Sunday, July 06, 2025
 

وادئی یارخون سے آگے ؛  کرومبر جھیل کا دل چسپ سفرنامہ (پہلی قسط)

 



طے پایا کہ ہم کرومبر جھیل کا ٹریک چترال کی جانب سے کریں گے۔ لیکن اس منصوبے میں ایک دل چسپ اضافہ یہ ہوا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ اس ٹور میں بائیک بھی استعمال کی جائے گی اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی، جبکہ آخری مرحلے میں، یعنی لشکر گاز سے آگے، خالص ٹریکنگ کی جائے گی۔ اس لحاظ سے یہ ایک منفرد اور نسبتاً کم خرچ ٹور بننے والا تھا۔ چوںکہ میں ان دنوں لاہور میں مقیم ہوں جب کہ بڑے بھائی راشد اسرار اور غلام قادر کو فیصل آباد سے آنا تھا، اس لیے طے ہوا کہ میں لاہور سے بائیک سمیت بس کے ذریعے تیمرگرہ پہنچوں گا اور وہ دونوں حضرات فیصل آباد سے وہیں پہنچیں گے۔ میری ایک پرانی کم زوری ہے کہ سفر سے کئی دن پہلے ضروری اشیاء کی فہرست تو بنا لیتا ہوں، لیکن اس پر عمل بہت سستی سے کرتا ہوں۔ حتیٰ کہ آخری دن آجاتا ہے اور تیاری بھاگ دوڑ میں مکمل ہوتی ہے، اور نتیجتاً ہمیشہ کوئی نہ کوئی اہم چیز رہ جاتی ہے۔ اس بار بھی ایک معمولی مگر اہم چیز رہ گئی، جس کا نقصان آگے جا کر ہوا۔ لاہور سے بس میں اپنی سیٹ ایڈوانس بک کروا لی تھی۔ سیٹ تو مل گئی، لیکن بائیک کے متعلق بتایا گیا کہ اس کے چارجز موقع پر وصول کیے جائیں گے۔ مجھے صرف یہ فکر تھی کہ بھائی لوگوں کو کوئی مسئلہ نہ ہو، کیوںکہ وہ آخری وقت پر ٹکٹ لیں گے، اور بعض اوقات ایک بس میں دو بائیکس رکھنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ روانگی کا دن آیا، اور میں حسبِ معمول بھاگ دوڑ میں تیاری مکمل کر رہا تھا۔ چند چیزیں باقی تھیں کہ نماز کے لیے مسجد چلا گیا۔ واپسی پر دیکھا کہ بچوں نے میرے سامان سے ’’کُشتی‘‘ کی ہے اور میری لسٹ غائب ہے۔ وقت کم تھا، اس لیے نئی لسٹ بنانے کا وقت نہ ملا۔ یادداشت کے سہارے سامان مکمل کیا، اور طے کیا کہ کچھ راشن آگے سے لے لیا جائے گا۔ بائیک پر سارا سامان—کیمپنگ، کوکنگ اور ٹن فوڈ وغیرہ—لوڈ کرتے کرتے خاصا وقت لگ گیا۔ اللّہ اللّہ کر کے بس اڈے کی طرف روانگی ہوئی۔ بس روانہ ہونے میں صرف ایک گھنٹہ رہ گیا تھا۔ یہ بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جتنے بھی میرے سفر بس سے شروع ہوئے، وہ ذلت سے خالی نہیں رہے۔ میرا کوئی بھی سفرنامہ اٹھا لیں، ابتدا کے ابواب میں یہی بھاگ دوڑ، رکاوٹیں اور مسئلے مسائل ہوتے ہیں۔ ٹھوکر نیاز بیگ سے لاری اڈا پہنچنے میں چالیس منٹ لگے۔ احمد ٹریولز پہنچا تو پتا چلا کہ بس کی ڈگی پہلے ہی سامان سے بھری ہے، اس لیے بائیک نہیں جاسکتی۔ میں جھنجھلا اٹھا کہ اگر پہلے ہی بائیک بک کر لیتے تو یہ مسئلہ نہ ہوتا۔ بہرحال، بتایا گیا کہ ایک گھنٹے بعد اگلی بس روانہ ہوگی، اس میں چلے جائیے۔ میں نے سوچا کہ فیصل آباد والے ساتھیوں سے پھر بھی پہلے پہنچ جاؤں گا، لہٰذا یہ آپشن قبول کرلیا۔ آدھے پونے گھنٹے بعد اگلی بس آگئی۔ کنڈکٹر نے کہا تھوڑا انتظار کریں، بائیک لوڈ کر دیتے ہیں۔ کچھ دیر بعد مینجر نے مجھے بلایا اور مضطرب چہرے کے ساتھ اطلاع دی کہ اس بس کی ڈگی بھی سامان سے بھری ہوئی ہے۔ غصہ تو بہت آیا، لیکن ضبط کیا۔ اس نے بتایا کہ ’’سپر تیمرگرہ‘‘ بس سروس دس بجے نکلتی ہے، ان کے پاس چلے جائیں، وہ لے جائیں گے۔ میں نے کہا کہ نیٹ پر تو نو بجے کا وقت لکھا تھا۔ کہنے لگا،’’اب دس بجے جا رہے ہیں۔‘‘ میں نے مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور مطلوبہ اڈے کی طرف نکل پڑا۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ بس نو بجے ہی جاچکی ہے اور اب پونے دس بج رہے ہیں۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ فیصل آباد والوں سے پوچھا، شاید وہ بھی رہ گئے ہوں، مگر انہوں نے بتایا کہ وہ روانگی سے کچھ منٹ پہلے ہی پہنچے تھے، بائیکس لوڈ کیں اور اب سفر پر ہیں۔ میری پریشانی دیکھ کر وہاں سوات جانے والی بس کے کنڈکٹر نے کہا:’’ہمارے ساتھ چلیں، چکدرہ اتار دیں گے، وہاں سے تیمرگرہ صرف چالیس کلومیٹر ہے، بائیک پر آسانی سے پہنچ جائیں گے۔‘‘ آپشن تو معقول تھا، مگر کرایہ کافی زیادہ مانگا۔ خیر، مجبوراً ٹکٹ لے لیا۔ انہوں نے کہا کہ بائیک سے سامان اتار لیں، پھر بائیک لوڈ کریں گے۔ جیسے ہی میں نے مشکل سے بندھا ہوا سامان نیچے رکھا، دیکھا کہ بس اڈے سے نکل کر دوڑ رہی ہے۔ میں حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔ تین سو میٹر دور جا کے بس رکی اور پکارنے لگے کہ بائیک لے کر آؤ۔ دو مسئلے تھے: ایک تو سامان وہیں بکھرا ہوا تھا، چوری کا اندیشہ تھا۔ دوسرا، بائیک کی پیٹرول کی ٹنکی خالی تھی۔ (نوٹ: بائیکر حضرات خیال رکھیں، جب بھی بائیک بس پر لوڈ کرنی ہو تو صرف اتنا پیٹرول ڈالیں کہ بائیک اڈے تک پہنچ جائے، کیوںکہ بس والے ٹنکی خالی کرواتے ہیں)۔ خیر، سامان وہیں چھوڑ کر بائیک پیدل لے گیا، اور لوڈ کروائی۔ پھر واپس بھاگا، سامان اٹھایا اور اطمینان ہوا کہ سب کچھ موجود ہے۔ اب نئی مشکل یہ تھی کہ سامان خاصا زیادہ تھا، اور ایک ہی بار میں اٹھا کر لے جانا تھا۔ رک سیک، سیڈل بیگز، ٹینٹ، ٹینک بیگ۔۔۔ کچھ ہاتھوں میں، کچھ گلے میں ڈالے، اور کوئی تیس چالیس کلو وزن لے کر ہانپتا کانپتا بس تک پہنچا۔ عجلت میں سامان لوڈ کیا اور پسینے سے شرابور ہو کر بس میں جا بیٹھا۔ نہ کچھ کھایا تھا، نہ کافی دیر سے واش روم جا سکا تھا۔ کنڈکٹر کی منت سماجت کر کے واش روم استعمال کیا، اور باقی ساری رات کا سفر بھوکے پیٹ ہی گزری۔ صبح چھے بجے کے قریب بس نے مجھے چکدرہ اتارا۔ بائیک نکالی، سامان اتارا تو ایک اور مصیبت سامنے آئی۔ سامان باندھنے والی ’’بنجیاں‘‘ (Bungee cord) غائب تھیں۔ لاکھ کہا کہ اچھی طرح ڈگی میں دیکھو، مگر کنڈکٹر صاف مکر گیا کہ ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی، اور بس لے کر روانہ ہو گیا۔ صبح چھے بجے بس والوں نے مجھے چکدرہ کے قریب اتارا اور غائب ہوگئے، جب کہ سامان باندھنے والی بنجیاں بھی ناپید تھیں۔ ایک تو مجھے اس سنسان سی جگہ پر اتارا گیا تھا اور دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ بنجیاں کوئی ایسی عام چیز نہیں جو ہر جگہ سے آسانی سے مل جائے۔ خیر، کچھ دیر بعد یاد آیا کہ ایک ایکسٹرا بنجی میں نے کسی بیگ میں رکھی تھی۔ تھوڑی تلاش کے بعد وہ برآمد کرلی۔ تین بنجیوں سے بندھا ہوا سامان ایک بنجی سے باندھنا کوئی آسان کام نہ تھا، لیکن اب اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ سامان باندھا اور اللہ کا نام لے کر آہستہ آہستہ چل پڑا۔ اب میرا ہدف تھا کہ کسی طرح اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ جاؤں، کیوںکہ مجھے معلوم تھا کہ بھائی راشد اسرار ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیتے ہیں۔ ماضی میں جب بھی کوئی افتاد آن پڑی—چاہے میری کسی بے وقوفی کے باعث ہی کیوں نہ ہو—ہمیشہ انہوں نے ہی مصیبت اپنے سر لی اور اسے دور کیا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ زیرتعمیر سڑک کے باعث ہر دس کلومیٹر پر سامان ایک طرف کو جھک جاتا اور مجھے اتر کر اسے دوبارہ باندھنا پڑتا۔ تیمرگرہ سے چند کلومیٹر دور ہی تھا کہ ایک بس کے زور دار ہارن پر مجھے سائیڈ لینا پڑی، اور جیسے ہی بس قریب سے گزری، میں نے دیکھا کہ بھائی راشد اور غلام قادر بس میں بیٹھے پرجوش انداز میں ہاتھ ہلا رہے ہیں۔ ان کا چہرہ دیکھ کر میرا کل سے گرا ہوا حوصلہ بحال ہوگیا۔ مزید ایک آدھ بار سامان باندھا اور آخرکار میں بھی ان کے پیچھے تیمرگرہ پہنچ گیا۔ بھائی راشد نے نہ صرف میرا کچھ سامان اپنی بائیک پر لوڈ کیا بلکہ ایک اضافی بنجی بھی دے دی، اور میرا سامان اپنے مخصوص ماہرانہ انداز میں باندھ دیا۔ وہ بنجیوں سے سامان باندھنے کی ایسی تیکنیک استعمال کرتے ہیں کہ جتنا بھی سامان ہو، شاید ہی اپنی جگہ سے ہلے۔ ایک بات اور بتاتا چلوں کہ ہمارے عمومی ٹورز میں بھائی راشد کے علاوہ تقریباً سب نہلے دھلے اکٹھے ہوتے ہیں۔ چلنے سے پہلے غلام قادر نے اعلان کیا کہ بائیک کا پیٹرول فراہم کرنے والا پلاسٹک کا چھوٹا سا پائپ، کسی دھینگا مشتی کے نتیجے میں، ٹوٹ چکا ہے۔ صبح کا وقت تھا، جمعے کا دن تھا، اور تقریباً سارا بازار بند تھا۔ ایک نئی مصیبت گلے پڑ گئی۔ بھائی راشد نے کہا: ’’میں بازار کی طرف جاتا ہوں، پائپ ڈھونڈ کے لاتا ہوں، تم بائیک کو پیٹرول پمپ پر لے چلو۔‘‘ غلام قادر بائیک گھسیٹتے ہوئے روانہ ہوا، اور دو منٹ بعد میں بھی اس کے پیچھے نکلا، مگر وہ کہیں نظر نہ آیا۔ حیرت ہوئی کہ وہ تو پیدل نکلا ہے، اتنی جلدی کہاں غائب ہوسکتا ہے؟ میں چوک تک گیا، لیکن وہ نہ دکھائی دیا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ دائیں طرف شہر کی طرف مڑ گیا ہوگا، چنانچہ میں بھی ادھر مڑ گیا، مگر پھر بھی کچھ پتا نہ چلا۔ پانچ منٹ بعد بھائی راشد واپس آ گئے۔ میں نے پوچھا، ’’پائپ کا کیا بنا؟‘‘ کہنے لگے، ’’موٹر سائیکلوں کی کوئی دکان تو کھلی نہیں، لیکن بلڈنگ میٹیریل والوں سے واٹر لیول چیک کرنے والا پائپ مطلوبہ سائز میں کٹوا لیا ہے، یعنی جگاڑ لگا لیا ہے۔‘‘ اب ہم چوک میں کھڑے ہو کر غلام قادر کا انتظار کرنے لگے۔ میں نے کال کی تو موبائل آف جا رہا تھا۔ بھائی راشد نے بتایا کہ جب رات کو بس میں بیٹھے تھے تو اس کے پاس صرف آٹھ فیصد بیٹری تھی، اور اس نے گھر کال ملائی اور تب تک سکون نہیں پایا جب تک بیٹری مکمل ختم نہ ہوگئی۔ ہم نے سوچا وہ پیٹرول پمپ پر ہی ہوگا۔ وہاں گئے، حلیہ بتایا، فلر نے پورے یقین سے کہا کہ اس نے یہاں سے پیٹرول ڈلوایا تھا اور دیر کی طرف چلا گیا ہے۔ ہمیں یقین نہ آیا کہ وہ اکیلا آگے کیسے جا سکتا ہے۔ فیصلہ ہوا کہ میں آگے جاتا ہوں، اور بھائی راشد پیچھے جا کر بازار میں اسے ڈھونڈتے ہیں۔ میں نے خاصی اسپیڈ سے بائیک دیر روڈ پر دوڑا دی۔ کچھ دیر بعد رک کر کال چیک کی۔ تقریباً تیس کلومیٹر آگے گیا، ایک دو جگہ پر لوگوں سے بھی پوچھا کیونکہ بائیکر اپنے مخصوص گیجٹس کی وجہ سے جلد پہچانے جاتے ہیں، مگر کوئی سراغ نہ ملا۔ ایک ہوٹل پر بائیک روکی، بھائی راشد سے رابطہ کیا۔ وہ کہنے لگے:’’میں نے تو چَپّا چَپّا چھان لیا، مگر وہ نہیں ملا۔ تم ادھر ہی رکو، میں بھی آ رہا ہوں، پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے۔‘‘ رات سے کچھ نہ کھایا تھا، دس بج چکے تھے، بھوک ستا رہی تھی۔ میں ناشتہ کرنے لگ گیا۔ کوئی آدھا گھنٹہ بعد بھائی راشد پہنچے، ان کے لیے بھی ناشتہ منگوایا۔ ہم غلام قادر کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔ مجھے غصہ آ رہا تھا کہ اگر ذرا سی عقل استعمال کرتا تو کہیں سے موبائل چارج کر کے ہمیں کال کرلیتا۔ آخر فیصلہ ہوا کہ جب تک وہ کال نہیں کرتا، ہم یہیں بیٹھ کر انتظار کرتے ہیں۔ باز اوقات دل میں خیال آتا کہ کہیں وہ کسی حادثے کا شکار نہ ہوگیا ہو۔ کوئی آدھے پونے گھنٹے بعد اس کے نمبر سے کال آئی۔ اس نے ’’ہیلو‘‘ کہا، ابھی بھائی نے پوچھا ہی تھا کہ ’’کہاں ہو؟‘‘ کہ کال کٹ گئی۔ کچھ سکون تو ملا کہ موصوف زندہ اور باہوش و حواس ہیں۔ دس پندرہ منٹ بعد دوبارہ کال آئی۔ پتا چلا کہ وہ اسی چوک میں کھڑا ہے جہاں سے گم ہوا تھا۔ اسے کہا گیا کہ سیدھا دیر روڈ پر آ جاؤ، مگر وہ گھبرایا ہوا تھا، کہنے لگا:’’مجھے واپس آ کر یہاں سے لے جائیں۔‘‘ بھائی راشد کو غصہ آگیا، کہنے لگے: ’’تم کوئی بچے ہو؟ سیدھا سیدھا راستہ ہے، خود ہی آجاؤ۔‘‘ ہم نے بائیکس بالکل سڑک کے کنارے کھڑی کر دیں تاکہ کسی طور بھی وہ ہم سے آگے نہ نکل جائے۔ آدھے گھنٹے کا سفر وہ ایک گھنٹے میں طے کرکے، بوکھلایا ہوا ہمارے پاس پہنچا۔ بلاوجہ کا ایڈونچر چار پانچ گھنٹے ضائع کرنے کے بعد ختم ہوا۔ اب جو کہانی سامنے آئی، وہ کچھ یوں تھی: غلام قادر اڈے سے پیدل نکلا، تھوڑا آگے جا کر موٹرسائیکل سٹارٹ کرلی کیوںکہ تھوڑا بہت پیٹرول کاربوریٹر میں موجود تھا۔ چوک سے سیدھا پیٹرول پمپ چلا گیا۔ میں جب پیچھے نکلا تو سمجھا وہ دائیں طرف بازار کی طرف گیا ہوگا، اور بھائی راشد سے آ ملنے کے بعد ہم دونوں چوک پہنچ گئے۔ اس دوران غلام قادر پیٹرول ڈلوا کر واپس اڈے پر جا چکا تھا۔ پیٹرول پمپ والے نے ہمیں گم راہ کیا کہ وہ دیر کی طرف چلا گیا ہے، جس پر میں آگے نکل گیا اور بھائی راشد احتیاطاً پیچھے بازاروں میں ڈھونڈنے لگے۔ وہ دو بار اڈے کے باہر تک بھی گئے، مگر غلام قادر اڈے کے اندر بیٹھا انتظار کرتا رہا کہ اسے وہاں سے لے جایا جائے گا۔ اسے ہمارے نمبر زبانی یاد نہ تھے، اور دو ڈھائی گھنٹے بعد اس کی عقل نے کام کیا کہ موبائل چارج کر کے کال کرے۔ رابطہ ہونے کے بعد بھی سخت پریشانی کے عالم میں آگے آیا کہ کہیں راستہ کسی اور طرف نہ مڑ جائے۔ ایک اور مصیبت یہ تھی کہ اس کے پاس جو موبائل تھا، وہ ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد بند ہوجاتا۔ تب مجھے یاد آیا کہ سات سال پہلے جب وہ ہمارے ساتھ کرومبر ٹریک پر آیا تھا، تب بھی ایسا ہی ایک ’’نمونہ‘‘ موبائل لایا تھا، جس کا اسپیکر خراب تھا، اور پھر لاؤڈر آن کرکے گھر سے آئی کال سنتا تھا۔ اور یہ تو ہمارے شادی شدہ بھائی جانتے ہی ہیں کہ لاؤڈر آن کر کے بیگم کی کال سننے سے ماحول میں کس قدر صوتی آلودگی پیدا ہو سکتی۔ ہم نے ناشتے کے دوران غلام قادر کو آئندہ گم ہونے سے بچانے کے لیے پلاننگ کی۔ میرے ذہن میں ایک ترتیب آگئی کہ سب سے آگے میں چلوں گا درمیان میں غلام قادر ہوگا اور آخر میں راشد بھائی ہوں گے۔ میری ایک عادت ہے میں مسلسل ایک ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ بائیک پر سفر نہیں کرتا۔ کسی نہ کسی بہانے رکتا ہوا جاتا ہوں کبھی چائے کے لیے کبھی نماز کے لیے کبھی کھانا کھانے کے لیے، لیکن آج کافی زیادہ وقت ضائع ہوچکا تھا اس لیے بغیر رکے ہی جا رہے تھے۔ ہمارے پلان کے مطابق آج ہمیں بونی تک پہنچنا تھا۔ ہم کوئی دو بجے لواری ٹنل تک پہنچ گئے۔ بائیکر حضرات کی معلومات کے لیے بتاتا چلوں کہ بائیک لواری ٹنل کے اندر سے چلا کر نہیں لے جاسکتے یا تو کسی لوڈر گاڑی پر لوڈ کر کے لے جا سکتے ہیں یا پھر لواری ٹاپ کے اوپر سے چلا کر جا سکتے ہیں۔ لواری ٹاپ سے بیس پچیس کلومیٹر زائد سفر کرنا پڑتا دشوار گزار بھی ہے اس لیے دو اڑھائی گھنٹے زیادہ وقت لگ جاتا۔ ہم نے ایک شہ زور والے سے بات کی جس نے فی بائیک چار سو روپیہ وصول کیا اور بائیک لوڈ کرنے لگا۔ اس میں دو بائیک رکھنے کی جگہ تھی تو اس نے پہلے بھائی راشد کی بائیک لوڈ کی اور پھر میری کرنے لگا تو غلام قادر کہنے لگا پہلے میری کرو، میں نے بھی کہا کہ پہلے اس کی کرلو لیکن پک اپ والا جو کہ پٹھان تھا، اس نے کہا تم لوگ چپ کرو۔ اس نے بڑی دو بائیکس آگے کھڑی کیں اور غلام قادر کی بائیک کا بس آگے والا ٹائر اوپر چڑھایا اور پیچھے سے ہوا میں معلق کردی۔ غلام قادر کی تو جان پر بن گئی، لیکن اس نے رسی سے خوب کس کے باندھ دی۔ میں اور غلام قادر ساتھ ہی کھڑے ہوگئے۔ پھر جو اس نے اندھیری ٹنل میں ڈال کر گاڑی دوڑائی۔۔۔ خدا کی پناہ، اور ساتھ میں ٹنل کا شور عجیب ہی سماں باندھ رہا تھا۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل