Monday, March 24, 2025
 

تنازع فلسطین… اقوام عالم کی ذمے داری

 



غزہ میں اسرائیلی جارحیت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے شروع ہوئی۔ جب یہ لڑائی شروع ہوئی، اس وقت جوبائیڈن امریکا کے صدر تھے۔ جوبائیڈن کی پالیسیوں پر ڈونلڈ ٹرمپ بطور صدارتی امیدوار سخت تنقید کرتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اقتدار میں آتے ہی غزہ میں جنگ بند کروا دیں گے۔ اسی طرح وہ یوکرین ک بارے میں بھی دعویٰ کرتے تھے کہ وہ وہاں بھی جنگ بند کروا دیں گے۔ انھوں نے امریکی عوام سے یہ وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ جنگیں بند کرانے کے لیے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جب صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کی تو اس وقت امریکا کے عوام اور اقوام عالم کو یہ یقین تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنتے ہی دنیا میں قیام امن کی راہ ہموار کریں گے بلکہ غزہ میں تو فوری جنگ بند ہو جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ان کے اقدامات کی وجہ سے دنیا میں بے یقینی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ غزہ میں چند روز کے لیے جنگ بندی ہوئی اور اس کا بھی بنیادی مقصد فریقین کے پاس جو یرغمالی موجود تھے، ان کی رہائی تھا۔ اب وہاں اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر جارحیت شروع کر رکھی ہے۔ میڈیا ی اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز بھی اسرائیلی بمباری سے 60 کے قریب فلسطینی باشندے شہید ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کا واحد کینسر اسپتال بھی مکمل تباہ کر دیا ہے۔ پاکستانی میڈیا نے عرب میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ غزہ کے اس اسپتال کو 2017 میں ترکیہ کی امداد سے دوبارہ تعمیر کیا تھا اور اس کی لاگت 3 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تھی، یہ کینسر اسپتال اسرائیلی بمباری سے تباہ ہوا تھا، جسے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ یہاں سالانہ 10 ہزار مریضوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ اب یہ ابک بار پھر تباہ ہو گیا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج کس وسیع پیمانے پر تباہی جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ  روز کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے رفح میں بھی زمینی آپریشن کیا اور شمالی علاقوں کی طرف پیش قدمی کی جس پر فلسطینی پھر سے علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یوں غزہ میں عارضی جنگ بندی کی وجہ سے جو فلسطینی واپس آئے تھے، انھیں ایک بار پھر مہاجرت اختیار کرنی پڑ رہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین (انروا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے چند دنوں کے دوران اس کے 5  امدادی کارکن بھی مارے جا چکے ہیں جس سے انروا کے ہلاک شدگان ارکان کی تعداد284 ہوگئی ہے جن میںزیادہ تر اساتذہ، ڈاکٹر ز اور نرسز ہیں۔ یہ حالت وہاں پر امدادی سرگرمیاں جاری رکھنے والوں کی ہے۔ اسرائیلی فورسز کسی کا کوئی لحاظ نہیں کر رہیں۔ دنیا میں امدادی کارکنوں کی عزت کی جاتی ہے اور ان کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا جاتا ہے لیکن اسرائیل کی فوج ان اخلاقی اصولوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتی۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں تقسیم کے لیے صرف 6 دن کا آٹا رہ گیا ہے۔ ان حالات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غزہ میں جو لوگ رہ رہے ہیں، وہ کس خوف اور عذاب میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن نیتن یاہو کی انتظامیہ کو بھی کوئی خوف نہیں ہے جب کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس حوالے سے مکمل طور پر خاموش ہیں بلکہ وہ اسرائیلی حکومت کو غزہ میں کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے اپنی تائید اور حمایت دے رہے ہیں۔ یونیسف کے مطابق اسرائیل کے حملوں میں گزرے تین روز میں کم از کم 200  بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ طبی حکام کے مطابق اس دوران چھ سو فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں حماس کے پاس بھی چھوٹی موٹی کارروائیاں کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے غزہ سے تل ابیب پر متعدد راکٹ حملے کیے ہیں، ان راکٹ حملوں کی وجہ سے اسرائیل میں خطرے کے سائرن بج گئے۔ اسرائیلی فوج نے 2 راکٹ مار گرانے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نیتن یاہو حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے اسرائیل کے شہری بھی متعدد مسائل کا شکار ہیں۔ ان پر بھی مسلسل خوف کی کیفیت طاری ہے۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی ہے لیکن اصل مسئلہ پھر وہی آتا ہے کہ اقوام عالم خصوصاً صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کی وجہ سے اسرائیلی حکومت پوری دنیا کو چیلنج کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے غزہ پر اسرائیل کی مہلک بمباری دوبارہ شروع کرنے اور فلسطینیوں کے اندھا دھند قتل کی مذمت کرتے ہوئے سلامتی کونسل میں اپنے خطاب میں کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی حاصل کرنے کا بہترین طریقہ جنگ بندی معاہدے پر مکمل عملدرآمد ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر سعودی عرب کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر کانفرنس بلانے کا اعلان کر دیا۔ اسرائیل کے حالات بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی شِن بیت کے سربراہ کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ اسرائیلی کابینہ نے وزیراعظم نیتن یاہو کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔ اس برطرفی پراسرائیل میں نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے شدت اختیار کر گئے ہیں۔ اس کی برطرفی کو اسرائیلی عدالت میں بھی چیلنج کر دیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی حکومت کے اندر بھی چپقلش چل رہی ہے جب کہ عوام بھی نیتن یاہو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ غزہ جنگ بندی کے لیے مصر اور قطر نے دوبارہ مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ حماس کا وفد بھی قاہرہ پہنچ گیا لیکن مسئلہ تو پھر وہی ہے کہ امریکا اس حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے قریبی ساتھیوں کی سوچ تو سب کے سامنے آ چکی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ فلسطینی غزہ کو خالی کر دیں اور غزہ کا کنٹرول امریکا کے حوالے کر دیا جائے۔ جہاں وہ اس علاقے کو ایک کاروباری مرکز میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ فلسطینی اور عرب ممالک سمیت پوری دنیا اس منصوبے کے حق میں نہیں ہے۔ یوں یہ ایک الجھا ہوا مسئلہ ہے۔ البتہ شام کے حوالے سے ایک اچھی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ جرمنی کے وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے شام کے دورے کے دوران دمشق میں جرمنی کا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ یہ سفارت خانہ 13 سال قبل شام کی خانہ جنگی کے ابتدائی دنوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ جرمنی کا شام میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنا، شام کی موجودہ حکومت کے لیے ایک بہتر فضا پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک جو ان دنوں دوسری بار شام کا دورہ کر رہی ہیں، انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ جرمنی سفارت کاروں کی ایک محدود تعداد دمشق میں اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرے گی، لیکن قونصلر کے کام، جیسے کہ ویزا جاری کرنا، پڑوسی ملک لبنان میں بیروت میں جاری رہے گا۔ یہ اقدام برلن اور دمشق میں قیادت کے درمیان تعلقات کی بحالی میں ایک اہم قدم ہے، جو بشار الاسد کے خاتمے کے بعد ملک کی تعمیر نو کی کوششوں کے دوران انسانی اور سلامتی کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ شامی، جن میں سے بہت سے نے خونریز خانہ جنگی کے دوران اپنا وطن چھوڑ دیا تھا، اس وقت جرمنی میں مقیم ہیں۔ بیئربوک نے شام کے عبوری رہنماؤں سے بھی ملاقات کی۔ انھوں نے شامی رہنماؤں سے کہا کہ انھیں اس ماہ ہونے والے نسلی قتل عام میں ملوث انتہا پسند گروہوں کو قابو میں کرنا اور جرائم کے لیے جوابدہ بنانا چاہیے۔ انھوں نے دمشق میں عبوری صدر احمد الشرع کے ساتھ بات چیت کے بعد کہا، ’’یہ ضروری ہے کہ انتہا پسند گروہوں کو قابو میں لایا جائے اور جرائم کے ذمے داروں کا احتساب کیا جائے۔‘‘ مغربی یورپ کو غزہ میں قیام امن کے لیے بھی وہی کردار ادا کرنا چاہیے جو اس نے یوکرین کے معاملے میں کیا ہے۔ امریکا کی پالیسی تو ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اقوام عالم کے مفادات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں لیکن جب تک یورپی یونین، برطانیہ، چین، بھارت اور عرب ممالک ایک اتحاد کے ذریعے امریکا کے ساتھ معاملات آگے نہیں بڑھاتے، تنازع فلسطین کا حل ممکن نہیں ہو گا۔ روس کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ اس کی ترجیح یوکرین بن چکی ہے۔ اس بحران سے نکل کر ہی وہ فلسطین یا شام کے لیے کچھ کر سکتا ہے۔ ایسے حالات میں ضروری یہی ہے کہ یورپی یونین خصوصاً جرمنی، فرانس، اسپین، برطانیہ، چین، ترکیہ، برازیل، جنوبی افریقہ، جاپان اور سعودی عرب کے درمیان تنازع فلسطین کے حوالے سے کوئی مشترکہ لائحہ عمل نکلے، اس طریقے سے امریکا بھی فلسطین کا تنازع حل کرنے کے لیے آمادہ ہو سکتا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل