں صرف جذباتی وابستگی کی وجہ سے پڑھیں؟ اصل چیز یہ ہے کہ ہمیں زبان کو معیشت سے جوڑنا ہوگا۔ اس سے رزق کو وابستہ کریں تو لوگوں کا رجحان بڑھے گا۔ اپنی زبان پڑھنے والے کاروزگار یقینی بنانا چاہیے۔ صرف جذبات کی روشنی میں قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صائمہ بتول (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ پنجابی لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی) مادری زبان وہ ہے جو بچہ اپنے گھر اور ارد گرد کے ماحول سے سنتا اور سیکھتا ہے۔ یہ زبان اس کی سوچ، جذبات، احساسات اور تجربات کو خاص انداز میں ڈھالتی ہے لہٰذا مادری زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ زبان سے لاتعلقی کا مطلب اپنی روایات، ورثہ، ثقافت اور تاریخ سے لاتعلقی ہے۔ تعلیم اور زبان کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ انسان کے خیالات کا تبادلہ زبان کے بغیر ممکن نہیںاور اگر یہ مادری زبان میں ہو تو موثر ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق بچہ اپنی مادری زبان میں جلدی سیکھتا ہے اوراس کی تخلیقی صلاحیتیں بہتر ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ابتدائی برسوں میں مادری زبان میں سب کچھ سیکھتا ہے، اس کے پاس اسی زبان میں الفاظ کا ذخیرہ ہوتا ہے اور پھر جب وہ سکول جاتا ہے تو اس کی زبان اور لغت بدل جاتی ہے، اسے اپنے جذبات، احساسات اور خیالات کے اظہار میں مشکل پیش آتی ہے۔ زبان سے دوری کی وجہ سے بچوں میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے کیونکہ بچے نے فطری طور پر جو سیکھا ہوتا ہے ہم اسے اس سے دور کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ تعلیم کو بوریت سمجھنے لگتا ہے، اسے اپنی آزادی ختم اور ایک محدود ماحول نظر آنے لگتا ہے۔ والدین بھی اپنے بچوں کو مادری زبان بولنے سے روکتے ہیں۔ افسوس ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ان کے اجداد سے دور کر رہے ہیں۔ ہم صرف اپنی زبان ہی نہیں بلکہ اپنی شناخت کھو رہے ہیں۔ ہمارا کلچر، روایات، دانش، سب ہماری مادری زبان میں ہے جس سے دوری کی وجہ سے ہم مسائل سے دوچار ہیں۔ ہمیں اپنے اصل سے جڑنا ہے، اس کے بغیر ہماری کوئی پہچان نہیں ہے۔ میرے نزدیک ہمیں زبان کے عزت و وقار کی بحالی کیلئے بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلانا ہوگی۔ مادری زبان کا عالمی دن لوگوں کی اپنی زبان کیلئے جدوجہد اور قربانیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے، ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ زبان میں تعصب نہیں اپنائیت ہوتی ہے، ہمیں ایک دوسرے کی زبان کا احترام کرنا ہے اور اپنی زبان سے جڑے رہنا ہے۔ مادری زبان میں امید ہوتی ہے، ہمیں اسے فروغ دینا ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی آپس میں اپنی زبان میں ہی گفتگو کرتے ہیں،ا نہیںا س میں راحت، سکون ملتا ہے اور جذبات کے اظہار میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ ہمیں اپنی اپنی مادری زبانوں پر فخر اور ان کیلئے فروغ کیلئے ہر سطح پر کام کرنا ہوگا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل