Sunday, July 06, 2025
 

معاشی جنگ جیتنے کا چیلنج

 



سات مئی سے قبل عالمی سطح پر پاکستان کی اہمیت نہ ہونے کے برابر تھی لیکن تین چار دن کی لڑائی میں دنیا کی سب سے بڑی افواج رکھنے والی اور پانچویں بڑی معاشی قوت کو منہ توڑ جواب دینے پر پاکستان عالمی سطح پر قابل ذکر عسکری طاقت بن کر ابھر آیا۔ اکلوتی سپرپاور ، امریکہ کے صدر نے پاکستانیوں کو ذہین وباصلاحیت قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ پاکستان سے تجارت میں اضافہ ہو گا۔ ان چار دن کے دوران وطن عزیز میں قومی یک جہتی نے جنم لیا اور مایوسی کے بادل چھٹ گئے۔ پاکستانی قوم کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوا۔ نئی امنگوں نے جنم لیا۔ یہ تاریخ ساز ، خوش آئند اور اْمید افزا انقلاب لانے میں پاکستان کی سول وملٹری قیادت نے بھرپور ومتحرک کردار ادا کیا جس پر وہ مبارک باد کی مستحق ہے۔ میدان جنگ میں بھارت سے تو فتح مل گئی مگر پاکستان اب بھی ایک اور موذی دشمن…معاشی مسائل سے نبردآزما ہے۔ وطن عزیز کو اب معاشی فتح ، معاشی انقلاب کی اشد ضرورت ہے تاکہ کمزور معیشت طاقتور بنائی جا سکے۔ یہ عیاں ہے ، ہم اپنی عسکری قوت اسی صورت برقرار رکھ سکتے ہیں جب معاشی طور پر بھی مضبوط ہو جائیں۔یہ امر شرطِ اول کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ ہماری قیادت مل جل کر، باہمی مشورے سے ایک جامع و مربوط معاشی پروگرام ترتیب دے کہ حالیہ عسکری فتح اور جنم لیتی مثبت قومی و بین الاقوامی تبدیلیوں سے معیشت ِ پاکستان کو توانا و مضبوط بنانے کے جو سنہرے مواقع مل رہے ہیں، ان سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔ یہ منصوبہ تشکیل دینے میں حزب اختلاف کی شمولیت اْسے قومی و اجتماعی نوعیت دے کر اس کی اہمیت دوچند کر دے گی۔  حکومت ِ وقت نے پچھلے ایک سال میں معیشت سدھارنے کے لیے اقدامات کیے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے ، عام آدمی کی حالت زار میں نمایاں تبدیلی نہیںآسکی۔ لہذا مجوزہ معاشی پروگرام ان خطوط پر استوار کیا جائے کہ ترقی وبڑھوتری کے ثمرات سے عوام پاکستان بھی مستفید ہوں۔عام آدمی کا معیار زندگی بلند کر کے ہی ہمارا دیس حقیقی معاشی ترقی پا سکتا ہے۔ معاشی مسائل کیوں پیدا ہوئے؟ پاکستان کبھی جنوبی ایشیا میں ابھرتی ہوئی معاشی طاقت تھا مگر آج خود کو علاقائی سیڑھی کے نیچے کھڑا پاتا ہے۔صرف پچاس سال پہلے پاکستانی کی اوسط آمدنی اس کے جنوبی ایشیائی ساتھیوں سے زیادہ تھی۔ آج وہ تقریباً نصف کما پاتا ہے۔ کیا غلط ہوا اور خرابیاں درست کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ہماری معاشی مشکلات کی جڑیں دہائیوں پرانی ہیں۔ بڑھتی آبادی اور ناقص معاشی انتظام نے اپنے پڑوسیوں ، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے مقابلے میں ملکی بچت اور سرمایہ کاری کی صلاحیت کو ختم کر دیا۔ پاکستانی قوم معیار زندگی، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم میں پیچھے رہ گئی۔ ایک بڑا مسئلہ آبادی میں بہ سرعت اضافہ ہے۔ پاکستان کی آبادی پچھلے پچاس سال میں چار گنا بڑھ چکی۔نتیجہً اب قومی آبادی کا بڑا حصہ کام نہ کرتے افراد پر مشتمل ہے اور اسی باعث بیشتر خاندان بچت نہیں کر پاتے۔یوں قومی سرمایہ کاری محدود ہو کر رہ گئی۔بھارت اور بنگلہ دیش میں کام کرتے لوگوں کا تناسب زیادہ ہے جو تیز رفتار معاشی ترقی میں معاون بنتے ہیں۔پاکستان میں بھی افرادی قوت بڑھ جائے تو ملکی بچت کی شرح10فیصد زیادہ ہو سکتی ہے۔اور مذید بچت کا مطلب ہے: زیادہ سرمایہ کاری اور تیز ترقی۔  آبادی واحد مسئلہ نہیں ، پاکستان پرانی سرکاری پالیسیوں کی غلطیوں سے بھی دوچار ہے۔ سبھی حکومتوں نے بار بار اپنے وسائل سے زیادہ خرچ کیا جس سے قرضوں میں اضافہ ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ سود کی ادائیگی اس حد تک بڑھ چکی کہ وہ اب حکومتی آمدن کا60 فیصد کھا جاتی ہے۔ اس طرح صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر پر خرچ کرنے کی بہت کم گنجائش رہتی ہے۔یاد رہے، جب 1988ء میں جنرل ضیا الحق حادثے میں جاں بحق ہوئے تو پاکستان پر کل (اندرونی وبیرونی) قرضہ صرف 50 ارب روپے تھا۔آج وہ تقریباً 76ہزار ارب روپے ہو چکا۔ زرمبادلہ کی قلت نے بھی بار بار معاشی بحران کو جنم دیا۔ پاکستان کو بیس سے زائد مرتبہ آئی ایم ایف ( انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) سے رجوع کرنا پڑا۔ تازہ ترین معاشی بحران کوویڈ وبا کے دوران شروع ہوا اور روس۔یوکرین جنگ کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافے سے مزید شدید ہوگیا۔ ایک موقع پر پاکستان کے پاس صرف دو ہفتوں کی درآمدات کے لیے ڈالر رہ گئے تھے۔ 2023 ء میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے ایک اور بیل آوٹ حاصل کیا۔ اس پروگرام نے بین الاقوامی قرض دہندگان کے رول اوور قرضوں نیز تیل کی گرتی قیمتوں کے ساتھ معیشت مستحکم کرنے میں مدد کی۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کچھ بہتری آئی، افراط زر کم ہوا اور روپیہ مستحکم ہوگیا۔ تاہم آئی ایم پروگرام ٹیکسوں میں تیزی سے اضافے اور اخراجات کی سخت حدود کا مطالبہ کرتا ہے … ایک ایسا عمل جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ معاشی ترقی روکتا اور سماجی مسائل بڑھاتا ہے۔ اس کے بجائے مختلف معاشی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو رفتہ رفتہ لیکن گہری ٹیکس اصلاحات کرے اور صحت، خاندانی منصوبہ بندی اور تعلیم میں سرمایہ کاری بڑھانے کو ترجیح دے۔عوام کی ان خدمات تک رسائی بہتر بنانے سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور آبادی میں اضافہ سست کرنے میں مدد ملے گی۔ بچت اور سرمایہ کاری کے لیے مزید وسائل میسّر آئیں گے۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ تیز رفتار اقتصادی ترقی جنم لے گی۔ ٹیکسوں کا نظام  وقت کا تقاضا ہے کہ ہر پاکستانی اخلاق و قانون کے مطابق اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرے۔ فی الحال صرف ایک تا دو فیصد پاکستانی ہی انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں اور حکومتی آمدنی کی وصولیاں ،جی ڈی پی کا تقریباً بارہ فیصد، دنیا بھر میں سب سے کم ہیں۔پاکستانی معیشت کے اہم حصّے، زراعت، ریٹیل اور رئیل اسٹیٹ موثر طور پر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ کوئی ملک اس طرح نہیں چل سکتا! لہذا ٹیکس اصلاحات کا مقصد اگلے پانچ سال میں جی ڈی پی کا اضافی چھ فیصد بڑھانا ہونا چاہیے۔ اگر یہ حاصل ہو جائے تب بھی پاکستان بہ لحاظ ٹیکس وصولی تمام ممالک میں سب سے کمتر سطح پر ہوگا۔ سّکے کا دوسرا رخ یہ ہے، پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام غیر منصفانہ ہے۔ قرضے اتارنے اور ان کا سود دینے کے لیے حکومتیں نئے ٹیکس لگا رہی ہیں نیز ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس طرح ٹیکس دہندگان پر مذید مالی بوجھ ڈال دیا گیا جبکہ ٹیکس چور پکڑنے پر توجہ زیادہ نہیں۔ درحقیقت پاکستان میںناقص ٹیکس نظام مہنگائی کو جنم دینے والا سب سے بڑا عمل بن چکا۔ کاروباری اداروں کے لیے بھی یہ نظام پیچیدہ ،اخراجات بڑھانے اور وقت ضائع کرنے والا ہے،ایک ایسا امر جو کم نمایاں ہوتا ہے۔اس باعث بھی ٹیکس چوری کو بڑھاوا ملتا ہے۔کئی عوامل کاروبار وتجارت پر ٹیکسوں کا مجموعی بوجھ بڑھا تے ہیں جن میں ادائیگیوں کی مطلوبہ تعداد، ان ادائیگیوں میں لگنے والا وقت، پیچیدہ ٹیکس کوڈز سمجھنے کے لیے ضروری وسائل اور ریٹرن فائل اور دستاویزی ذمے داریاں پورا کرنے کے لیے درکار کوششیں شامل ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ٹیکس آٹومیشن نے خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کے لیے ٹیکسوں کی تعمیل کا کام مشکل بنا دیا ہے۔ معروف مالیاتی کمپنی، کار انداز پاکستان کی ٹیکسیشن سے متعلق رپورٹ کے مطابق کمپنیوں کو انکم ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس اور سامان پر سیلز ٹیکس کے لیے 18 سالانہ گوشوارے فائل کرنے ہوتے ہیں۔سیلز ٹیکس کے لیے ماہانہ اور ودہولڈنگ اور انکم ٹیکس کے لیے سہ ماہی۔ سروسز (خدمات فراہم کرتی ) فرموں کو اس سے بھی زیادہ پیچیدگی کا سامنا ہے جو صوبائی سیلز ٹیکس کے لیے مختلف دائرہ اختیار میں سالانہ 61 تک ریٹرن فائل کرتی ہیں۔ پاکستان میں ایس ایم ایز کے لیے تعمیل ِ ٹیکس کی لاگت زبردست مالی بوجھ ہے جو براہ راست ٹیکس اکاونٹنٹس ملازمین کی تعداد سے منسلک ہے۔یہ بوجھ وقتی تعمیل کے عمل اور ٹیکس اکاونٹنٹوں کے لیے گھنٹہ وار فیس کی وجہ سے مزید بڑھ جاتا ہے۔تحقیق کی رو سے آڈٹ کے لیے ٹیکس اکاونٹنٹ کو ایک گھنٹہ ملازمت دینے والی فرم سالانہ اس کام پر بارہ تیرہ لاکھ روپے خرچ کرتی ہے۔  ضرورت سے زیادہ تقاضے اور اکاونٹنٹوں کی بلند فیسوں کی وجہ سے پاکستان میں ٹیکس فائلنگ کی لاگت علاقائی ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔پروفیشنلز کی عالمی کمپنی ، پی ڈبلیو سی (PricewaterhouseCoopers) کی Paying Taxes نامی رپورٹ عیاں کرتی ہے، پاکستان میں کاروباری ادارے تعمیل ِ ٹیکس کی سرگرمیوں پر سالانہ 283 گھنٹے وقف کرتے ہیں جبکہ عالمی اوسط 108 گھنٹے ہے۔  ٹیکس ادا کرنے والے سکور( Score Paying Taxes ) میں پاکستان کی درجہ بندی بہت ناقص ہے. اس طریق پیمائش میں دورانِ کاروبار ٹیکسوں کی تعمیل کی مجموعی لاگت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ 161 کے رینک کے ساتھ پاکستان اپنے ہم عصروں میں سب سے نیچے کھڑا ہے۔اس سے عیاں ہے، پاکستان میں تعمیلِ ٹیکس کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اور ٹیکسوں کا نظام بھی پیچیدہ ہے۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش اپنے پیچیدہ ٹیکس نظام کی ضروریات کے باوجود اس درجہ بندی میں ہم سے بہتر ہے۔یہ خراب درجہ بندی غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتی اور کاروباری ماحول کمزور کرتی ہے۔ چھوٹی فرمیں بڑے کاروباری اداروں کی نسبت زیادہ چیلنجوں کا سامنا کرتی ہیں کہ ان کے پاس عموماً ٹیکس کے مخصوص افعال آوٹ سورس کرنے کوکم رقم کمی ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایس ایم ایز کی کارکردگی بڑھانے کے بارے میں مسابقتی کمیشن آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک کا ریگولیٹری ماحول پیچیدہ ہے جس میں کاروباری اداروں کو کم از کم ۱۲ عام ریگولیٹری تہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غیر ملکی فرمیں تو چار اضافی عمل برداشت کرتی ہیں۔ ’’50‘‘ سے زیادہ قوانین و ضوابط جنھیں چالیس بیالیس سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے، مینوفیکچرنگ سیکٹر کے لیے مسلسل بوجھ بن چکے۔ رپورٹ کی رو سے یہ پیچیدگی رشوت خوری کی حوصلہ افزائی کرتی اور نجی سرمایہ کاری کو روکتی ہے۔ غرض وطن عزیز کے ٹیکس نظام کو آسان بنانا ضروری ہے۔ آسانیاں مہیا کرنے سے نہ صرف نئے کاروباری ادارے جنم لیں گے بلکہ مزید پاکستانی ٹیکس نیٹ میں آئیں گے اور حکومت کی آمدن بڑھ جائے گی۔حکومت کو بھی چاہیے کہ اپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی لائے اور غیر ضروری خرچے ختم کر دے۔مثلاً جو سرکاری ادارے خسارے میں چلتے ہوئے سفید ہاتھی بن چکے، ان سے چھٹکارا پایا جائے۔ ان کو دی جانے والی سبسڈی تعلیم وصحت پر خرچ کر کے عوام پاکستان کا معیار زندگی بلند کرنا کیا زیادہ مفید عمل نہیں؟  ٹیکنالوجی کی اہمیت  جدید دنیا میں ٹیکنالوجی خوشحالی کا انجن بن چکی۔ اعلیٰ ٹیکنالوجی میں اعلی مہارت پانا اب عالمی تجارت، سیاست اور عسکری امور میں غلبہ پانے کے مترادف ہے۔ سائنس وٹکنالوجی میں جدت، تحقیق اور ترقی ہی نے امریکہ، چین اور جنوبی کوریا کی معاشی ترقی و خوشحالی کوآگے بڑھایا۔اسی طرح سنگاپور کی تکنیکی سرمایہ کاری ترقی کی کلید بن گئی۔ تکنیکی ترقی سے پاکستان بھی اپنی معیشت کی تشکیل نو کر کے تجارت میں اضافہ اور اپنی خوشحالی بحال کر سکتا ہے۔ تعلیم پر مبنی معیشت بھی ترقی کا طریق کار ہے۔ جنوبی کوریا نے 1960 ء کی دہائی میں یونیورسل پرائمری اور سیکنڈری تعلیم میں سرمایہ کاری کی تھی۔ نتیجے میں ہنر مند افرادی قوت پیدا ہوئی جو صنعتی اور تکنیکی ترقی آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستانی تعلیمی اداروں کے نصاب میں تنقیدی سوچ، مسائل کے حل اور اختراعات کو ترجیح دینے کی خصوصیات موجود ہونی چاہیں اور جس کے لیے بڑے اپ ڈیٹ کی ضرورت ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین میں ملازمتوں تک بہتر رسائی پاکستان کو آبادیاتی تبدیلی حاصل کرنے میں مدد دے گی جیسا کہ بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں دیکھا گیا ہے۔  زرعی انقلاب بھی پاکستان کو برآمدات پر مبنی معیشت میں تبدیل کر سکتا ہے۔ پاکستان کا زرعی شعبہ جو 36 فیصد افرادی قوت کو ملازمت دیتا ہے، جی ڈی پی میں صرف 18 سے 25 فیصد کا حصّہ ڈالتا ہے۔ یہ حقیقت کم پیداواری صلاحیت ظاہر کرتی ہے۔ زرخیز زمین، وافر پانی ، نوجوان آبادی، سمارٹ فارمنگ، بہتر کولڈ اسٹوریج اور زرعی تحقیقی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھا کر پاکستان ایک زرعی پاور ہاوس بن سکتا ہے۔  ترقی کے نئے مواقع قبل ازیں بتایا گیا،امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت بڑھانے کا عزم کیا ہے۔اس ضمن میں پاکستانی حکومت کو اپنی برآمدات بڑھانے کے لیے واضح حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔امریکہ کے ساتھ ہماری دو طرفہ تجارت صرف’’0.17 فیصد‘‘ ہے ، بنگلہ دیش جیسے ہم عصروں سے بھی کافی پیچھے۔اس عدد کو محض 1 فیصد تک پہنچانے سے پاکستان کی برآمدات میں چھ گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔اس سلسلے میں ضروری ہے کہ علاقائی حریفوں کے ساتھ مسابقت ختم کرنے کے لیے کم قیمت والے ملبوسات سے بڑھ کر انجینئرنگ اشیا، ادویہ اورآئی ٹی سروسز جیسے اعلیٰ قدر والے شعبوں میں داخل ہوا جائے۔ چین بھی اپنی ترجیحات دوبارہ ترتیب دے رہا ہے۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات پر ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس کرانے کے بعد صدر شی جن پنگ نے ویتنام، ملائیشیا اور کمبوڈیا سمیت علاقائی ممالک کے دورے کیے جس کا مقصد اقتصادی انضمام گہرا کرنا ہے۔ چین نے پھر برازیلی صدر اور لاطینی امریکی ممالک کے دیگر اعلیٰ حکام کی میزبانی کی تاکہ ان کے ساتھ جاری تجارتی و صنعتی تعاون، انفراسٹرکچر منصوبوں اور ٹیکنالوجی کی شراکت داری کو بڑھایا جا سکے۔ پاکستان نے 2006 ء میں چین کے ساتھ ایک آزاد تجارتی معاہدے (FTA) پر دستخط کیے تھے۔ وہ یہ عمل اپنانے والے ابتدائی ممالک میں سے ایک تھا۔ تاہم ویتنام اور تھائی لینڈ جیسے ہم مرتبہ ممالک کے برعکس پاکستان اپنے مستقل تحفظ پسندانہ(Protectionist) موقف کی وجہ سے چین کے معاشی عروج سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا۔ جب دوسرے ملکوں نے اقتصادی انضمام گہرا کیا اور اپنی مارکیٹیں کھول دیں، پاکستان نے اپنی معیشت کو تیزی سے معاشی ترقی کرتے پڑوسی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا بڑا اہم موقع گنوا دیا۔ یورپی یونین کے ساتھ ترکی کا معاشی تجربہ ہمارے لیے قیمتی سبق رکھتا ہے۔ 1996ء میں یورپی یونین کے ساتھ کسٹمز یونین میں داخل ہونے اور تیار کردہ اشیا پر محصولات ختم کرنے کے بعد ترکی نے اپنا تجارتی منظر نامہ تبدیل کر لیا۔ 2023 ء تک یورپی یونین کے ساتھ ترکی کی دو طرفہ تجارت تقریباً 206 ارب یورو تک پہنچ گئی۔جبکہ یورپی یونین کو ترکی کی برآمدات 111 ارب یورو تک بڑھ گئیں۔یورپی یونین میں اب ترکی کی برآمدات کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ جاتا ہے جس میں موٹر گاڑیاں، مشینری اور برقی آلات جیسے اعلیٰ قیمت والے سامان شامل ہیں۔ اسی طرح جب میکسیکو نے 1994ء میں نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ (نافٹا) میں شمولیت اختیار کی، تو وہاں ایک بڑا برآمدی انقلاب آ گیا۔ اس کی برآمدات جو 1993 ء میں 51 ارب ڈالر تھیں، بڑھ کر 2023 ء میں594 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ تیل اور زرعی مصنوعات جیسے خام مال سے آگے بڑھتے ہوئے میکسیکوآٹوموبائل، الیکٹرانکس اور مشینری سمیت اعلیٰ قیمت کے تیار کردہ سامان برآمد کرنے لگا۔ امریکیوں نے میکسکو میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی اور دونوں ممالک کے مابین سپلائی چین کا انضمام کر دیا۔اس عمل سے میکسیکو میں صنعتی ارتقا نے جنم لیا۔ میکسیکو کی اشیا بڑے پیمانے پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ برآمد ہونے لگیں۔ یوں دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کی گہرائی آ گئی۔ درج بالا مثالیں یہ امر نمایاں کرتی ہیں کہ بڑے شراکت دار ممالک کے ساتھ گہرا معاشی انضمام صنعتی ترقی، سرمایہ کاری اور برآمدات کو عظیم حد تک بڑھا سکتا ہے۔ ترکی یا میکسیکو کے برعکس پاکستان نے نہ صرف بڑے پیمانے پر اشیائے صرف پہ محصولات برقرار رکھے ہیں بلکہ چینی درآمدات کی وسیع رینج پر ریگولیٹری اور دیگر ڈیوٹیاں بھی عائد کی ہیں۔ آج چین اپنی مینوفیکچرنگ بیس کے کچھ حصّے ساتھی ممالک میں فوری طور پر منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔اس صورت حال میں پاکستان کے پاس معاشی ترقی کا ایک نیا موقع ہے۔ اسے روابط بڑھنے کے خطرات سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ فعال طور پر انھیں بڑھا کر فائدہ اٹھائے۔ورلڈ بینک کی ایک حالیہ تحقیق اس عمل کو تقویت دیتی ہے جس کی رو سے پاکستان نے جب بھی درآمدی محصولات میں کمی کی، وہیں اس نے ان پٹ لاگت کم کرکے برآمدی مسابقت کو بڑھایا اور وسائل کم مسابقتی شعبوں سے دور منتقل کرنے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ اب جب عالمی تجارتی انداز بدل رہا ہے اور بڑی طاقتیں اپنے اقتصادی اتحاد درست کر رہی ہیں، ایسے میں پاکستان اہم دوراہے پر کھڑا ہے۔ دنیا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔معاہدوں پر دستخط کیے جا رہے ہیں، سپلائی چینز منتقل ہو رہی ہیں اور نئے شعبے ابھر رہے ہیں۔اگر پاکستان ایک بار پھر پیچھے رہ جانے سے بچنا چاہتا ہے تو اسے فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے: پرانی تحفظ پسند پالیسیاں ختم کرنا، چین اور امریکہ جیسے اہم شراکت داروں کے ساتھ اسٹریٹجک تجارتی معاہدوں پر عمل کرنا اور اعلیٰ قدر والے برآمدی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا۔ مواقع کی کھڑکی کھلی ہے لیکن غیر معینہ مدت تک نہیں۔ آج کے جرات مندانہ، آگے کی سوچ رکھنے والے پالیسی اقدامات اس بات کا تعین کریں گے کہ آیا پاکستان ابھرتے عالمی تجارتی آرڈر میں اہم کھلاڑی بنتا ہے یا پھر اسی طرح کنارے پر کھڑا رہ جائے گا جیسا کہ ہوتا آیا ہے۔ معاشی منصوبے کے خدوخال پاکستان کو اب بھی ایک روایتی ساختی تبدیلی سے گزرنا ہے جو معاشی ترقی کا اہم محرک ہے…یعنی معاشی سرگرمیوں کو کم پیداواری سے اعلیٰ پیداواری شعبوں میں منتقل کرنا۔ یہ عمل اختیار کرتے پہلے وسائل کو زراعت سے ٹیکسٹائل میں منتقل کیا جاتا ہے۔اس کے بعد الیکٹرانکس اور مشینری مینوفیکچرنگ جیسی جدید صنعتیںآتی ہیں۔ تاہم گزشتہ دہائی کے دوران ٹیکسٹائل کی برآمدات میں پاکستان کا عالمی منڈی میں حصّہ خاص نہیں بڑھا۔ہمارے الیکٹرانکس اور مشینری کے شعبوں نے بھی ترقی نہ کی جس سے مجموعی آمدنی میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران پاکستانی برآمدات کی نمو بنیادی طور پر ٹیکسٹائل سیکٹر کی وجہ سے ہوئی۔ وجہ یہ ، عالمی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں پاکستان کا حصّہ پہلے کی نسبت بڑھ گیا۔ پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے نئی اور متنوع مصنوعات برآمد کرنا ضروری ہے۔ 2007ء سے پاکستان نے 25 نئی مصنوعات متعارف کروائی ہیں جن سے 2022ء تک فی کس آمدنی میں 10ڈالر کا اضافہ ہوا۔گو ملک نے کامیابی کے ساتھ تنوع پیدا کیا مگر ان نئی مصنوعات کا پیداواری پیمانہ آمدن میں نمایاں اضافہ نہ کر سکا۔ بڑھتی آبادی، غربت میں اضافہ، بڑھتا ہوا قرض اور اس کا سود ، ٹیکسوں کا غیر منصفانہ نظام اور ترسیلات زر، ٹیکسٹائل، زراعت اور اجناس کی برآمدات پر تاریخی انحصار طویل مدتی طور پر قومی معیشت کو فروغ نہیں دے سکتا۔ ضروری ہے کہ ہم ان ممالک کی مثالوں سے سبق حاصل کریں جنھوں نے معاشی کامیابیاں پائیں اور ترقی یافتہ و خوشحال بننے میں کامیاب رہے۔ ان ملکوں کی کامیابی کا راز یہ عوامل بتائے جاتے ہیں: ٭… اول صنعت کاری اور تکنیکی ترقی نے اہم کردار ادا کیا۔ بہت سی ابھرتی معیشتوں میں ان قوتوں نے روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے اور تعلیم تک رسائی کو بڑھایا جس سے متوسط طبقے کو ترقی کرنے میں مدد ملی۔ ٭… دوم ایک ملک کی برآمدی معیشت کا تنوع و پیچیدہ پن علمی اساس اور مہارت کے مضبوط اشارے ہیں۔ ملکی اعلیٰ قیمتی اشیا اور خدمات کی پیداوار اور برآمد ی صلاحیت اس کی تکنیکی صلاحیتوں، صنعتی نفاست اور خصوصی مہارتوں کی عکاسی کرتی ہے۔یہ عمل انسانی سرمائے کے سادہ اقدامات سے بالاتر ہیں۔ ٭…سوم جو معیشتیں محدود قدرتی وسائل پر انحصار کریں ،وہ معاشی عدم استحکام اور سیاسی بدعنوانی کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ وسائل پر منحصر قومیں اکثر حکمرانی کے چیلنجوں سے نبرد آزما رہتی ہیں جس سے پائیدار معاشی ترقی حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ٭… چہارم ایک ملک کی معیشت کا ڈھانچہ خواہ رسمی ہو یا غیر رسمی، ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ منظم معیشتوں میں واضح قانونی اور ادارہ جاتی فریم ورک شفافیت، مسابقت اور انصاف پسندی کو فروغ دیتا ہے۔ کمزور فریم ورک والے ممالک میں غیر رسمی معیشت پروان چڑھتی ہے جس سے بلیک مارکیٹ اور غیر رجسٹرڈ کاروبار جنم لیتے ہوتے ہیں۔ غیر رسمی منڈیاں شہریوں کو قلیل مدتی ریلیف فراہم کر سکتی ہیں، وہ بالاآخر ٹیکس آمدن میں کمی، سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی اور عدم مساوات کو تقویت دینے سے معاشی ترقی متاثر کرتی ہیں۔ ٭…پنجم قومی اداروں کی مضبوطی شاید طویل مدتی معاشی کامیابی کا اہم ترین عنصر ہے۔ یہ ادارے سیاسی، معاشی اور سماجی ذمے داریوں کے سلسلے میں "کھیل کے اصول" تشکیل دیتے ہیں۔ مغربی ماہر اقتصادیات، ڈگلس نارتھ کے مطابق مضبوط قومی ادارے ایسے فوائد دیتے ہیں جو غیر یقینی صورتحال دور اور کارکردگی میں اضافہ کرتے ہیں جس سے معاشی ترقی ہوتی ہے۔ یہ ادارے وسیع قانونی اور ریگولیٹری نظام سے لے کر مخصوص میکانزم جیسے آزاد مرکزی بینک، متوازن بجٹ کے قوانین اور تجارتی معاہدے تک، ہر جگہ معاشی استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے اور مملکت کو معاشی قوت بنا دیتے ہیں۔ حکومت پاکستان اور قوم مل کر درج بالا معاشی پروگرام پر عمل پیرا ہوں تو ترقی وخوشحالی پانا چند برس میں ممکن ہے۔ یہ خدشہ ہے، جن مافیاز اور کاروباری گروہوں کے موجودہ کرپٹ حکومتی نظام سے مفادات وابستہ ہیں اور جو اِس سے مستفید ہو رہے ہیں، وہ ایک منصفانہ و قانونی معاشی نظام لاگو کرنے میں شدید مزاحمت کریں گے۔ ان گروہوں کا مقابلہ کرتے ہوئے لیڈرشپ کو ویسی ہی حکمت عملی، دلیری اور قوت برداشت دکھانا ہو گی جو میدان جنگ میں بھارت کا مقابلہ کرتے ہوئے دکھائی گئی۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل