Monday, March 10, 2025
 

نریندر مودی کا دورئہ امریکہ اور بھارتی تارکین وطن کا انخلاء

 



13 فروری کو بھارت کے وزیر اعظم نے امریکہ کا دورہ کیا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ مودی ملاقات کے بعد دونوں لیڈروں نے مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی جس پر اب تک بھارت اور پاکستا ن میں تجزیے جاری ہیں ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات سے پہلے اپنی پالیسی کے جو نکات امریکی ووٹرز کے سامنے رکھے تھے اُن میں ایک اہم نکتہ امریکہ سے ایک کروڑ سے زیادہ غیر قانونی تارکین وطن کو اُن کے ملکوں میں واپس بھیجنے کا وعدہ تھا اور 20 جنوری 2025 ء کو صدر نے اپنی حلف برداری کے بعد نہایت جارحانہ انداز سے اپنے ایگزیکٹو آڈر زیر دستخط کر د ئیے ۔ یوں فوری طور پر امریکہ میں غیرقانونی طور پر رہائش پذیر تارکین وطن کے خلاف کاروائیں شروع ہو گئیں ۔ وائس آف امریکہ 28 جنوری 2025 ء کی رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کے امیگریشن پر ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرنے کے بعد یو ایس امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ نے صرف اتوار 25 جنوری کو تقریباً ایک ہزار افراد کو گرفتار کے ملک بدر کر دیا ۔ اطلاعات کے مطابق شروع میں جرائم میں ملوث غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے اِن کو ملک بدر کیا جا ئے گا ، صدر کے آڈر کے ایک ہفتے کے اندر میکسیکو میں 4 ہزار تارکین وطن واپس پہنچے تھے۔  بی بی سی اور کچھ دیگر رپورٹوں کے مطابق امریکہ میں کل تارکین ِ وطن کی تعداد 4 کروڑ 80 لاکھ تک ہے جو امریکہ کی کل آبادی تقریباً 14.3 فیصد ہیں مگر امریکہ کی افرادی قوت کا یہ تقریباً 19 فیصد ہیں جب کہ اِن 4 کروڑ 80 لاکھ تارکین وطن میں سے 1 کروڑ 60 لاکھ کا تعلق میکسیکو سے دوسرے نمبر پر بھارت جن کے تارکینِ وطن کی تعداد 28 لاکھ سے زیادہ ہے اور تیسرے نمبر پر چین ہے جن کے تارکین وطن کی تعداد 25 لاکھ کے قریب ہے ، یوں امریکہ دنیا کا وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ تعداد میں تارکین ِ وطن موجود ہیں ، خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پورے امریکہ میں غیرقانونی طور پر رہنے والے تارکین وطن کی کل تعداد 1 کروڑ 17 لاکھ ہے۔  اب جہاں تک تعلق امریکیوں کی رائے کا غیرقانونی طور پر امریکہ میں رہائش رکھنے والے تارکین ِ وطن کے بارے میں ہے تو امریکہ کے ایک تحقیقی ادارے نارک سینٹر فار پبلک افیئرز کے دسمبر 2024 ء میں ہونے والے ایک جائزے کے مطابق تقریباً نصف امریکی بالغوں نے ایک سوال کے جواب میں امیگزیشن اور سرحدی امور کو حکومت کے لیے اہم ترجیحات قرار دیا تھا ۔ امریکہ کا رقبہ تقربیاً 9833520 مربع کلومیٹر فی کس سالانہ فی کس آمدنی 86601 ڈالر جی ڈی پی 29.168 ٹریلین ڈالر امریکہ کی آبادی 2023 ء کے مطابق 33 کروڑ 39 لاکھ تھی جو دنیا کی کل آبادی کا 4.22 فیصد ہے ۔ آبادی کی گنجانیت 38 افراد فی کلومیٹر ہے ۔ سالانہ تبدیلی یا اضافہ 0.54 فیصد تعداد 1849236 ہے ۔ اس میں سالانہ تارکین وطن 1230663 اوسطاً 38.5 شرح پیدائش 1.62 فیصد ، شہری آبادی 82.8 فیصد ، کل شہری آبادی 28 کروڑ 74 لاکھ تھی ۔ 70 سال پہلے 1955 ء میںامریکہ کی کل آبادی 16 کروڑ 62 لاکھ تھی ، کل تارکین وطن کی تعداد 18234 تھی اوسطاً عمر 29.0 سال شرح پیدائش 3.52 فیصد سالانہ اضافہ تقریباً 24 لاکھ تھا ۔ شہری 69.4 فیصد اور کل شہری آبادی 115375863 تھی ۔ 2023 ء کے مطابق امریکہ میں سالانہ پیدائش 10.7 فی ہزار اور اموات 9.23 فی ہزار سالانہ ہے ۔ آبادی میں سالانہ اضافہ 0.98 فیصد ہے ۔ بلحاظ عمر کے گروپ 18 سال سے کم عمر افراد کا تناسب 21.7 فیصد، 18 تا 44 سال 36 فیصد، 45 تا 64 سال24.6 فیصد اور 65 سال سے زیادہ عمر افراد کا تناسب 17.7 فیصد ہے۔ بلحاظ زبان آبادی میں سے 78.5 فیصد افراد کی زبان انگریز ی ہے ۔ 13.2 فیصد اسپینش Spanish بولتے ہیں ، 3.3 ایشیائی ہیں اور 3.7 دیگر زبانیں بولتے ہیں ، امریکہ کی آبادی کا جائزہ اگر رنگ و نسل لیا جائے تو 2010 ء میں سفید فام نسل کا تناسب 63.75 تھا اور کل تعداد 196817552 تھی، 2020 ء میں سفید فام آبادی کا تناسب کم ہو کر 57.84 فیصد ہو گیا ، کل سفید فام آبادی گھٹ کر 191697647 ہو گئی، سیاہ فام جن کو اب کلرڈ پیپلز کہا جاتا ہے ، یہ امریکہ میں افریقی امریکی بھی کہلاتے ہیں، یہ سفید فام کے ساتھ ہی بحیثیت غلام امریکہ کی تعمیر کے لیے لائے گئے تھے، 2010 ء میں اِن کا تناسب 12.21 فیصد تھا اور کل تعداد 37685848 تھی، 2020 ء میں امریکی افریقی آبادی کا تناسب کم ہو کر 12.06% ہو گیا اور کل تعداد میں معمولی سا اضافہ ہوا یعنی 39940338 ہو گئی۔  بلحاظ مذہب امریکہ کی آبادی کی تقسیم یوں ہے، پرو ٹیسٹنٹ عیسائی 41 فیصد کیتھولک عیسائی 18 فیصد دیگر عیسائی 2 فیصد لادین یا مذہب سے تعلق ظاہر نہ کر نے والے تقریباً 31 فیصد ہیں، یہودی 2 فیصد مسلمان ، ہندو ، بدھ ایک ، ایک فیصد اور دیگر 2 فیصد ہیں ، واضح رہے کہ پاکستان میں پہلی مردم شماری 1951 ء میں ہوئی تھی ، جب پاکستان میں سٹیزن ایکٹ نافذ العمل ہوا تھا، اُس وقت آج کے پاکستانی علاقے سے 45 لاکھ سکھ اور ہندو بھارت گئے اس کے مقابلے میں بھارت سے 65 لاکھ مسلمان مہاجرین اُ س وقت کے مغربی پاکستان اور آج کے پاکستان آئے تھے ۔ ہماری کل آبادی3 کروڑ 40 لاکھ تھی ۔  اِس وقت امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی کل تعداد 4 لاکھ ہے جن میں پاکستانی غیرقانونی تارکین وطن کی تعداد تقریباً آٹھ ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے اندیشہ کہ اِن میں سے 4 ہزار غیرقانونی پاکستانی تارکین وطن کو چند دنوں میں پاکستان واپس بھیج دیا جائے ۔ دوسری جانب پہلے نمبر پر ایک کروڑ 60 لاکھ کا تعلق میکسیکو سے ہے جو امریکہ کا ہمسایہ ہے یہاں ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اپنی صدارت کے پہلے دور میں دیوار تعمیر کرنے کا پروجیکٹ شروع کر چکے تھے۔  دوسرے نمبر پر28 لاکھ کی تعداد میں بھارتی باشندے ہیں جن میں سے 7 سے8 لاکھ وہ بھارتی غیرقانونی تارکین وطن ہیں جو میکسیو اور کینیڈا کی سرحدوں سے غیرقانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوئے تھے ۔ اب تک امریکہ سینکڑوں بھارتی باشندوںکو امریکہ سے ہاتھ پاؤں باندھ کر ہوائی جہازوںکے ذریعے بھارت واپس پہنچا چکا ہے ۔ گذشتہ دنوں اِن میں سے بعض بھارتی چالیس، چالیس گھنٹوں تک ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑے رہے اور بہت ہی بری حالت میں واپس بھارت پہنچے، بھارتی غیرقانونی تارکین کے ساتھ یہ سلوک بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے 13 فروری 2025 ء کو واشنگٹن پہنچنے سے پہلے کیا گیا تھا ۔ مودی سے ایک ہفتہ قبل امریکی صدر ٹرمپ کی فون پر بات چیت ہو چکی تھی اور بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر اُن چند خاص مہمانوں میں شامل تھے جن کو ٹرمپ کی صدارتی تقریب حلف برداری میں پہلے صف میں نمایاں مقام پر جاپان اور آسٹریلیا کے وزراء خارجہ کے ساتھ بٹھایا گیا تھا جو امریکہ کے ساتھ QUAD کواڈ کے چارملکی اتحاد میں شامل ہیں جو بحر ہند اور بحرالکاہل میں چین کو روکنے کے لیے 2004 میں بنایا گیا تھا بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے دور سے چار پانچ روز قبل جاپان کے وزیراعظم شیگیروایشیبا نے6 فروری سے8 فروری تک امریکہ کا دور کیا اور صدر ٹرمپ سے تفصیلی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا جس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جاپان امریکہ کے تقریباً 80 سال پرانے تعلقات ہیں دونوں ملکوں کے درمیان قریبی فوجی او ر اقتصادی تعلقات اور تعاون کا ذکر کیا اُنہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ جاپان اور امریکہ کے درمیان ایک ہزار سے دوہزار ارب ڈالر کی تجا رت ہو گی ٹرمپ نے جاپانی وزیراعظم سے کہا کہ جاپان اور امریکہ کے درمیان سکیورٹی اور فوجی تعاون اہم ہے اور ہم جا پان کا تحفظ کرتے ہیں ۔ اُنہوں نے جا پان کو الاسکا سے پا ئپ لائن کے ذریعے مستقبل قریب میں تیل اور گیس کی سپلائی کی بات بھی کی اور جاپان کی جانب سے امریکہ میں سرمایہ کار کی بات کی اور یہ بھی واضح کر دیا کہ امریکہ اپنے تجارتی خسارے کو ختم کر رہا ہے ۔ اِ ن تمام باتوں کے جواب میں جاپانی وزیرا عظم کا ردعمل خوشگوار تھا ، اب اس تناظر میں دیکھیں تو نریندر مودی کا دورہ امریکہ اُن کے لیے پہلے ہی چیلنج بن گیا تھا ، بھارت میں ابھی تک امریکہ سے نکالے گئے ، تارکین وطن کی تعداد اگرچہ بہت کم ہے، مگریہ حقیقت ہے کہ امریکہ میں اس وقت 28 لاکھ بھارتی تارکین وطن میں 8 لاکھ غیرقانونی تارکین وطن ہیں ۔ مجموعی طور پر 28 لاکھ تارکین وطن کے ساتھ امریکہ میں بھارتی لابی اس وقت یہودی لابی کے بعد سب سے مضبو ط پو زیشن میں ہے ابھی چند سو بھارتی ہی امریکہ سے نکالے گئے ہیں ، کانگریس نے مودی سرکار کے خلاف شدید احتجاج کیا پھر جو بھارتی غیرقانونی تارکین وطن امریکہ میں ہیں ، اُن کی ایک بڑی تعداد بھارتی گجرات سے تعلق رکھتی ہے جو مودی کا حلقہ انتخاب ہے پھر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان جو تجارتی توازن ہے وہ بھارت کے حق میں تقریباً 30 ارب ڈالر کے فائدے کا ہے مگر ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ کو 100 ارب ڈالر کا خسارہ ہے فی الحال اور بظاہر یہ دو بڑے نکات ہیں جن کی بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کو بلیک میل کر رہا ہے۔  اس وقت سالانہ جی ڈی پی کے اعتبار سے ٹاپ ٹن یعنی دس بڑی اقتصادی قوتوں یا ممالک کی تر تیب یوں ہے، نمبر1۔ امریکہ، نمبر2۔ چین ،نمبر3 ۔جاپان، نمبر4 ۔ جرمنی نمبر5 ۔ برطانیہ، نمبر6 ۔ بھارت، نمبر7 ۔فرانس، نمبر8 ۔ اٹلی نمبر9 کینیڈا، نمبر10 جنوبی کوریا ۔ یہاں یہ تلخ حقیقت ہے کہ امریکہ کی کرنسی ڈالر اب تک دنیا کی سب سے اہم اور بڑی کرنسی ہے اور جی ڈی پی کے اعتبار سے امریکہ معاشی اور اقتصادی لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی قوت ہے اور ساتھ ہی 2024 ء کی درجہ بندی کے لحاظ سے دنیا کی ٹاپ ٹن فوجی و عسکری قوت کے اعتبار سے امریکہ 831 ارب ڈالر سالانہ کے فوجی بجٹ اور جد ید ٹیکنالوجی اور کل 21 لاکھ 27 ہزار سے زیادہ فوج کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ دوسرے نمبر پر روس ہے جس کا فوجی بجٹ امریکہ سے سات گنا کم یعنی 109ارب ڈالر ہے ، فوجیوں کی تعداد 35 لاکھ 70 ہزار ہے ۔ تیسرے نمبر پر چین ہے جس کا فوجی بجٹ امریکہ سے تقریباً تین گنا کم یعنی 227 ارب ڈالر سالانہ ہے اور فوجیوں کی کل تعداد31 لاکھ 70 ہزار ہے ۔ چوتھے نمبر پر بھارت ہے جس کا سالانہ فوجی بجٹ 74 ارب ڈالر فوجیوں کی تعداد 51 لاکھ 37 ہزار ہے ۔ پانچویں نمبر پر جنوبی کوریا ہے جس کا سالانہ فوجی بجٹ 44.7 ارب ڈالر ہے اور فوجیوں کی تعداد 38 لاکھ 20 ہزار ہے ۔ چھٹے نمبر پر برطانیہ ہے جس کا سالانہ فوجی بجٹ 62.8 ارب ڈالر اور فوجیوں کی تعداد 11 لاکھ 8 ہزار ہے ۔ ساتویں نمبر پر جاپان ہے جس کا سالانہ فوجی بجٹ 53 ارب ڈالر فوجیوں کی تعداد 3 لاکھ 28 ہزار ہے ۔آٹھویں نمبر پر ترکی یا ترکیہ ہے جس کا سالانہ فوجی بجٹ 40 ارب ڈالر اور فوجیوں کی تعداد 8 لاکھ 84 ہزار کے قریب ہے۔ نویں نمبر پر پاکستان ہے جس کا سالانہ فوجی بجٹ 6.3 ارب ڈالر ہے، ایٹمی قوت ہے، فوجیوں کی تعداد7 لاکھ 4 ہزار سے زیادہ ہے ۔ دسویں نمبر پر اٹلی ہے جس کا سالانہ فوجی بجٹ 31.6 ارب ڈالر ہے اور فوجیوں کی تعداد 2 لاکھ 89 ہزار ہے، اب اگر اقتصادی اور فوجی دونوں طرح کی قوت کے معیار پر دیکھا جائے تو امریکہ اِس وقت دنیا میں عسکری ، فوجی اقتصادی دونوں اعتبار سے اوّل نمبر ہے ، وہ پہلی ایسی ایٹمی قوت ہے جو دنیا میں دوسری عالمی جنگ میں دو ایٹم بم استعمال کر چکا ہے ۔ امریکہ کو جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر بھی عسکری دفاعی شعبوں میں دنیا بھر میں فوقیت حاصل ہے ۔ دنیا میں خشکی اور سمندروں میں اُس کے سینکڑوں فوجی اڈے ہیں جن پر امریکہ کے 50 ہزار سے زیادہ فوجی تعینات ہیں ۔ نیٹو میں وہ بنیاد ی حیثیت کا حامل ملک ہے ۔ امریکہ کے اب بھی دنیا میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ سب سے زیادہ اتحادی ہیں ۔ خلائی ٹیکنالوجی میں بھی امریکہ اوّل تصور کیا جاتا ہے جہاں تک تعلق سالانہ فوجی بجٹ کا ہے تو درج بالا تفصیلات کے مطابق 2024 ء میں فوجی بجٹ کے اعتبار سے امریکہ کا فوجی بجٹ 831 ارب ڈالر تھا جو دنیا کی تاریخ کا کسی بھی ملک کا سب سے بڑا فوجی بجٹ ہے ۔ واضح رہے کہ گذشتہ کئی برسو ں سے امریکہ کے سالانہ دفاعی یا فوجی بجٹ میں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے ۔ 2024 ء میں فوجی یا دفاعی بجٹ کے اعتبار سے امریکہ سمیت جن ٹاپ ٹن ملکوں ذکر کیا گیا تھا اِن میں سے امریکہ کو چھوڑ کر باقی 9 ملکوں یعنی روس ، چین ، بھارت ، جنوبی کوریا ، برطانیہ ، جاپان ، ترکی، پاکستان اور اٹلی سب کا مجموعی کل فوجی دفاعی بجٹ 648 ارب ڈالر تھا جو امریکہ کے 831 ارب ڈالر سے 183 ارب ڈالر کم تھا ، اگر اقتصادی تجارتی لحاظ سے ٹاپ ٹن ملکوں کا جا ئزہ لیں تو سوائے چین کے باقی تمام ملک یعنی جاپان ، جرمنی ، برطانیہ ، بھارت ، فرانس ، اٹلی ، کینیڈا اور جنوبی کوریا 20 جنوری 2025 ء سے پہلے تک امریکہ سے گرم جوشی سے اقتصادی اور مالی تعاون کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے اور تقریباً اِن تمام ملکوں کے ساتھ امریکہ کی مہربانیاں تھیں مگر ابھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کے جاری ہونے کے بعد بہت سے ملکوں کے تحفظات بڑھ گئے ہیں ۔ کینیڈا امریکہ تو ایک دوسرے کے مد مقابل بھی آگئے ۔ یورپی یونین کو بھی بعض معاملات پر تشویش ہے ۔ دوسری جانب دفاعی ، فوجی اور عسکری اعتبار سے ٹاپ ٹن ملکوں میں سے واضح طور پر امریکہ کے سامنے چین اور روس ہیں جب کہ باقی سات ممالک کسی بھی صورت میں امریکہ سے مقابلہ نہیں چاہتے ، اِن حالات میں جاپان کے وزیر اعظم صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کر کے اپنا امریکہ کا دورہ کامیاب قرار دے رہے ہیں ۔  صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کو میں دنیا کی جدید تاریخ کی چھٹی بڑی تبدیلی قرار دے چکا ہوں ، یہاں بھی یہی تبدیلی عالمی اقتصادی ، فوجی ، سیاسی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی خصوصاً آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے شعبوں میں بہت نمایاں انداز سے سامنے آرہی ہے ، اسی تناظر میں بھارتی وزیراعظم نرنیدر مودی کی13 فروری 2025 ء کی صدر ٹرمپ سے ملاقات بھارت کے لیے بھاری رہی ۔ بظاہر ٹرمپ اور مودی ہنستے مسکراتے رہے مگر نریندر مودی کو معلوم تھا کہ امریکہ اگر 8 لاکھ غیر قانونی بھارتی تارکین وطن کو امریکہ نکال دیتا ہے تو نہ صرف بھارت فوری طور پر مالی اقتصادی طور پر متاثر ہو گا بلکہ اُن کی سیاست زوال کا شکار ہو جائے گی پھر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ملاقا ت میں بغیر کسی لگی لپٹی مودی پر واضح کر دیا کہ اب جتنا ٹیرف کوئی بھی ملک امریکی مال پر لگائے گا جواب میںا مریکہ بھی ایسا ہی کرے گا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو اقتدار میں آتے ہی جارحانہ انداز میں عالمی سطح پر امریکی مفاد میں اقتصادی ، سیاسی شفلینگ کر رہے ہیں وہ پھرتیلی شفلنگ کے ساتھ اپنے کارڈ نریندر مودی کے سامنے رکھتے رہے ۔ اگرچہ بھارت کے وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر اور اِن کے اقتصادی امور کے مشیران گہری نظر رکھتے ہیں لیکن ٹرمپ کابینہ جیسی تیزی اس وقت دکھائی ہے، ماضی میں امریکہ کی جانب سے نہیں دیکھی گئی ۔ مودی کی امریکہ آمد سے پہلے ٹرمپ اور اِن کے ساتھی انڈیا پر یہ واضح کر چکے تھے کہ بھارت ، مصر اور اسرائیل کے علاوہ دنیا کے اُن تمام ملکوں میں شامل ہے جس کے لیے یو ایس ایڈز بند ہو چکی اور ٹرمپ انتظامیہ 90 دن میں یہ فیصلہ کر ے گی کہ کس کس ملک کو دوبارہ یو ایس ایڈ ملے گی اور کتنی ملے گی، پھر مودی سرکار کو پہلے ہی یہ خبر بھی دی جا چکی تھی کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان جو تجارتی حجم ہے۔ اُس میں بھارت کو اربوں ڈالر کی فوقیت حاصل ہے اور اب امریکہ کی یہ پالیسی ہے کہ وہ اپنا تجارتی خسارہ ختم کرے گا اور دنیا کے تمام ملکوں کے ساتھ برابر کی بنیاد پر یا کم سے کم خسارے کی بنیاد پر باہمی تجارت کرے گا مگر سب سے اہم یہ کہ بھارت کے 28 لاکھ تارکین وطن میں سے جو آٹھ لاکھ کے قریب غیرقانونی تارکینِ وطن ہیں ، اُن کو فوراً امریکہ سے نکال دے گا؟ صدر ٹر مپ کے یہ تین کارڈ تھے جن کو صدر ٹرمپ نے مودی کے سامنے اپنے روائتی بے رحمانہ انداز میں کھیلا، البتہ ٹرمپ کابینہ نے مودی کو سیاسی بچاؤ اور پاکستان پر دباؤ کے لیے 2008 ء ممبئی دہشت گردی کے پرانے واقعہ کے ایک ملزم داور حسین کو بھارت کو حوالگی کے اعتبار سے بات کی ۔ شائد ٹرمپ کینیڈابھارت کشیدگی کے پس منظر میں کینیڈا کو بھی نیچا دکھانا چاہتے ہیں، ساتھ ہی ٹرمپ نے بھارت کو جاپان کی طرح مستقبل قریب میں امریکہ میں تیل گیس کی پیداوار کو بڑھانے اور ایکسپورٹ کرنے کی بات کی اور غالباً بھارت کی مرضی کے برعکس اپنے 35F طیارے بیچنے کی بھی آفر کر دی ، مودی کے دور کے فوراً بعد ٹرمپ نے یہ بھی کہہ دیا کہ برکس ممالک اگر ڈالر کے متبادل کرنسی لائیں گے تو امریکہ اِن پر ٹیرف ڈبل کر دے گا ، مختصراً یہ کہ بھارت کو اب وہ سب کچھ کرنا ہو گا جو وہ جوبائیڈن کے دور میں نہیں کرتا رہا، بھارت کی خارجہ پالیسی شروع ہی سے دنیا کے ترقی پذیر ملکوں کے لیے ایک مثالی خارجہ پالیسی رہی ہے کہ بھارت نے اپنی خارجہ پالیسی میں ہمیشہ اولیت بھارت کو دی اور اپنے قومی مفادات کو مقدم جانا صدر جو بائیڈن کے دورہ بھارت کی کامیاب کوشش رہی کہ بغیر کسی بڑے فائدے کے کسی بڑی قوت یعنی روس یا امریکہ کی خاطر کوئی بڑا قدم عالمی سطح پر نہ لے ، پچاس کی دہا ئی سے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے غیرجانبدار ممالک کی تنظیم کی سربراہی کرتے ہوئے دنیا میں اہم مقام حاصل کیا۔ 1960 ء تک اس پلیٹ فارم پر اُس کے ہمسایہ ملک چین سے بہت اچھے اور گہرے تعلقات رہے لیکن بعد میں نہرو نے یہ محسوس کر لیا کہ مستقبل قریب میں اقتصادی سیاسی لحاظ سے عالمی سطح پر اُس کا مقابلہ چین ہی سے ہو گا ۔ 1953ء جب اسٹالن کا انتقال ہوا تو اس کے فوراً بعد چین ، روس سرحدی تناعازت ابھرے اور پھر روس چین کے درمیان سرحدی جھڑپیں بھی ہوئیں ، یہی دور تھا جب بھارت نے تبت کے مذہبی رہنما دلائی لامہ کو ہندوستان میں سیاسی پناہ دی ، چین کے ساتھ تنازعات کھڑے کئے، یوں 1962 ء میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی یہی وہ دور ہے کہ جب بھارت اور پاکستان نے امریکہ ، روس اور چین کے حوالے سے اپنی اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کر لیں ۔ جہاں تک تعلق امریکہ سے تعلقات تھا تو پاکستان اور بھارت دونوں نے امریکہ سے اپنے تعلقات بہتر رکھے ۔ چین سے بھارت نے تعلقات بگاڑ لیے اور پاکستان اور چین کے دوستانہ تعلقات بہت بہتر ہو گئے ۔ بھارت نے روس اور امریکہ سے اپنی دوستی کے حوالے سے تعلقات کو متوازن رکھا ، جب کہ پاکستان نے امریکہ کے حق میں خارجہ پالیسی کے لحاظ سے توازن قائم نہ رکھا اور سیٹو سینٹو جیسے معاہدوں میں شامل ہو کر کھل کر روس ہی کی مخالفت نہیں کی بلکہ یہ معاہدے چین کو بھی پسند نہیں تھے ، مگر پاک چین دوستی پھر بھی اپنے اپنے مفادات کے تحت قائم رہی بلکہ مزید مستحکم ہوتی رہی ۔ اب جہاں تک تعلق صدر ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کا ہے تو یہ تلخ حققیت سامنے ہے کہ امریکہ میں تبدیلی ضروری تھی ہاں یہ ضرور ہے کہ مدتوں بعد امریکہ میں یہ تبدیلی امریکی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی ہی کے خلاف نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ ہی کے خلاف ہو رہی ہے ، چاہے امریکہ ہی کیوں نہ ہو ، اسٹیبلشمنٹ ہر ملک میں بہت مضبو ط اور طاقتور ہوتی ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز بھی بہت جارحانہ ہے۔  امریکہ نے بھارت کو اقتصادی فوجی قوت کے طور پر مستحکم ہونے میں 2000 ء سے متواتر مدد کی ہے ۔ 2004 ء میں امریکہ نے بھارت کو آسٹریلیا اور جاپان سمیت Quad کواڈ جیسے معاہد ے میں شامل کر لیا جو بحر ہند اور بحر الکاہل میں چین کے اثر کو محدود کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا ۔ اگرچہ یہ کوئی اعلانیہ فوجی نوعیت کا معاہدہ نہیں تھا مگر رفتہ رفتہ اس معاہدے سے یہی تاثر سامنے آیا ۔ جاپان ، آسٹریلیا اور امریکہ ، بھارت سے بھی اسی رویے کی توقع کر تے رہے لیکن بھارت نے معاہدے کے باقی تین ملکوں کی طرح کارکردگی پیش نہیں کی جس کی وجہ سے باقی تین ممالک بھارت پر تنقید بھی کرتے رہے جب کہ بھارت دوسری جا نب شنگھائی تعاون تنظیم اورBRICS برکس کا بھی اہم رکن ہے۔ برکس تو ڈالر کی عالمی اقتصادی ،تجارتی اور مالیاتی اجارہ داری کو بھی توڑنے کے لیے معاہدے میں شامل ملکوں کو آپس میں ڈالر کی بجائے روبل ، ین اور روپے میں لین دین کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے جو امریکہ کو پسند نہیں ۔ مودی کو یہ ڈر ہے کہ اگر امریکہ میں28 لاکھ تارکین ِ وطن میں سے8 لاکھ بھارتی غیرقانونی تارکین وطن کو چند مہینوں میں واپس کر دیا گیا تو ابھی چند ہزار تارکین ہی واپس بھارت آئے ہیں تو مودی سرکار سیاسی طور پر دباؤ کا شکار ہو گئی ہے اور اگر پورے 8 لاکھ بھارتی تارکین وطن کا مسئلہ ٹرمپ کے ساتھ طے نہیں ہوتا تو پھر مشکل ہو جائے گی ۔ اسی طرح اگر امریکہ بھارتی تجارت میں اِس وقت جو تقریباً 50 ارب ڈالر کا فائدہ بھارت کو ہو رہا ہے پالیسی کے مطابق اب ٹرمپ امریکہ کو تجارتی مالیا تی خسارے سے نکال رہا ہے اور وہ کسی بھی ملک کا لحاظ نہیں کر رہا ۔ کیا ٹرمپ مودی ملاقات کے بعد بھارت کھل کر امریکہ کی خاطر چین کی پوری دشمنی مول لے لے گا؟ میرا خیال یہ ہے کہ بھارت کا دفتر خارجہ اپنے انتہائی اہم اور ماہر وزیر خارجہ جے شنکر کی نگرانی میں بھارت کی آزاد خارجہ پالیسی کا سواد نہیں ہونے دے گا ۔ اس وقت امریکہ فوجی اور اقتصادی طور پر دنیا بھرمیں اوّل ہے ۔ بھارت اقتصادی طور پر دنیا کی چھٹی پوزیشن پر ہے اور فوجی قوت کے لحاظ سے چوتھی پوزیشن پر ہے ۔ چین اقتصادی صنعتی اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے اور فوجی قوت کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے ۔ روس اقتصاد ی اعتبار سے ٹاپ ٹن میں نہیں ہے جب کہ روس فوجی لحاظ سے دنیا کی دوسری فوجی قوت ہے ۔ برطانیہ جو امریکی تعلقات کے اعتبار سے کزن کنٹری کہلاتا تھا ہے یہ اقتصادی لحاظ سے ٹاپ ٹن ملکوں میں پانچویں پوزیشن پر ہے اور فوجی قوت کے لحاظ سے چٹھی پوزیشن پر ہے ۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ اقدامات سے جرمنی ، فرانس ، اٹلی کینیڈا ، ترکی اور پاکستان جنوبی کوریا سب ہی کو قدرے تشویش ہے مگر فی الحال ابھی ا یسی صو رت دکھائی نہیں دے رہی ہے کہ اِن میں سے کسی ملک نے ماسوائے کینیڈا کے کو ئی واضح پوزیشن لے لی ہو اور کینیڈا بھی امریکہ سے کوئی جنگ نہیں کرے گا ، مگر حالیہ عالمی سیاسی تناظر میں سب سے اہم بھارت امریکہ نئے تعلقات ہو نگے ، جو اب مودی ٹرمپ ملاقات 13 فروری کی ملاقات کے بعد اس سال کے آخر تک سامنے آئیں گے، کیونکہ 13 فروری کی مودی ٹرمپ ملاقات کے بعد معاملات کو طے کرنے اور مشاورت کے لیے اس سال کے آخر تک کا وقت وزیراعظم مودی کی ٹیم نے امریکی حکام سے لے لیا ہے اگر چین بھارت جنگ کی صورت میں آمنے سامنے آتے ہیں تو یہ دنیا کے لیے اور خصوصاً پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہو گا ۔ اب جہاں تک تعلق امریکہ میں مقیم 4 کر وڑ 80 لاکھ تارکین اور اِن میں سے1 کروڑ 17 لاکھ غیرقانونی تاریکن وطن کا ہے تو امریکہ کی آبادی میں مقامی امریکیوں کی سالانہ شرح سالانہ پیدائش شرح اموات سے 2030 ء کم ہو جائے گی اور اس وقت بھی اگر1 کروڑ17 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن نکال دیئے جائیں تو امریکہ میں صنعتی اقتصادی شعبوں میں افرادی قوت کا بحران رونما ہو گا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور اعلان مسک کیا اِس افرادی قوت کی کمی کو ربوٹک ٹیکنالو جی سے پورا کرتے ہیں یا یہ کہ صر ف چند لاکھ غیرقانونی تارکین وطن کو امریکہ سے نکال کر اور بھارت جیسے ملکوں کو اقتصادی سیاسی طور پر بلیک میل کر کے خاموش ہو جاتے ہیں ۔ اگرچہ صدر ٹرمپ نے حلف برداری کے ایک مہنیے میں ہی بہت اہم نوعیت کے عالمی سطح کے اقدامات لے لیئے ہیں لیکن اِن میں کامیابی کا تناسب یا کوئی نقصان مئی 2025 ء تک دنیا کے سامنے آجائے مگر یہ واضح ہو چکا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مرتبہ اقتدار میںآمد دنیا کی جد ید تاریخ کی اہم تبدیلی ہے ۔ 

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل