Thursday, March 13, 2025
 

رمضان المبارک، مہنگائی اور حکومتی بے حسی

 



رمضان المبارک اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ جاری و ساری ہے، اللہ کی رحمت کے دروازے مسلمانوں پر کھلے ہوئے ہیں۔ رحمتوں، برکتوں اور انعامات کی بارش برس رہی ہے، یہ عظمت و برکت والا مہینہ خدا کی خصوصی عنایت، رحمت اور عطا ہے۔ جس کا ایک ایک لمحہ ہماری بخشش اور نجات کے لیے اللہ رب العزت کا انعام ہے۔ پوری دنیا میں مساجد آباد ہیں، مسلمان مردوں نے مساجد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اورمسلمان خواتین عبادات و مناجات کے ساتھ ساتھ سحری و افطاری کی تیاری کے ذریعے اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ ماہ رمضان تین عشروں پر مشتمل ہے، پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرے عشرے کو جہنم سے نجات کا عشرہ قرار دیا گیا ہے۔ رحمت کا عشرہ گزر گیا ہے، مغفرت کا عشرہ جاری و ساری ہے۔ ہر مسلمان اپنی مغفرت و بخشش کے لیے اللہ کی بارگاہ میں جھولی پھیلائے ہوئے ہے، اس ماہ مبارک کی ناقدری کرنے والے کو حضرت جبرئیلؑ نے اس طرح بد دعا دی"ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکی"۔ اس بددعا پر آپﷺ نے آمین کہا۔ ایک جگہ آپﷺ نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا "بد بخت ہے وہ شخص جو اس ماہ مبارک میں بھی باران رحمت سے محروم رہا"۔ (کنز العمال، حدیث نمبر: 23693) ایک اور جگہ آپﷺ نے فرمایا" جس کی رمضان میں مغفرت نہ ہوسکی تو پھر کب ہوگی؟" (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: 8963) رمضان المبارک کے مہینہ میں بھی جو لوگ گناہوں میں ملوث رہتے ہیں، ان کے بارے میں اللہ کے نبیﷺ کی وعید ہے کہ اگلے ایک سال تک فرشتے ان پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ (کنزالعمال، حدیث نمبر: 23724) ایک روایت میں اللہ کے نبیﷺ کا فرمان ہے"میری امت اس وقت تک ذلیل وخوار نہیں ہوسکتی، جب تک وہ روزوں کا اہتمام کرتی رہے"۔ (کنز العمال، حدیث نمبر 23701) کہیں رمضان کے نا قدروں کے بارے میں رحمۃ للعالمینﷺ نے فرمایا کہ "اللہ تعالی کو کوئی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگ بھوکے پیاسے رہیں"۔ یعنی اگر فرائض و نوافل کے ساتھ خوف خدا نہ ہو اور مخلوق ان کے شر سے محفوظ نہ ہو تو اللہ کے ہاں صرف بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی وقعت اور اہمیت نہیں۔ ماہ رمضان میں غفلت کرنے والوں اور گناہوں سے باز نہ آنے والوں کے لیے اس قدر سخت وعید ہیں لیکن اس کے باوجود ہم میں سے ایسے مسلمان بھی ہیں جو رحمت کے اس مہینے کو دوسرے مسلمانوں کے لیے زحمت بنانے کا سبب بن رہے ہیں، ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور جہاں مسلمانوں کی جیبوں پر ڈاکا ڈالتے ہیں وہاں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ناراضگی مول لیتے ہیں۔ دنیا کے تمام مذاہب کے لوگ اپنے تہواروں میں غریبوں اور ناداروں کی خاطر صرف مفت اور سستے بازاروں کا اہتمام نہیں کرتے بلکہ تمام ضروریات زندگی کی چیزوں کے نرخ کم کر دیتے ہیں اور شکر الحمدللہ اکثر مسلمان ممالک کے ساتھ غیرمسلم ممالک میں بھی جب رمضان آتا ہے تو لوگوں کو سہولیات دی جاتی ہیں، اشیائے خور ونوش ایک دوسرے کو ہدیہ کی جاتی ہیں، تاجر مارکیٹوں اور دکانوں پر نرخوں میں کمی کرتے ہیں تاکہ سفید پوش اور غریب طبقے کے لیے رحمتوں بھرا رمضان زحمت نہ بن جائے لیکن کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان میں معاملہ ہی الٹ ہے۔ یہاں تاجرطبقہ پہلے سے چھرے تیار کرکے بیٹھا ہوتا ہے کہ رمضان آئے گا تو ذخیرہ شدہ مال پر ناجائز منافع لے کر اپنی تجوریاں بھریں گے۔ اس صورتحال کی بازگشت ایوان بالا یعنی سینیٹ میں بھی سنائی دی جہاں گزشتہ دنوں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر دنیش کمار نے ایوان میں خطاب میں بیان کیا۔ ذخیرہ اندوزوں، گراں فروشوں اور حکمرانوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان کے ایوان بالا میں کھڑے ہوکر ایک غیر مسلم ہندو رکن نے رمضان المبارک میں مہنگائی اورمسلم حکمرانوں کی بے حسی پر بات کی۔ حکمران تو شرم پروف ہیں مگر ایک ہندو رکن کی اس تصویر کشی پر مجھ سمیت ہر پاکستانی مسلمان پانی پانی ہوگیا۔ دنیش کمار نے اپنی تقریر میں کہا کہ "رمضان المبارک کا مقدس مہینہ چل رہا ہے، پاکستان میں منافع خوروں نے اپنے بھائیوں پر چھریاں تیز کر لی ہیں۔ سستے بازاروں میں اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، اس ماہ مقدس میں غریبوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں۔ ایم این ایز اور سینیٹرز لاکھوں روپے کی پارٹیاں کرتے ہیں مگر غریب مزدور کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔ یہ کس قسم کے انسان ہیں کہ ماہ مقدس میں بھی باز نہیں آرہے، میں اقلیتی برادری سے اپیل کرتا ہوں کہ جہاں جہاں ممکن ہو سکے سستے بازار لگائیں اور جہاں ممکن ہو ریلیف دیا جائے۔ مہنگائی پر قابو نہ پانے پر تمام حکومتی ارکان ملزم ہیں، اچانک کیا ہو گیا ہے، چینی غائب ہو گئی، غریبوں کے لیے 20 ارب روپے رکھے گئے تھے، وہ کہاں ہیں، غیر مسلم ہونے کے باوجود میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے"۔ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے سینیٹر دنیش کمار تو ماہ رمضان کے دوران ہونے والی ناجائز منافع خوری اور حکومتی رٹ کی صورتحال کو بیان کرکے اپنے حق سے زیادہ ادا کر گئے مگر ان کے الفاظ ایوان بالا میں بیٹھے ہر مسلمان رکن بالخصوص حکومتی بینچوں پر بیٹھے اراکین اور وزراء کے منہ پر زناٹے دار تھپیڑوں کی طرح برس رہے تھے ، یہ احتجاج ایوان میں کسی مسلمان رکن کی جانب سے ہونا چاہیے تھا لیکن یہ اعزاز کسی عبداللہ اور عبدالرحمن کے حصے میں نہیں دنیش کمار کے حصے میں آیا، یہ اللہ کی تقسیم ہے کہ جسے توفیق دے۔ پاکستان میں بڑے بڑے سرمایہ دار اور تاجر رمضان المبارک سے پہلے اشیائے خورونوش کی ذخیرہ اندوزی کو اپنا حق سمجھتے ہیں جس کے نتیجے میں ہوشربا مہنگائی ہر رمضان المبارک میں غریبوں کا جینا حرام کر دیتی ہے اور بلا تفریق ہر دور کے حکمران ان ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ ذخیرہ اندوز کو حدیث پاک میں خطاکار اور ملعون فرمایا گیا ہے اور اس کے لیے بڑی وعید آئی ہے۔ احادیث ِ مبارکہ میں ہے۔"رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ ذخیرہ اندوزی صرف گنہگار شخص کرتا ہے"۔ ( مسلم :4120)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ "تاجر خوش بخت ہے اور ذخیرہ اندوز ملعون ہے"۔     (سْنن ابن ماجہ: 2153)۔ آپ ﷺ نے فرمایا"جس شخص نے مسلمانوں پر ذخیرہ اندوزی کی اللہ تعالیٰ اُس پر جذام (کوڑھ) اور افلاس کو مسلّط کردے گا"۔ (ابن ماجہ:2155) پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جس طرح ماہ رمضان میں نیکی کا اجر و ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے اسی طرح بدی کی سزا بھی کئی گنا سنگین ہوجاتی ہے۔ یعنی ہر نیکی کے اجر اور گناہ کی سزا کو ضرب دیا جاتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں حکومت اور حکومتی مشینری بری الذمہ نہیں باقاعدہ ان جرائم میں شریک کار ہے۔ حکومت اربوں روپے سے بڑے شہروں میں چند رمضان بازار لگا کر لمبی تان کر سو جاتی ہے اور ملک بھر میں ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کو کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں کیونکہ یہی ناجائز منافع خور کل ان کے الیکشن کے اخراجات برداشت کریں گے، مگر وہ یہ یاد رکھیں کہ وہ حرام مال کما کر اپنی تجوریاں تو بھر سکتے مگر سکون نامی چیز ان کی زندگی میں کبھی نہیں آئے گی کیونکہ وہ سفید پوش اور غریب طبقے کی بددعاؤں سے اپنی جھولیاں بھر رہے ہوتے ہیں ، ان بددعاؤں میں بڑا حصہ حکومت اور حکومتی مشینری سے جڑے سرکاری افسروں اور ملازموں کا بھی ہے جو حکومتی رٹ قائم کرنے میں بدترین غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں یا مٹھی گرم ہونے پر آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ جب کلمہ طیبہ پر بنے پاکستان کی حکومت و ریاست ماہ رمضان میں مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی روکنے میں بری طرح ناکام ہوگی تو پھر دنیش کمار جیسے اقلیتی رکن پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر مسلمان ریاست اور مسلمان اراکین پارلیمان کو آئینہ دکھاتے اور مذاق اڑاتے رہیں گے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل