Loading
غزل غم کا اظہار سرِ عام کروں یا نہ کروں سوچتا ہوں کہ میں یہ کام کروں یا نہ کروں کوئی اُمّید، نہ آواز، نہ منزل کا سراغ اور ہمّت ابھی دو گام کروں یا نہ کروں زندگی! تو نے بہت درد دیے ہیں مجھ کو تجھ سے میں شکوۂ آلام کروں یا نہ کروں یہ جو سازش مرے احباب کی ہے میرے خلاف اس کو تدبیر سے ناکام کروں یا نہ کروں دے دیا جس نے ابھی کفر کا فتویٰ مجھ پر میں اُسے واقفِ اسلام کروں یا نہ کروں پھر ترے کوچے میں آجاؤں سوالی بن کر پھر سے اِک آرزوئے خام کروں یا نہ کروں دکھ بھرے لفظوں سے پُر ہے یہ کتابِ ہستی اِس کو منسوب ترے نام کروں یا نہ کروں دور منزل ہے بہت، وقت ہے کم، جسم نڈھال دو گھڑی چھاؤں میں آرام کروں یا نہ کروں خوار پھرنا ہی تو قسمت میں لکھا ہے صادقؔ شکوۂ گردشِ ایّام کروں یا نہ کروں؟ (محمد ولی صادق۔ کوہستان، خیبر پختون خوا) غزل یہیں پہ کر لے ستاروں پہ گفتگو میرے ساتھ کہاں کہاں پہ بھٹکتا پھرے گا تو میرے ساتھ گزر رہا ہوں کسی تنگ و تار گھاٹی سے اور اک ہجوم روانہ ہے با وضو میرے ساتھ ہے ایسا شہرِ تخیل مرے تصرف میں جہاں پہ میں ہوں فقط میں ہوں اور تو میرے ساتھ ہے آئینے میں کوئی ہو بہو مرے جیسا جو تیرے لہجے میں کرتا ہے گفتگو میرے ساتھ مجھے سنہری جزیروں کا ہے سفر درپیش اور اس پہ تیری کمی بھی ہے چار سو میرے ساتھ پھر ایک روز چمکنے لگے گا میرا وجود اگر وہ یونہی رہے گا ستارہ رو میرے ساتھ (ذی شان مرتضے۔ پہاڑ پور) غزل جسم بنتے ہوئے اعصاب نہیں تھے لیکن تب مرے پاس کوئی خواب نہیں تھے لیکن میں جو بے وقت تجھے چوم لیا کرتا تھا مانتا ہوں مجھے آداب نہیں تھے لیکن میں اسی بنچ پہ بیٹھا تھا کئی سال کے بعد اب وہاں پر مرے احباب نہیں تھے لیکن بے خیالی میں اسی سمت نظر جاتی تھی دیدہ و دل مرے بیتاب نہیں تھے لیکن روز اک شخص یہاں رات کو گریہ کرتا میری بستی میں یہ تالاب نہیں تھے لیکن جیسے منظر سے کوئی شخص ابھی گزرا ہو میرے رستے میں یہ گرداب نہیں تھے لیکن (حسن فاروق۔ راولپنڈی) غزل مداروں کا یہ کارخانہ فہد جی مشینیں ہیں کُن کا ترانہ فہد جی جو جنگل میں سب سے پرانا شجر ہے وہی ہے مرا آستانہ فہد جی مسافر نے گٹھڑی پہ لکھا ہوا ہے نہیں ہے غمِ آشیانہ فہد جی بچھونا قلندر کا ساری زمیں ہے ہے سارا فلک شامیانہ فہد جی خلیفہ زمیں کا بنایا گیا تھا تبھی کھایا آدم نے دانہ فہد جی لپیٹے گا چادر وہ شمس و قمر کی رہیں گے نہ روز و شبانہ فہد جی مرے سر پہ رکھا ہوا سیب بولا اگر چُوک جائے نشانہ فہد جی؟ جسے آپ نے اسمِ دل سے پکارا حقیقت میں ہے دردخانہ فہد ؔجی (سردارفہد۔ ایبٹ آباد) غزل جونہی پُرجوش پنچھی کی اڑانیں ٹوٹ جاتی ہیں اُسی لمحے ہماری بھی کمانیں ٹوٹ جاتی ہیں بڑے لوگوں کی باتیں ہیں انہیں بیٹا نہیں بدلو نئے لہجے ملانے سے زبانیں ٹوٹ جاتی ہیں ترا نقصان واجب ہے کہ ان کا کچھ نہ جائے گا وہ آنکھیں سامنے ہوں تو کمانیں ٹوٹ جاتی ہیں دسمبر میں محبت پر عزاداری کرو یارو کہ رو لینے سے نفرت کی چٹانیں ٹوٹ جاتی ہیں میں جب محسوس کرتا ہوں بلال حبشی کی لکنت کو تو اِس بے کار بندے کی اذانیں ٹوٹ جاتی ہیں عیادت کرنے والوں نے طبیبِ دل کو سمجھایا مریضوں سے نہ گھبراؤ دکانیں ٹوٹ جاتی ہیں تمھارے گھر میں ہادیؔ کا کوئی تو نام لیتا ہے رواں ہوتی جو سانسوں کی اٹھانیں ٹوٹ جاتی ہیں (بلال ہادی۔ چکوال) غزل جس کو ہے سمجھ دوستو نمکین غزل کی دیتا نہیں ہے داد وہ سنگین غزل کی معراج غزل ہے کہ ہے معراج محبت دل جس کو دیا نکلی وہ شوقین غزل کی جدت کی کتابوں میں روایت کے رکھے پھول ہم سے نہیں ہو گی کبھی توہین غزل کی کر دیتے ہیں ہم داد سخن اس کے حوالے ہوتی ہے پذیرائی جو رنگین غزل کی نشہ نہیں اترے گا کبھی سر سے ہمارے کچھ ایسے چکھی ہم نے ہے کوکین غزل کی سب اس کی کنیزیں ہیں اسی نقش قدم پر شہزادی ہے بس ایک ہی پروین غزل کی تک بند تو کچھ ٹھیک ہیں لیکن متشاعر کر دیں گے کسی روز یہ تدفین غزل کی (محمد کلیم شاداب۔ آکوٹ، ضلع آکولہ، مہاراشٹر، انڈیا) غزل منظروں سے عاری آنکھوں سے سوا رہ جائے گا اک خلا پر ہو بھی جائے، اک خلا رہ جائے گا ماہتاب و شمس کو مطلوب ہے تیری جھلک یہ سوالی بھی ترے در پر کھڑا رہ جائے گا! تب یہ دنیا بھی نہیں تھی اور خدا موجود تھا جب یہ دنیا بھی نہ ہوگی اور خدا رہ جائے گا رائگاں ہونے کا بھی احساس اگر جاتا رہا اس بھری دنیا میں آخر میرا کیا رہ جائے گا کان سننے کی جسارت ہی نہیں کر پائیں گے دیکھنے والا مسلسل دیکھتا رہ جائے گا تیرگی یوں تو نگل سکتی ہے سورج بھی مگر وہ دیا جو تیرے طاقوں میں دھرا رہ جائے گا دل کی کشتی آ گئی گرداب وحشت میں اسیرؔ اب خدا رہ جائے گا یا ناخدا رہ جائے گا (اسیر ہاتف۔ سرگودھا) غزل دن اگر محنت میں گزرا، رات سونا چاہیے سچ کہا، تھوڑا بہت آرام ہونا چاہیے آنسوؤں سے تر ہوئی جاتی ہیں آنکھیں اس لیے آپ سے لپٹے ہوئے آنچل کا کونا چاہیے مدتیں، مانا کہ ہونٹوں پر رہی مسکان سی یادِ جاناں سے ابھی پلکیں بھگونا چاہیے جو بھی تھے، سب تشنۂ تعبیر ہو کر رہ گئے اب تو خوابوں سے گلے مل مل کے رونا چاہیے دل کسی کا جس قدر گزرے کٹھن ادوار سے بس تمہیں تو کھیلنے کو اک کھلونا چاہیے اتنے عرصے میں مری آہیں رہیں کیوں بے اثر درد بن کر دوست کے دل میں سمونا چاہیے اس نے میرے نام کا سِکّہ اچھالا ہے رشیدؔ اک کشیدہ قد کو، حیرت ہے کہ بونا چاہیے (رشید حسرتؔ۔ کوئٹہ) غزل چھوڑ اوروں کو کہ نفرت کی حدیں پار کریں آؤ ہم مل کے محبت کی حدیں پار کریں مال دنیا کا نہیں ہاتھ میں آنے والا ہیں وہ دانا جو سخاوت کی حدیں پار کریں چند لمحوں کی ہیں سانسیں تو چلیں یوں ہی سہی ایک دوجے سے رفاقت کی حدیں پار کریں ایسے قانون پہ چلنا ہے حماقت یارو! کیوں نہ سب اٹھ کے بغاوت کی حدیں پار کریں ہم ترقّی میں تو جدّت کا سہارا لے لیں بس تمدّن میں قدامت کی حدیں پار کریں کام آجائیں غریبوں کے مصائب میں ہم ایسے بن جائیں کہ خدمت کی حدیں پار کریں ہم پہ لازم ہے تو پھر صبر گوارا نہ کریں چل کہ مٹّی کی حفاظت کی حدیں پار کریں (محبوب الرّحمان۔ سینے، میاندم، سوات) غزل ملا جو وقت تو مِلتے رہیں گے وگرنہ ہاتھ ہی مَلتے رہیں گے کہ طوفاں بھی گرا پائے نہ جس کو ہم ایسی شاخ پہ کھلتے رہیں گے تمہارے ساتھ تو بنتی ہے اپنی تمہارے ساتھ تو ملتے رہیں گے ہمارے رنگ میں ڈھلتے رہو تم تمہارے رنگ میں ڈھلتے رہیں گے مجھے تب تک سرور آتا رہے گا کہ جب تک عشق میں جلتے رہیں گے یہ بستی بے وفاؤں کی ہے ارسل یہاں ہم کب تلک رلتے رہیں گے (ارسلان شیر۔ کابل ریور، نوشہرہ) غزل مری وفا کے بدل میں مجھ کو یہاں وہ دے کر سزا گیا ہے مگر یقیں بھی مرا وہ کامل یہاں پہ جاتے بنا گیا ہے یہ ہجر ہے لاعلاج اور ہم پڑے اداسی میں کیا کریں اب کہ پیار کا مان توڑ کے وہ تو ایک عبرت سکھا گیا ہے میں نے تو روکا تھا اس کو لیکن نہ جانے اس کو ہوا کیا آخر وہ جاتے جاتے چراغ خانہ سبھی ہمارے بجھا گیا ہے چمن جلا تو یہ آگ، شعلے بھڑک اٹھے تھے یوں ناگہانی وہ جانِ جاناں کہ جاتے جاتے یہ زخم کیسا لگا گیا ہے اکیلے پن کا علاج ہے کیا یہاں پہ جینا کڑا ہے قاصر خیالِ ہجراں بنا قیامت کہ ہم کو کیسے بھلا گیا ہے (قاصر ایاز میمن۔ تھرپارکر) غزل گرچہ تم روح میں نہاں بھی ہو پر مرے زخم سے عیاں بھی ہو جس طرح ہے یہاں وہاں بھی ہو میری جنت میں میری ماں بھی ہو اے خدا اس قدر وہ میرا ہو وہ میرا لفظ ہو بیاں بھی ہو ہم نہیں مانتے کسی صورت ظلم جس پر بھی ہو جہاں بھی ہو اس سے بڑھ کر مجھے ستائے وہ اس سے بڑھ کر جو مہرباں بھی ہو (عاطف خان۔ ڈھکی خورہ آباد، ضلع چارسدہ) سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘ روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل