Loading
تبصرہ نگار: بشیراحمد واثق ظفریات مصنف: ظفر اقبال ظفر، قیمت:300 روپے، صفحات:96 ناشر: دھنک مطبوعات ، پاک ٹاور، کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور (03008873052) تحریر فکر عطا کرتی ہے اب وہ فکر کس زاویے کی ہوتی ہے یہ تو لکھاری اور قاری دونوں کے فہم پر منحصر ہے ۔ بعض تحریروں کی گہرائی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اس کی کئی جہتیں ہوتی ہیں ہر کوئی اپنی عقل و دانش کے مطابق ان کی تشریح کرتا ہے جبکہ بعض پانی کی طرح ہوتی ہیں بہتی ندی کی طرح دل و دماغ کوسیراب کرتی چلی جاتی ہیں ادیب جو کہنا اور سمجھانا چاہتا ہے وہ بڑی آسانی سے ازبر ہو جاتا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب کے مضامین بھی ایسے ہی ہیں قاری انھیں پڑھتا ہے تو فکر کے چراغ جلنے لگتے ہیں ۔ تحریر کی روانی اور چاشنی قاری کو اپنے ساتھ لگائے رکھتی ہے سب سے اہم یہ کہ مصنف نے ہر لفظ دل سے لکھا ہے یوں لگتا جیسے وہ عقل کو دل کے تابع کر کے بات کہہ رہے ہیں اسی وجہ سے ان کی بات دل کو ٹھاہ کر کے لگتی ہے ۔ معروف لکھاری و دانشور ناصر ادیب کہتے ہیں ’’ ظفر اقبال ظفر رہتا اس دور میں ہے لیکن بات ہر دور کی کرتا ہے وہ صرف اپنے آپ کو نہیں لکھتا اس کو لکھتا ہے جیسے محسوس کرتا ہے حالانکہ اکثر رائٹر وہ لکھتے ہیں جو دیکھتے ہیں یہ وہ رائٹر ہے جس کے بارے میں میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ سمندر کے کنارے جا کر سطح پر آنے والی مچھلیوں کو نہیں پکڑتا بلکہ سمندر میں چھلانگ لگا دیتا ہے اس کی گہرائیوں میں اتر کر وہاں ہیرے موتی اپنے لفظوں کے جال میں اکھٹے کر کے لاتا ہے اور ان کو ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اس کی کتاب وہ کتاب ہے جو ہر صاحب اولاد آدمی کے تکیے کے نیچے ہوتی چاہیے۔ ‘‘ معروف ادیب و دانشور قاسم علی شاہ کہتے ہیں ’’ ہر دور میں اظہار خیال کا بہترین ذریعہ قلم اور اس سے ابھرنے والے خوبصورت الفاظ رہے ہیں ، تحریر کے فن پر مہارت رکھنے والے اپنے الفاظ کے ذریعے ایسا نفع بخش مواد تخلیق کرتے ہیں جو برسوں تک خیر کا باعث بنتا رہتا ہے، ظفر اقبال ظفر بھی ایسی منفرد تحریر لکھنے کا ہنر رکھتے ہیں ۔ زیر نظر کتاب کے تمام موضوعات بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیے گئے ہیں جو قارئین کے اندر ایک نئی سوچ کو اجاگر کریں گے۔ ظفر اقبال ظفر نے مضامین کا انتخاب بہت عمدگی سے کیا ہے جو کہ سماجی اور معاشرتی مسائل کی عکاسی کر کے لوگوں میں شعور کو اجاگر کرنے کا سبب بنے گا ۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح و بہتری کے لیے کی گئی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے علم میں مزید اضافہ فرمائے آمین!‘‘۔ بہت شاندار کتاب ہے ضرور مطالعہ کرنا چاہیئے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔ بے وفا سے بھی پیار ہوتا ہے شاعر : پرنم الہٰ آبادی، مرتب : اقبال پیام، قیمت :300 روپے، صفحات:160 ناشر : ادبستان، پاک ٹاور، کبیر سٹریٹ ، اردو بازار، لاہور(03004140207) پرنم صاحب کمال کے آدمی تھے ، کمال کے شاعر تھے، تصوف کی پہنائیوں میں اترے ہوئے تھے ۔ اسی لئے ان کی شاعری کئی جہتیں لئے ہوئے ہے ، سننے والے، پڑھنے والے سب کے دلوں پر جا کر لگتی ہے ۔ اقبال پیام صاحب آج بھی بزم پرنم کی صورت میں اپنے استاد محترم کی یاد کا دیپ جلائے ہوئے ہیں ۔ ممتاز شاعر و ادیب عطاء الحق قاسمی کہتے ہیں ’’ شاعر تو ہر دور میں سینکڑوں کی تعداد میں موجود رہے ہیں لیکن پرنم الہٰ آبادی کے حصہ میں جو شہرت اور عزت آئی وہ شاید ہی کسی اور شاعر کا مقدر بنی ہو ۔ ان کا کلام ملک کے نامور قوالوں اور گلوکاروں نے گایا ۔ پرنم الہٰ آبادی ایک درویش صفت انسان اور سچے عاشق رسولﷺ تھے وہ چاہتے تو اپنی شہرت سے بہت سے دنیاوی فائدے حاصل کر سکتے تھے مگر انھوں نے دنیاوی زندگی کی نسبت اخروی زندگی کو ترجیح دی اور خود کو در نبی کا گدا بنا کر توشہ آخرت کا سامان کیا۔ ’’ بے وفا سے بھی پیار ہوتا ہے ‘‘ ان کی غزلیات کا دوسرا مجموعہ ہے جسے ان کے باوفا اور جاں نثار شاگرد محمد اقبال پیام نے مرتب کیا ہے ۔ ان کی وفات کے بعد جس طرح اقبال پیام نے ان کی ذات کا پرچم بلند کیا ہے یہ جذبہ بھی صد لائق تحسین ہے ورنہ مادی ترقی کے اس دور میں روحانی سلسلوں کو کون یاد رکھتا ہے۔‘‘ امجد فرید صابری قوال کہتے ہیں ’’ بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ ‘‘ کے خالق پرنم الہٰ آبادی کے کلام نے میرے والد غلام فرید صابری کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ۔ میرے لیے بھی یہ اعزار کم نہیں کہ میں بھی ہر محفل میں ان کا کلام گاتا ہوں ۔ پرنم الہٰ آبادی ایک عہد ساز شخصیت ہے ۔ ایسی نابغہ روزگار ہستی مدتوں بعد پیدا ہوتی ہے ۔ اقبال پیام اس حوالے سے خوش قسمت ہے کہ نہ صرف ان کی زندگی میں اسے پرنم صاحب کی شاگردی اور خدمت کرنے کا شرف ملا بلکہ پرنم صاحب اسے بہت عزیز رکھتے تھے ۔ مجھے امید ہے پیام کی مرتب کردہ کتاب ’’ بے وفا سے بھی پیار ہوتا ہے ‘‘ پرنم صاحب کی زندگی اور شاعری کے بہت سے مخفی گوشوں کو وا کرے گی ۔‘‘ زیر تبصرہ کتاب غزلیات کا مجموعہ ہے ، بہت شاندار کلام ہے جیسے کہتے ہیں ۔ بے وفا سے بھی پیار ہوتا ہے یار کچھ بھی ہو یار ہوتا ہے ساتھ اس کے جو ہے رقیب تو کیا پھول کے ساتھ خار ہوتا ہے غزلیں دل موہ لیتی ہیں ، قاری ان کے سحر میں ڈوب جاتا ہے ۔ شاعری سے دلچسپی رکھنے والوں لئے خاص تحفہ ہے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔ تبصرہ نگار: حافظ بلال بشیر ارض فلسطین مصنف کا نام: ابو الحسن نعیم ابو الحسن نعیم نوجوان عالم دین ہیں، ’’ابو الحسن نعیم ‘‘ آپ کا قلمی نام ہے جب کہ اصل نام ’’نعیم اختر ربانی‘‘ ہے، ماہنامہ المصباح کے مدیر بھی رہے ہیں، قومی اخبارات اور مختلف ویب سائٹس پہ آپ کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں، حال ہی میں آپ نے ارض فلسطین پہ قلم اٹھایا تو ایک خوبصورت کتاب لکھ ڈالی، سرزمین بیت المقدس پہ موجودہ دور میں جتنا بھی لکھا پڑھا اور سنا جائے کم ہے، میرے خیال میں ارض فلسطین پہ اس وقت جتنی آواز اٹھانے کی ضرورت ہے پچھلے ادوار میں اتنی ضرورت کبھی نہیں تھی۔ صیہونی ریاست کی طرف سے جس قدر آج کے دور میں ظلم و ستم جاری ہے تاریخ کے اوراق میں ایسا ظلم و ستم کبھی نہیں ملتا۔ اس ظلم و ستم کے خلاف مذمتی بیانات اور مظلوموں کے حق میں آوازیں بھی بلند کی جا رہی ہیں۔ مسلمانوں کے دل اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے تڑپ رہے ہیں اور وہ ان کی مدد کے لیے دستیاب وسائل کے ساتھ انفرادی سطح پر تعاون بھی کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بیت المقدس کی ملکیت کے متعلق فکری جنگ بھی شدت اختیار کر چکی ہے۔ کتاب ’’ارض فلسطین‘‘ میں ان تمام موضوعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ مصنف نے بیت المقدس کے فضائل، برکات، تاریخ، اور اس کے حقیقی وارثین کے متعلق مدلل انداز میں گفتگو کی ہے۔ کتاب میں قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ بیت المقدس نہ صرف مسلمانوں کے لیے مقدس ہے بلکہ اس پر ان کا حق تولیت بھی ثابت ہے۔ بیت المقدس کے فضائل و برکات کے حوالے سے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی، جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں۔‘‘(بنی اسرائیل: 1) اس آیت مبارکہ میں بیت المقدس کے گرد موجود برکتوں کا ذکر کیا گیا ہے، جو اس سرزمین کی فضیلت اور عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ترجمہ: اور ہم نے ابراہیم اور لوط کو اس زمین کی طرف نجات دی جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لیے برکت رکھی تھی۔‘‘(الانبیاء: 71) زمانہ فتن میں اسلامی قلعہ کے طور پر بیت المقدس کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ یہ اسلامی پیشواؤں اور انبیاء کرام کی قیام گاہ رہا ہے، اور فتنوں کے دور میں مسلمانوں کے لیے پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ اور سیدنا لوطؑ نے عراق سے ہجرت کر کے ارض مقدس کا رخ کیا ،اور یہی زمین ان کے لیے امن کا ذریعہ بنی۔ مجاہدین کی قیام گاہ کے طور پر بھی بیت المقدس کی حیثیت نمایاں ہے۔ رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ ہے: ’’اہل شام، ان کی اولاد اور غلام اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے ہمیشہ تیار رہیں گے۔‘‘(مجمع الزوائد) یہ حدیث بھی واضح کرتی ہے کہ یہ سرزمین ہمیشہ سے مجاہدین کا مرکز رہی ہے، اور یہاں دین کی حفاظت کے لیے جہاد کا سلسلہ جاری رہے گا۔ قبۃ الصخرہ کے مقام و مرتبہ پر بھی کتاب میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ وہ مقدس مقام ہے جہاں سے نبی اکرمﷺ نے معراج کا سفر کیا، اور بروز قیامت یہاں سے صور پھونکا جائے گا۔ مفسرین کے مطابق یہ پتھر جنت سے لایا گیا ہے، اور یہ مقام نہایت فضیلت اور تقدس کا حامل ہے۔ بیت المقدس کی تعمیر کے حوالے سے کتاب میں مختلف مذاہب کے دعووں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہود، عیسائی اور مسلمان، تینوں مذاہب اس مقام کو مقدس مانتے ہیں، لیکن قرآن و سنت کے دلائل واضح کرتے ہیں کہ بیت المقدس مسلمانوں کا ہے۔ یہاں رسول اللہﷺ نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام ہی دین حق ہے، اور بیت المقدس پر مسلمانوں کا حق تولیت مسلمہ ہے۔ آخر میں، مصنف نے آزادی بیت المقدس اور ہماری ذمہ داری پر زور دیا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو متحد ہو کر بیت المقدس کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اسلامی انقلاب کی فکر کو زندہ رکھنے اور امت مسلمہ کو متحد کرنے کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب ہر اس شخص کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے جو بیت المقدس کی تاریخ، فضیلت، اور اس کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہتا ہے۔ تبصرہ نگار: حفصہ سلطان اسیرِ ماضی مصنف: حافظ ذیشان یاسین ، صفحات:124 قیمت:1000، ناشر: پریس فار پیس پبلی کیشنز فطرت سے محبت تو بہت سے لوگ کرتے ہیں، مگر الفاظ میں فطرت کی خوشبو بسا دینا صرف چند ہی خوش نصیبوں کا کمال ہوتا ہے۔ اور "مصنف حافظ ذیشان یاسین" بھی ان چند لوگوں میں شامل ہیں جن کے دل میں فطرت اور ماضی سے گہری انسیت ہے، اور یہ انسیت ان کی تحریروں میں یوں جھلکتی ہے کہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ وہ واقعی "اسیرِ ماضی" ہیں۔ کتاب کو کھولنے پر انتباس پر نظر پڑی۔ کتاب "اسیر ماضی" کا انتساب پڑھ کر ایک گہرے درد اور نرمی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ الفاظ ماضی کی ان تلخ اور خوبصورت یادوں کی عکاسی کرتے ہیں جو وقت کے دھارے میں کہیں کھو گئی ہیں۔ انتساب میں ذکر کیے گئے عناصر جیسے کہ "سنہرا ماضی، گم شدہ بچپن، کٹتے درخت، در بدر پرندے، اداس چرواہے، گمنام قافلے" ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جو اپنی اصل خوبصورتی اور شاندار تاریخ کے باوجود زمانے کے ہاتھوں شکستہ ہو چکی ہے۔ "اسیر ماضی" محض ایک کتاب نہیں بلکہ گزرے ہوئے وقت، گمشدہ یادوں اور بچھڑ جانے والے لمحات کا ایک جذباتی سفر ہے۔ اس کے عنوانات اور انتساب ہمیں اس خوبصورتی اور دکھ کی یاد دلاتے ہیں جو وقت کے ساتھ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ حافظ ذیشان یاسین صاحب نے اپنے منفرد اسلوب میں ان موضوعات کو چنا ہے جو انسانی دل کو چھو لینے والے ہیں۔ چاہے وہ درختوں کا کٹاؤ ہو یا پرندوں کی بے گھری، چناب کے دکھ ہوں یا سلگتے سائے، یہ کتاب ہمیں یاد دلاتی ہے ۔کہ کس طرح ہمارا ماضی ہماری ذات کا حصہ ہے اور کیسے وہ ہمارے حال کو متاثر کرتا ہے۔ یہ کتاب محض پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ محسوس کرنے کے لیے ہے۔ کتاب کا اسلوب و بیان نہایت شاندار ہے، جہاں تشبیہات و استعارات کا استعمال اتنی خوبی سے کیا گیا ہے کہ ہر لفظ ایک تصویر بناتا ہے اور قاری کو گہرے احساسات میں ڈبو دیتا ہے۔ حافظ ذیشان یاسین صاحب نے "اسیر ماضی" کے ذریعے ایک اہم ادبی خدمت انجام دی ہے۔ ان کی یہ کاوش انفرادی زندگیوں کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو جوڑتے ہوئے قاری کو ایک گہری بصیرت فراہم کرتی ہے۔ مصنف کی تحریر میں ایسی سچائی اور خلوص جھلکتا ہے جو نہایت کم تحریروں میں نظر آتا ہے۔ مصنف کو اس یادگار اور دل کو چھو لینے والی کتاب کے لیے شکریہ اور خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ امید ہے کہ حافظ ذیشان یاسین مستقبل میں بھی ہمیں ایسی ہی پْر اثر اور جذبات سے بھرپور تحریریں پیش کرتے رہیں گے۔ تذکرہ مؤذنینِ رسولﷺ مصنف: مولانا عدنان ڈیروی، صفحات:176 ناشر: اسلامک رائٹرز موومنٹ پاکستان(03124098958) مولانا عدنان ڈیروی اسلامک رائیٹرز موومنٹ پاکستان کے رہنما ہے۔ آپ صوبہ خیبرپختونخوا کے صدر بھی رہے ہیں، اب بھی وہ خیبرپختونخوا کی سطح پر مختلف امور میں قیادت کرتے ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ قلم، کتاب سے آپ کا گہرا رشتہ ہے۔ مولانا عدنان ڈیروی کا اسلوبِ تحریر دلکش، شگفتہ اور سادہ ہے، جو قاری کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ ان کے الفاظ میں جذبہ، محبت اور عقیدت جھلکتی ہے۔ حال ہی میں آپ کی ایک خوبصورت کتاب ’’تذکرہ مؤذنین رسولﷺ‘‘ شائع ہو چکی ہے، انہوں نے مؤذنین کے کردار اور خدمات کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری نہ صرف ان کی عظمت کو محسوس کرتا ہے بلکہ خود بھی ان کی اتباع کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یقیناً یہ اسلامی تاریخ کی روشن روایات اور عظیم شخصیات کے تذکروں میں نہایت منفرد اور ایمان افروز اضافہ ہے۔ مولانا عدنان ڈیروی نے اپنی اس تصنیف ’’تذکرہ مؤذنینِ رسولﷺ‘‘ کے ذریعے اس اہم موضوع کو جس علمی گہرائی اور دینی محبت کے ساتھ پیش کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ایک تحقیقی شاہکار ہے بلکہ روحانیت، محبتِ رسولﷺ، اور دینی شعور کا نایاب خزینہ بھی ہے۔ تذکرہ مؤذنینِ رسولﷺ کا موضوع نہایت اہم اور قابلِ قدر ہے، کیونکہ مؤذنین کرام کی خدمات اور ان کے مقام کو عام طور پر وہ توجہ نہیں مل سکی جو انہیں ملنی چاہیے تھی۔ مولانا عدنان ڈیروی نے اس کتاب میں مؤذنینِ رسولﷺ کی زندگیوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں نہایت جامع انداز میں پیش کیا ہے۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی قربانیوں، حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی جدوجہد اور دیگر مؤذنین کی خدمات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، جس سے یہ کتاب ایک علمی، تاریخی اور روحانی سرمایہ بن جاتی ہے۔ مصنف نے ہر واقعے کو مستند تاریخی حوالوں کے ساتھ بیان کیا ہے، جو کتاب کو علمی گہرائی فراہم کرتا ہے۔ ہر باب میں قرآن و حدیث کی روشنی میں مؤذنین کے کردار کو واضح کیا گیا ہے، جبکہ مستند کتب سے لیے گئے حوالہ جات مصنف کی محنت اور تحقیق کا ثبوت ہیں۔ اس کے علاوہ، اذان کی اہمیت، اس کی روحانی تاثیر اور مؤذنین کی خدمات کا ایسا جامع تذکرہ پیش کیا گیا ہے، جو اسلامی تاریخ کے اس پہلو کو روشن کرتا ہے جو عموماً نظرانداز رہتا ہے۔ مصنف نے مؤذنینِ کرام کی خدمات کو موجودہ دور کے تناظر میں پیش کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ اذان کی روحانی اہمیت اور اس کے پیغام کو جدید دور میں عام کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب مسلمانوں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ اذان کی معنویت اور مؤذنین کے کردار کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں تاکہ دین اسلام کی حقیقی روح کو سمجھا جا سکے۔ تذکرہ مؤذنینِ رسولﷺ نہ صرف اسلامی تاریخ کا ایک انمول سرمایہ ہے بلکہ یہ ہر مسلمان کے ایمان کو تازگی بخشنے والی کتاب ہے۔ مصنف کو اس بے مثال علمی کاوش پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی محنت کو قبول فرمائے۔ یہ کتاب ہر مسلمان کے کتب خانے میں شامل ہونے کے لائق ہے اور دینی مدارس، علمی حلقوں اور محققین کے لیے ایک قیمتی حوالہ ہے۔ یہ کتاب یقیناً ان افراد کے لیے روشنی کا مینار ہے جو دین اسلام کی عظیم روایات کو سمجھنے اور مؤذنین کرام کے مقام کو جاننے کے خواہشمند ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنا ایک روحانی تجربہ ہے، جو قاری کے دل میں محبتِ رسولﷺ اور مؤذنینِ کرام کے لیے عقیدت کو بڑھاتا ہے۔ (تبصرہ نگار: حافظ بلال بشیر)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل