Monday, July 07, 2025
 

امریکا میں خاتمے کے 25 سال بعد خسرہ کے ریکارڈ کیسز رپورٹ

 



امریکا میں بیماری ختم ہونے کے 25 سال بعد ایک بار پھر بچوں اور بڑوں میں خسرہ کی بیماری کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا اور چھ ماہ کے دوران سب سے زیادہ کیسز و اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق خسرہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ٹیکساس کا ہے جہاں جنوری سے اب تک 750 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔ ٹیکساس کی کاؤنٹی گینز میں 400 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ یہاں پر ویکسینیشن کی شرح بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ نیو میکسیکو اور اوکلاہوما میں بھی درجنوں کیسز سامنے آئے، حکام کا خدشہ ہے کہ یہ بیماری مغربی ٹیکساس سے یہاں تک پہنچی ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے خسرہ کی وبا ختم ہونے کے اعلان کے بعد سے والدین کی طرف سے بچوں میں خسرہ کی ویکسینیشن کی شرح کم ہوگئی تھی۔ مغربی ٹیکساس میں کم ویکسینیشن اور جن علاقوں میں خسرہ کے کیسز رپورٹ ہوئے وہاں پریشان کن صورت حال ہے کیونکہ یہاں پر والدین نے بچوں کو خسرہ سے بچاؤ کے ٹیکے نہیں لگوائے اور غفلت کا مظاہرہ کیا تھا۔ محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اس سال ملک میں خسرہ کے کیسز 25 سال قبل بیماری کے خاتمے کے اعلان کے بعد سے سب سے زیادہ ہیں۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی سینٹر فار آؤٹ بریک رسپانس انوویشن کے اعداد و شمار کے مطابق، سال 2025 کے ابتدائی 6 ماہ میں امریکا میں خسرہ کےکم از کم 1,277 تصدیق شدہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ 2019 میں 1274 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال کے کیسز کی تعداد اصل سے کہی زیادہ ہونے کا امکان ہے کیونکہ متعدد کیسز رپورٹ نہیں ہوئے۔ تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ خسرہ کے باعث رواں سال کے چھ میں کے دوران تین افراد انتقال کرگئے ہیں جن میں سے ٹیکساس میں دو بچے جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی جبکہ نیو میکسیکو میں ویکسن شدہ ایک 18 سالہ شخص جاں بحق ہوا۔ واضح رہے کہ سن 2000 میں امریکا میں خسرے کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا، جس کا مطلب یہ تھا کہ ایک سال سے زائد عرصے تک مسلسل منتقلی نہیں ہوئی تھی۔ امریکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (CDC) کے مطابق، یہ حیثیت حاصل کرنا "ایک تاریخی عوامی صحت کی کامیابی" تھی، جو بڑی حد تک ویکسین کی ترقی کی وجہ سے ممکن ہوئی تاہم اب موجودہ صورت حال تشویشناک ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل