Loading
’’یہ دنیا محض ایک عکس ہے اور اصل حقیقت نظر آنے والی چیزوں کے پس پردہ موجود ہے‘‘، یہ قول فلسفی ’’پلوٹینس‘‘ (Plotinus) سے منسوب ہے، جو نوافلاطونی فلسفے کے بانی تھے۔ اپنے نظریہ مثالیت میں ان کا ماننا ہے کہ اصل حقیقت مادی دنیا سے ماورا ہے اور آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتی، ان کے خیال میں حقیقی وجود ’’واحد‘‘ ہے، جو تمام کائنات کا منبع ہے۔ ڈارک اسٹارز فلکیات میں ایک نظریاتی تصور ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کائنات کی ابتدائی عمر میں وجود رکھتے تھے۔ یہ روایتی ستاروں سے مختلف ہیں، جو اپنی توانائی ہائیڈروجن کے ایٹمی فیوژن سے حاصل کرتے ہیں۔ ڈارک اسٹارز کی توانائی کا ذریعہ ڈارک میٹر کی خودکار تباہی ہے۔ تاریخ میں پہلی بار ڈارک اسٹارز کی دریافت؟ فلکی طبیعیات داں طویل عرصے سے ڈارک اسٹارز کے امکان پر غور کر رہے ہیں۔ یہ عظیم فلکیاتی اجسام ایٹمی فیوژن کے بجائے ڈارک میٹر کی پراسرار توانائی پر منحصر ہوتے ہیں۔ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ (JWST) کی تصاویر کے ذریعے، سائنسی دنیا کو شاید پہلی بار ان پراسرار اجسام کے آثار ملے ہیں۔ کیا یہ ڈارک اسٹارز، جو ہمارے سورج سے اربوں گنا زیادہ روشن ہیں، کائنات کی ابتدا کی کہانی کو دوبارہ لکھ سکتے ہیں؟ کائناتی ابتدا کے راز: ڈارک اسٹارز ڈارک اسٹارز، باوجود ڈارک لفظ کے، روشنی دینے والے اجسام مانے جاتے ہیں جو کائنات کی ابتدائی عمر میں موجود ہو سکتے ہیں۔ روایتی ستاروں کے برعکس، جو ایٹمی فیوژن پر انحصار کرتے ہیں، ڈارک اسٹارز کی توانائی ڈارک میٹر کے ذرات کی خودساختہ تباہی سے حاصل کی جاتی ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں توانائی خارج ہوتی ہے جو ہائیڈروجن اور ہیلیئم کو گرم کرتی ہے، جس سے ابتدائی گیس کے بادل روشن ہوجاتے ہیں اور بڑی حد تک پھیلتے ہیں کچھ کا وزن سورج سے دس لاکھ گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔ یہ ستارے ’’منی ہیلو‘‘ کہلانے والے ڈارک میٹر کے گھنے جیبوں میں پیدا ہوئے ہوں گے۔ ان ماحولوں میں موجود ڈارک میٹر کی مقدار نے ڈارک اسٹارز کو مسلسل بڑھنے دیا، جس سے ان کا حجم وقت کے ساتھ بڑھتا گیا۔ ان فلکیاتی اجسام کی منفرد خصوصیات، جیسے ان کا نسبتاً کم درجۂ حرارت اور غیرمعمولی روشنی، انہیں تحقیق کے دل چسپ موضوعات بناتی ہیں۔ تاہم، ان کی موجودگی کا قطعی ثبوت JWST کے منظرعام پر آنے سے پہلے نامعلوم تھا۔ کائنات کے نظریات میں ممکنہ انقلاب ڈارک اسٹارز کی موجودگی نہ صرف ستاروں کی نئی قسم کی تصدیق کرے گی، بلکہ ہمارے ڈارک میٹر کے تصور کو بھی بدل دے گی، جو کائنات کے 85% مادے پر مشتمل ہے۔ ڈارک میٹر کو براہ راست دیکھنا ممکن نہیں کیوںکہ یہ روشنی کو نہ خارج کرتا ہے، نہ جذب، نہ ہی منعکس۔ لیکن اگر ڈارک اسٹارز ڈارک میٹر کی تباہی سے توانائی حاصل کرتے ہیں، تو یہ مواد کے اس پراسرار پہلو پر نئی روشنی ڈال سکتے ہیں۔ ڈارک اسٹارز کا مطالعہ ابتدائی کائنات میں موجود عظیم سیاہ شگافوں کے راز کو بھی حل کر سکتا ہے۔ موجودہ نظریاتی ماڈلز وضاحت نہیں کرسکتے کہ یہ بڑے اجسام بگ بینگ کے فوراً بعد اتنی جلدی کیسے وجود میں آگئے۔ تاہم، اگر ڈارک اسٹارز اپنی عمر کے اختتام پر سیاہ شگافوں میں تبدیل ہوگئے ہوں، تو یہ قدیم دیوہیکل اجسام کے وجود کی وضاحت کرسکتے ہیں۔ ڈارک اسٹارز کی موجودگی کائنات کے آغاز کو سمجھنے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ مزید مشاہدات اور تجزیات ان کے وجود کی تصدیق کے لیے ضروری ہیں، لیکن اس کے اثرات بہت گہرے ہوسکتے ہیں۔ ڈارک میٹر اور تاریک توانائی کیا ہیں؟ کائنات کے رازوں میں سے دو سب سے بڑے معمے ڈارک میٹر اور تاریک توانائی ہیں۔ یہ دونوں ہمارے مشاہدے میں تو نہیں آتے، لیکن ان کے اثرات ہم دیکھ سکتے ہیں۔ ڈارک میٹر کیا ہے؟ ڈارک میٹر ایک پراسرار قسم کا مادہ ہے جو نہ روشنی جذب کرتا ہے، نہ منعکس کرتا ہے اور نہ ہی کسی طرح کی برقی مقناطیسی شعاعوں کے ساتھ تعامل کرتا ہے۔ اس لیے ہم اسے براہِ راست نہیں دیکھ سکتے، لیکن اس کی موجودگی کو کشش ثقل کے اثرات سے جانچ سکتے ہیں۔ ڈارک میٹر کیوں ضروری ہے؟ کہکشاؤں کی حرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں موجود نظر آنے والے ستارے اور گیسز اتنے بھاری نہیں کہ کشش ثقل کے ذریعے کہکشاؤں کو ایک ساتھ باندھ سکیں۔ کچھ اور بھی ہے جو اضافی کشش ثقل فراہم کر رہا ہے، اور یہی ’’ڈارک میٹر‘‘ ہے۔ اگر ڈارک میٹر نہ ہو تو کہکشائیں اپنی جگہ پر نہ رہیں بلکہ بکھر جائیں۔ بعض سائنس دانوں کے مطابق، ڈارک میٹر پوری کائنات کے مادے کا تقریباً 27 فی صد ہے، جب کہ عام نظر آنے والا مادہ صرف 5 فی صد ہے۔ تاریک توانائی کیا ہے؟ تاریک توانائی ایک ایسی نامعلوم قوت ہے جو کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار کو بڑھا رہی ہے۔ یہ کائنات کی سب سے بڑی اور پراسرار طاقت مانی جاتی ہے۔ تاریک توانائی کیوں ضروری ہے؟ 1998 میں سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ کائنات کا پھیلاؤ کم ہونے کے بجائے تیز ہورہا ہے۔ نیوٹن کی کشش ثقل کے اصولوں کے مطابق، مادہ ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتا ہے، تو کائنات کا پھیلاؤ آہستہ ہونا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی نادیدہ قوت کہکشاؤں کو مزید دور دھکیل رہی ہے، اور یہی ’’تاریک توانائی‘‘ ہے۔ یہ کائنات کے کل توانائی کے تقریباً 68 فی صد پر مشتمل ہے۔ ڈارک میٹر کی موجودگی کے شواہد کہکشاؤں کی گردش: کہکشاؤں کے کنارے پر موجود ستارے توقع سے زیادہ تیزی سے حرکت کر رہے ہیں، جو ڈارک میٹر کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کشش ثقل کی عدسیت: روشنی کا راستہ مڑ جاتا ہے جب وہ کسی بڑے ماس کے قریب سے گزرتی ہے، اور سائنس دانوں نے ایسی جگہوں پر روشنی کے جھکنے کا مشاہدہ کیا ہے جہاں عام مادہ کم نظر آتا ہے، جو ڈارک میٹر کی نشاندہی کرتا ہے۔ کائناتی مائیکروویو پس منظر: بگ بینگ کے بعد بچی ہوئی روشنی میں جو چھوٹے جھٹکے (Fluctuations) نظر آتے ہیں، وہ ڈارک میٹر کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہیں۔ 1۔ تاریک توانائی کی دریافت کیسے ہوئی؟ 1998 میں دو مختلف ٹیموں نے دریافت کیا کہ کہکشائیں ایک دوسرے سے تیزی سے دور جا رہی ہیں، اور یہ رفتار وقت کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ پہلے سائنس دانوں کا خیال تھا کہ بگ بینگ کے بعد کائنات کا پھیلاؤ سست ہوجائے گا، لیکن حیران کن طور پر یہ الٹا تیز ہورہا تھا! اس کے بعدsupernova observation اور دیگر تجربات سے معلوم ہوا کہ کوئی نامعلوم قوت خلا میں موجود ہے جو کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دھکیل رہی ہے، اور اسی کو ’’تاریک توانائی کہا جاتا ہے۔ 2۔ تاریک توانائی کے شواہد ٹائپ la سپرنووا (Supernovae) کی روشنی کا تجزیہ بتاتا ہے کہ کائنات کے پھیلاؤ میں تیزی آرہی ہے۔ کائناتی مائیکروویو پس منظر (سی ایم بی) کی فریکوئنسی: بگ بینگ کے بعد بچی ہوئی روشنی میں کچھ خاص نمونے تاریک توانائی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بڑی ساختیں: کہکشاؤں کے جھرمٹوں کی ترتیب میں جو فرق نظر آتا ہے، وہ تاریک توانائی کے اثر کو ظاہر کرتا ہے۔ 3۔ تاریک توانائی کے ممکنہ نظریات کائناتی مستقل: آئن اسٹائن نے ایک دفعہ خلا میں ایک مستقل توانائی کی پیش گوئی کی تھی، جو آج تاریک توانائی کی وضاحت کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ کوانٹم ویکیوم فلیوکچویشنز: خلا میں توانائی کی چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہو رہی ہوتی ہیں جو کائنات کے پھیلاؤ کو بڑھا سکتی ہیں۔ بدلتی ہوئی کشش ثقل: کچھ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ آئن اسٹائن کا عمومی نظریہ اضافیت مکمل نہیں، اور شاید کشش ثقل کے اصولوں میں کوئی نامعلوم تبدیلی آرہی ہے۔ ہمیں ایک نیا نظریہ تلاش کرنا ہوگا جو کشش ثقل اور کائنات کی توسیع کو ایک ساتھ بیان کر سکے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ جو کچھ ہم روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں (ستارے، سیارے، کہکشائیں، وغیرہ)، وہ کائنات کا صرف 5% ہے! باقی سب کچھ ابھی تک ایک راز ہے۔ اگر ڈارک میٹر اور تاریک توانائی کا مکمل راز کھل جائے، تو یہ جدید طبیعات میں ایک انقلابی دریافت ہوگی۔ یہ نہ صرف کائنات کے پھیلاؤ اور ارتقاء کو سمجھنے میں مدد دے گا، بلکہ ہمیں نئی طبیعات کے اصولوں کی طرف بھی لے جا سکتا ہے جو آئن سٹائن اور نیوٹن کے قوانین سے بھی آگے ہوں گے! کائنات کی اصل ترکیب کو سمجھنا جدید طبیعات کا سب سے بڑا چیلینج ہے۔ ہم جتنا کائنات کو دیکھتے اور جاننے کی کوشش کرتے ہیں، اتنا ہی زیادہ ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ جو کچھ ہم دیکھ سکتے ہیں، وہ بہت کم ہے، اور جو کچھ نظر نہیں آتا، وہی حقیقت میں زیادہ اہم ہے! کیا ہم نے کبھی ڈارک میٹر کو براہ راست دیکھا؟ ابھی تک نہیں! لیکن ہم نے اس کے اثرات دیکھے ہیں: کہکشاؤں کی تیز گردش کشش ثقل کی عدسیت کائناتی مائیکروویو پس منظر میں جھٹکے کیا ڈارک میٹر کو لیبارٹری میں بنایا جا سکتا ہے؟ سائنس داں Large Hadron Solderer) میں ہائی انرجی تصادم کروا کر نئے ذرات بنانے کی کوشش کررہے ہیں، تاکہ ممکنہ ڈارک میٹر ذرات دریافت کیے جا سکیں۔ کیا ڈارک میٹر اور تاریک توانائی ایک ہی چیز ہوسکتے ہیں؟ یہ ایک دل چسپ سوال ہے! کچھ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ شاید یہ دونوں ایک ہی کائناتی مظہر کے مختلف پہلو ہیں، اور شاید کوئی نئی طبیعات ہمیں ان کو جوڑنے میں مدد دے گی۔ کیا ہمیں کبھی ان سوالات کے جوابات ملیں گے؟ ہاں، بالکل! سائنسی مشن اس پراسرار راز کو کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مستقبل میں Quantum Gravity اور Theory String جیسے نظریات شاید ہمیں ایک نئی فزکس تک لے جائیں جو ڈارک میٹر اور تاریک توانائی کا مکمل راز کھول سکے! ڈارک میٹر اور تاریک توانائی ، یہ دونوں کائنات کا 95% حصہ بناتے ہیں، جسے ہم ابھی تک انہیں براہ راست نہیں دیکھ سکے۔ تاہم مستقبل کی تحقیقات ہمیں نئی طبیعات کی طرف لے جا سکتی ہیں کائنات کے یہ راز ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم ابھی تک کائنات کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں، اور سائنسی ترقی کی نئی راہیں کھلنے والی ہیں! کائنات کے یہ دو پراسرار اجزاء تاحال ہماری سمجھ سے باہر ہیں، لیکن جدید طبیعات میں ان کی کھوج سب سے زیادہ دل چسپ اور سنسنی خیز ہے۔ آئیے مزید تفصیل میں جائیں اور جاننے کی کوشش کریں کہ سائنس داں ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں، اور ہمیں مستقبل میں کیا امید رکھنی چاہیے۔ کہکشاؤں کی حرکت اور ڈارک میٹر: کہکشائیں اور ان میں موجود ستارے بہت تیزی سے حرکت کر رہے ہیں، نیوٹن کے کشش ثقل کے قوانین کے مطابق، اتنی تیزرفتار پر انہیں بکھر جانا چاہیے تھا، لیکن وہ بکھرتے نہیں ہیں! وجہ: ایک ’’پوشیدہ کشش ثقل‘‘ انہیں جوڑے رکھتی ہے۔ یہی کشش ثقل ڈارک میٹر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ کشش ثقل کی عدسیت اور ڈارک میٹر جب روشنی کسی بڑے کہکشانی جھرمٹ کے پاس سے گزرتی ہے، تو وہ جھکتی ہے، جیسے ایک شفاف عدسے میں سے گزر رہی ہو۔ کبھی کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ روشنی زیادہ جھک رہی ہے، جیسے کہ وہاں بہت زیادہ مادہ موجود ہو، لیکن ہمیں وہ نظر نہیں آتا۔ یہی اثر ڈارک میٹر کی موجودگی کو ثابت کرتا ہے۔ سائنس داں کئی تجربات کے ذریعے ڈارک میٹر کو براہ راست دریافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا ڈارک میٹر کا وزن ہوتا ہے؟ سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ ڈارک میٹر کے ذرات کا وزن ایک پروٹون کے وزن سے 100 گنا زیادہ ہو سکتا ہے، لیکن وہ اتنا کم زور تعامل کرتے ہیں کہ ہم انہیں ابھی تک دریافت نہیں کر سکے۔ اگر ڈارک میٹر نہ ہوتا تو کہکشائیں شاید وجود میں نہ آتیں۔ بگ بینگ کے بعد ابتدائی کائنات میں ڈارک میٹر نے اپنی کشش ثقل کے ذریعے عام مادے کو اکٹھا کیا، جس سے ستارے اور کہکشائیں بنیں۔ بگ بینگ کے بعد کشش ثقل کی وجہ سے توقع تھی کہ کائنات کی توسیع آہستہ ہوجائے گی، لیکن سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ کائنات کی توسیع تیز ہورہی ہے! یہ دریافت ہمیں تاریک توانائی کی طرف لے کر گئی، جو خلا میں کسی نامعلوم قوت کے طور پر کام کر رہی ہے۔ تاریک توانائی کی مقدار کتنی ہے؟ کائنات کی توانائی کی تقسیم کچھ یوں ہے: 5% عام مادہ (جو ہم دیکھ سکتے ہیں)، 27% ڈارک میٹر، 68% تاریک توانائی۔ کچھ نظریات کے مطابق اگر تاریک توانائی کا اثر وقت کے ساتھ بڑھتا گیا تو یہ ممکنہ طور پر big rip کا سبب بن سکتی ہے گویا ’’قیامت‘‘ ! سب سے پہلے کہکشائیں ایک دوسرے سے الگ ہوں گی۔ پھر ستارے اور سیارے منتشر ہوجائیں گے۔ آخر میں ایٹمز بھی الگ ہوجائیں گے اور کائنات مکمل طور پر ختم ہوجائے گی، یہ نظریہ بہت خوف ناک لگتا ہے، لیکن اس بھیانک امکان سے انکار ممکن نہیں۔ کیا ڈارک میٹر اور تاریک توانائی آپس میں جُڑے ہوئے ہیں؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے! کچھ نظریات میں کہا گیا ہے کہ: شاید ڈارک میٹر خود تاریک توانائی کے ساتھ تعامل کرتا ہے۔ کچھ سائنس دانوں نے ’’چمکتا ہوا ڈارک میٹر‘‘ کا نظریہ پیش کیا ہے، جو کائنات کے پھیلاؤ پر اثر ڈال سکتا ہے۔ مستقبل کی تحقیقات اور امیدیں سائنس داں ان پراسرار قوتوں کے بارے میں مزید جاننے کے لیے کئی تجربات کر رہے ہیں: James Webb Space Telescope (JWST: یہ فلکیات دانوں کو کائنات کے ابتدائی مراحل میں جھانکنے کی اجازت دے گا۔ Euclid Mission (ESA): یہ کہکشاؤں کی تقسیم اور کائنات کے پھیلاؤ کی تفصیل سے تحقیق کرے گا۔ Vera C. Rubin Observatory یہ زمین پر ایک جدید ترین رصدگاہ ہوگی جو ڈارک میٹر اور تاریک توانائی پر نئی روشنی ڈالے گی۔ قوی امید ہے کہ مستقبل میں ہونے والی سائنسی تحقیقات ہمیں ایک بالکل نیا نظریہ فراہم کریں جو کائنات کے سب سے بڑے رازوں کو کھولنے میں مدد دے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل