Loading
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نبی کریمﷺ کے چچا سیدنا عباسؓ کی اہلیہ اور نبیﷺ کی چچی محترمہ ام الفضل سیدہ لبابہ بنت الحارث نے نبیﷺ سے عرض کیا کہ انہوں نے ایک خواب دیکھا کہ آپﷺ کے جسم اطہر سے ایک ٹکڑا الگ کر کے میری آغوش میں رکھا گیا ہے۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ آپ نے بڑا چھا خواب دیکھا ہے۔ میری بیٹی فاطمہؓ ایک لڑکے کو جنم دے گی اور وہ آپ کی آغوش میں آئے گا۔ سیدہ ام الفضلؓ کا بیان ہے کہ حسینؓ پیدا ہوئے تو بمطابق فرمان نبیﷺ وہ میری آغوش میں آئے۔ سیدنا حسینؓ کی ولادت ہوئی تو نبی ﷺ نے ساتویں دن ان کا عقیقہ کیا اور سیدہ فاطمہ ؓ نے ان کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی۔ آپؓ کا اسم گرامی بھی خود نبیﷺ نے رکھا۔ سیدنا حسینؓ کا زیادہ وقت نبیﷺ کے زیر سایۂ شفقت گزرتا تھا۔ دورانِ نماز جب نبیﷺ حالتِ سجدہ میں جاتے تو حضرت حسینؓ آپﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہوجاتے تھے۔ نبیﷺ جب کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو حضرت حسینؓ بھی آپﷺ کے استقبال کے لیے تشریف لے جاتے۔ چناںچہ ایک مرتبہ سیدنا حسینؓ نبیﷺ کے استقبال کے لیے تشریف لے گئے تو نبیﷺ نے انہیں اپنے ساتھ اپنی سواری پر بٹھا لیا حتیٰ کہ مدینہ پہنچ گئے۔ آپﷺ کو اپنے دوسرے نواسوں کی طرح سیدنا حسینؓ سے بھی از حد محبت تھی۔ سیدنا عبداللّہ بن عمرؓ کے الفاظ ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ حسنؓ و حسینؓ میرے دو پھول ہیں۔ ایک مرتبہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جسے کسی جنتی کو دیکھنا ہو تو وہ حسینؓ کو دیکھ لے۔ ایک دفعہ نبیﷺ کے نماز پڑھتے ہوئے میں حضرت حسنؓ و حضرت حسینؓ نبی ﷺ کی پیٹھ پر چڑھ گئے، گھر والوں نے اتارنا چاہا تو آپﷺ نے اشارے سے منع فرمایا اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد دونوں کو اپنی آغوش میں بٹھا کر پیار کیا اور فرمایا کہ جسے مجھ سے محبت ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ان دونوں سے بھی محبت کرے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبیﷺ سیدنا حسینؓ کو گود میں اٹھائے ہوئے فرمارہے تھے کہ اے اللّہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت کر۔ امیرالمؤمنین سیدنا صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں سیدنا خالدؓ بن ولید نے حیرہ کا علاقہ فتح کیا تو وہاں کے اموال امیرالمؤمنینؓ کی خدمت میں بھیجے۔ ان میں طیلسان کی چادریں بھی تھیں۔ امیرالمؤمنینؓ نے ان قیمتی چادروںمیں سے ایک چادر سیدناحسینؓ کو بھی دی۔ امیرالموُمنین سیدنا فاروق اعظمؓ کے عہد خلافت میں یمن سے بہت سے عمدہ کپڑے امیرالمؤمنینؓ کو بھیجے گئے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ صحابہؓ کی اولادوں کو یہ کپڑے تقسیم فرمائے، مگر سیدین حسنینؓ کے لیے کوئی اچھا کپڑا نہ پایا تو یمن کے گورنر کو پیغام دیا کہ سیدین حسنینؓ کے لیے عمدہ لباس بھیجے۔ تو وہ لباس سیدین حسنینؓ کو دے کر امیرالمؤمنینؓ نے فرمایا کہ اب مجھے خوشی ہوئی ہے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے مالی وظائف مقرر کیے تو سیدین حسنینؓ کے لیے بدری صحابہؓ کے برابر پانچ پانچ ہزار دراہم سالانہ مقرر کیے۔ امیرالمومنین سیدنا عثمان ذوالنورینؓ جب عمرے کے لیے عازم ہوئے تو سیدنا حسینؓ کو بھی ساتھ لے گئے راستے میں سیدنا حسینؓ علیل ہوگئے تو انہوں نے اپنے ساتھ آئے ہوئے سیدنا عبدؓ اللّہ بن جعفرؓ کو سیدنا حسینؓ کی دیکھ بھال کے لیے ٹھہرایا اور ایک قاصد مدینہ بھیجا کہ سیدنا علیؓ کو اس بابت مطلع کیا جائے اور خود عمرے کے لیے تشریف لے گئے۔ سیدنا علیؓ جب سیدنا حسینؓ کے پاس پہنچے تو ان کی تیمارداری کے لیے وہیں قیام پذیر ہوگئے۔ اتنے میں امیرالمومنین عثمانؓ لوٹے تو انہوں نے سیدنا علیؓ کو بتایا کہ میں تو یہاں رکنا چاہتا تھا مگر حسینؓ نے مجھے قسماً عمرہ ادا کرنے کو کہا تو مجھے جانا پڑا۔ سیدنا حسینؓ کی پوری زندگی اعلاء کلمۃ اللّہ کے لیے جدوجہد سے معمور تھی اور اپنے عہد جوانی سے ہی سیدنا حسینؓ مختلف غزوات میں شامل رہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمرفاروق ؓ کے دور میں تو سیدنا حسینؓ عہد طفولیت میں تھے لیکن سیدنا عثمانؓ کے دور میں عہدجوانی میں قدم رکھتے ہی سیدنا حسینؓ تمام نمایاں غزوات اور جہادی مہمات میں شامل رہے۔ چناںچہ خلافت عثمانی کے دور میں ۲۶ہجری میںسیدنا حسینؓ نے غزوہ طرابلس میں شرکت کی۔ طرابلس کے اس معرکہ کے امیر سیدنا عبداللّہؓ بن سعد بن ابی سرح، والی مصر تھے اور اس لشکر میں سیدنا عبداللّہؓ بن عباسؓ، عبداللّہ بن عمرؓ، عبداللّہ بن عمروؓ بن العاص، عبداللّہ بن جعفرؓ، عبداللّہ بن زبیرؓ، سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ بھی شامل تھے۔ ۳۰ہجری میں امیر کوفہ سیدنا سعیدؓ بن العاص کی امارت میں طبرستان، خراسان، جرجان وغیرہ کے علاقوں میں جو لشکر روانہ ہوا، اس میں دیگر اکابر صحابہ کرامؓؓ کے ساتھ سیدنا حسینؓ بھی شریک ہوئے۔ اسی طرح سیدنا عثمانؓ نے جو فوج افریقہ روانہ فرمائی، سیدنا حسینؓ اس میں بھی شامل تھے اور افریقہ فتح ہونے تک دشمنوں سے لڑتے رہے۔ مفسدین نے جب امیرالموُمنین سیدنا عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کرلیا تو سیدنا علیؓ کے حکم پر امیرالموُمنین کی حفاظت کے لیے سیدنا حسینؓ بھی شمشیر بکف ہو کر دیگر صحابہؓ کے ساتھ امیرالمومنین کے دروازہ پر پہرہ دیتے رہے۔ سبطلہ کے حاکم جرجیر کی ڈیڑھ لاکھ فوج سے جہاد کیا اور فتح مند ہوئے۔ قفصہ کی جنگ میں بھی تلوار کے جوہر دکھائے اور کامران رہے، بعدازآں قلعہ اجم کے محاصرے میں بھی سیدناحسینؓ کا برابر حصہ تھا۔ سیدنا حسینؓ بہت سی مغربی جنگوں میں بھی شامل رہے۔ علاوہ ازیں خراسان، قومس، نہاوند، جرجان، طمیسہ، بحیرہ، دہستان اور ایسی متعدد جنگوں میں سیدنا حسینؓ نے شرکت فرمائی اور اللّہ تعالیٰ نے ان تمام جنگوں میں مسلمانوں کو فتح و نصرت سے ہم کنار کیا۔ اسی طرح سیدنا حضرت حسینؓ جہادِ افریقہ و بلادِ روم کے معارک میں بھی شریک ہوئے۔اسی طرح مدینۂ قیصر کے جہاد میں بھی دیگر صحابہ کرامؓ کے ساتھ شریک ہوئے، اسی مہم میں میزبان رسول سیدنا ابوایوب انصاریؓ کا انتقال ہوا۔ الغرض حضرت حسینؓ بن علیؓ کی ساری زندگی دین اسلام کی خدمت و اشاعت و جہاد میں گزری۔ سیدنا حسینؓ اپنے بڑے بھائی سیدنا حسنؓ سمیت امیرالمومنین سیدنا معاویہؓ سے ملنے شام جایا کرتے تھے۔ امیرالمؤمنین سیدنا معاویہؓ ان دونوں کو بڑی محبت و شفقت سے ’’مرحبا، اھلاً و سہلاً‘‘ کہہ کر ملتے اور انہیں ہدایا و عطیات دیا کرتے تھے جنہیں یہ حضرات بخوشی قبول فرماتے۔ جناب علی ہجویری، لاہوری رحمۃاللّہ علیہ کشف المحجوب میں لکھتے ہیں کہ سیدنا حسینؓ کی خدمت میں ایک مرتبہ ایک شخص نے سوال کیا تو آپؓ نے فرمایا کہ ٹھہرو ہمارا وظیفہ پہنچنے والا ہے۔ کچھ ہی دیر میں ایک شخص امیرالمومنین معاویہؓ کی جانب سے حاضر بہ خدمت ہوا اور ایک ایک ہزار درہم پر مشتمل پانچ عدد تھیلیاں پیش کیں اور کہا کہ امیرالمومنین نے کہا ہے کہ معذرت کے ساتھ یہ تھوڑی سی مقدار ہے، اسے خرچ کیجیے۔ سیدنا حسینؓ نے یہ سب اس سائل کو مرحمت فرما دیں۔ سیدنا حسینؓ غرباء و مساکین کی حتی المقدور مدد کرنے والے اور ذکرالٰہی و نفل عبادت میں مشغول رہنے والے تھے۔ آپؓ مسجد نبوی میں ذکر و فکر کی دینی مجلس قائم کرتے تھے۔ ایک مرتبہ سیدنا معاویہؓ نے ایک قریشی کو کسی ضرورت سے مسجد نبوی بھیجا اور اسے آگاہ کیا کہ اگر تمہیں وہاں ایسا حلقہ نظر آئے کہ جو ایسے سکون و اطمینان سے بیٹھا ہے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں تو جان لینا کہ یہ حلقہ سیدنا حسینؓ کا ہے اور وہ نصف پنڈلی تک تہبند باندھے ہوں گے۔ سیدنا حسینؓ نماز کے بہت پابند تھے، آپؓ ہر خلیفہ و امیر کی اقتداء میں نماز با جماعت ادا کرتے تھے۔ ماہ صیام میں سیدنا حسینؓ تلاوت قرآن کرتے اور مکمل کرتے۔ سیدنا حسینؓ نے پچیس حج پیدل ادا کیے۔ سیدنا معاویہؓ کے انتقال کے بعد سیدنا حسینؓ کو ایک مرتبہ دیکھا گیا کہ حجاج کرام کو زمزم پلانے میں مشغول ہیں کہ اقامت ہونے لگی تو نماز کے لیے جا کھڑے ہوئے۔ سیدنا حسینؓ مہندی اور سیاہی مائل خضاب سے بال رنگا کرتے تھے۔ سیدنا حسینؓ ۱۰ محرم الحرام، ۶۱ ہجری کو اپنے رفقاء کے ساتھ مقام کربلا پر انتہائی مظلومانہ طور پر شہید کیے گئے۔ اللّہ پاک قاتلانِ حسینؓ کو رسوا کرے۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں حضرت سیدنا حسینؓ کی حیاتِ مبارکہ کو مشعلِ راہ بنانے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے، اٰمین!
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل