Saturday, March 22, 2025
 

26 نومبر احتجاج؛ زخمیوں اور ہلاکتوں پر اندراج مقدمہ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

 



ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ  نے 26 نومبر احتجاج میں  زخمیوں اور ہلاکتوں پر اندراج مقدمہ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔   پی ٹی آئی کے 26 نومبر احتجاج پر مبینہ زخمیوں اور ہلاکتوں پر اندراج مقدمہ کی درخواست پر سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں ہوئی، جس میں شہری گل خان کی جانب سے دائر 22 اے کی درخواست پر سماعت  ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکا نے کی۔ دورانِ سماعت درخواست گزار کے وکلا  کی جانب سے دلائل  دیے گئے۔  دوران سماعت وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں بنیادی قانونی حقوق ہی فراہم نہیں کیے گئے۔ موکل پولیس اسٹیشن اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے گیا،  پولیس نے غیر قانونی پکڑ لیا۔ جرم ہوا،  ہم نے اس حساب سے درخواست دی، ریکارڈ اکٹھا کرنا ہمارا کام نہیں۔ وکلا نے اپنے دلائل کے حق میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کا بھی حوالہ دیا۔  وکیل نے بتایا کہ درخواست گزار کے بیٹے کی لاش بہت مشکل سے اور بہت سے دستخطوں کے بعد دی گئی۔  عدالت نے کہا کہ ہم نے مان لیا اسلام آباد میں سارے آپ کے خلاف تھے، کے پی کے میں آپ نے قبر کشائی کی کوئی درخواست دی؟۔ وکیل نے کہا کہ قبر کشائی کروانا ہمارا دائرہ اختیار ہی نہیں ہے۔ عدلت نے استفسار کیا کہ آپ نے مجسٹریٹ کو درخواست دی تھی قبر کشائی کے لیے ؟ میرے پاس بندہ مرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ وکیل نے بتایا کہ مجسٹریٹ، جسٹس آف پیس اور تفتیشی سب کی اپنی اپنی پاورز ہیں۔ پولیس نے جواب دینے کے بجائے درخواست گزار پر سوالات اٹھا دیے۔ جو پی ٹی آئی کارکن مارے، ان کو شرپسند کہا گیا۔ پولیس کا جواب دیکھیں تو انہوں نے ہمارے الزامات کو مان لیا ہے۔ جسٹس آف پیس نے دیکھنا ہے کہ کیا ہم پولیس کے پاس گئے پولیس کو درخواست دی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ یہ جو درخواست آپ نے پڑھی، اس میں محسن نقوی، شہباز شریف ودیگر کا نام کہاں ہیں؟۔ وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے درخواست میں لکھا ہے کہ ڈاکومنٹس ساتھ لف ہیں۔ عدالت ہماری درخواست کو منظور کرے۔ دورانِ سماعت پراسیکیوٹر نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے درخواست میں وزیراعظم سمیت دیگر کو نامزد کردیا ہے، شکر ہے امریکا کے صدر کا نام نہیں لکھا۔ آپ درخواست میں الزامات لگا رہے ہیں تو کم از کم پہلے یہ تو ثابت کریں کہ بندہ فوت ہوا ہے۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ فیصلہ تو کر لیں نئی درخواست دینی ہے یا کراس ورژن کروانا ہے۔ انہوں نے ایسے لوگوں کا نام بھی دیا جو ڈکیتی میں مارے گئے، ٹرائل ہورہا ہے۔  عدالت نے استفسار کیا کہ کیا درخواست گزار نے اسی واقعے کے حوالے سے پرائیویٹ کمپلینٹ بھی دے رکھی ہے؟  جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے کوئی اور درخواست نہیں دی وہ کسی اور نے دی ہوگی۔ عدالت ہمارے 164 کے بیان کی بنیاد پر ہی آرڈر کردے۔ یہ پراسکیوشن جو کہہ رہے ہیں کہ واقعہ ہوا ہی نہیں تو انہوں نے اتنی ایف آئی آرز ہی کیوں  دیں؟۔ بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل