Wednesday, July 09, 2025
 

ایک مفروضہ ملاقات کے چرچے

 



 سیاست بھی عجیب کھیل ہے۔ کئی دفعہ ایسی باتیں جو ممکن نہیں ہوتیں زیر بحث آجاتی ہیں۔ سب کو معلوم ہو تا ہے کہ یہ ممکن نہیں لیکن بحث شروع ہو جاتی ہے۔ شاید جب سیاست میں حقیقی کچھ نہیں ہوتا تو لوگ مفروضوں پر سیاست کرنے لگ جاتے ہیں۔ آج کل بھی سیاست کا مندا رجحان چل رہا ہے۔ سیاست میں کچھ خاص نہیں ہو رہا۔ جمود کا شکار ہے۔ اس لیے ایسی ایسی باتیں سامنے آجاتی ہیں جن کو سوچ کر بھی حیرانی ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک بات نواز شریف اور عمران خان ملاقات کی بھی ہے۔ ویسے مجھے یہ موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیں آتی۔ لیکن پھر بھی اچھا چرچا ہے۔ سب بات کر رہے ہیں۔ میں پھر واضح کر دوں میری رائے میں اس وقت ملکی سیاست میں ایسا کوئی ماحول نہیں کہ نواز شریف چل کر اڈیالہ جائیں اور بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کریں۔ لیکن پھر بھی سب بات کر رہے ہیں تو میں نے سوچا آپ سے بھی اس پر بات کر لوں۔ پہلی بات یہ کیوں ممکن نہیں۔ سادہ بات ہے کہ سیاست مفادات کا کھیل ہے۔ لوگ اکٹھے بھی تب ہوتے ہیں جب مفادات اکٹھے ہوتے ہیں۔ جب دشمن مشترکہ ہو تب بھی اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس لیے سیاست میں اتحاد یا اکٹھا چلنے کی دو ہی شرائط ہیں۔ پہلی یا مفاد مشترکہ ہو دوسرا یا دشمن مشترکہ ہو۔ اس وقت نواز شریف اور بانی پی ٹی آئی کا نہ تو مفاد مشترکہ ہے اور نہ ہی دشمن مشترکہ ہے۔ اس لیے اتحاد کیسا ۔ ملاقات کیسی۔ بانی پی ٹی آئی اس نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف اس نظام کا تحفظ چاہتے ہیں۔ اس لیے مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ اکٹھے چلنے کا کوئی ایجنڈا ہی نہیں ہے۔ کوئی دشمن بھی مشترکہ نہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے دشمن نواز شریف کے دشمن نہیں ہیں۔ اس لیے سیاست کے سادہ اصول بھی اس ملاقات کے حق میں نہیں۔ ان کے مطابق بھی ملاقات ممکن نہیں۔ اس وقت نہ بانی پی ٹی آئی نواز شریف کو کچھ دے سکتے ہیں اور نہ ہی نواز شریف بانی پی ٹی آئی کو کچھ دے سکتے ہیں۔ اقتدار نواز شریف کے گھر میں موجود ہیں۔ اس کے لیے انھیں بانی پی ٹی آئی کی ضرورت نہیں۔ نواز شریف بھی بانی پی ٹی آئی کو کچھ نہیں دے سکتے۔ نواز شریف چاہتے ہوئے بھی بانی پی ٹی آئی کو اڈیالہ سے رہائی نہیں دے سکتے۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی نواز شریف کی سیاست کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ ان کی بیٹی اور بھائی کے اقتدار کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے۔ نواز شریف اگر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی بات کریں تو ان کا مقتدرہ سے اتحاد ٹوٹ سکتا ہے۔ اس لیے کوئی ایسی شکل نظر نہیں آتی کہ نواز شریف بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے کوئی کردار ادا کر سکیں۔ سیاست میںکوئی بھی بات ایسے ہی نہیں ہوتی۔ آپ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف جب وزیر اعظم تھے تب بھی تو بانی پی ٹی آئی سے ملنے اڈیالہ گئے تھے۔ اب کیوں نہیں جا سکتے۔ یہ درست ہے کہ نواز شریف نے ماضی میں بانی پی ٹی آئی سے ایک سیاسی ورکنگ ریلشن شپ قائم کرنے کی کوشش کی۔ ایسا انھوں نے وزیر اعظم بننے سے پہلے بھی کیا جب بانی پی ٹی آئی انتخابی مہم کے دوران گر گئے تب بھی نواز شریف ان کی خبر لینے اسپتال گئے۔ اپنی انتخابی مہم ان کے لیے ملتوی کی۔ پھر وزیر اعظم بننے کے بعد بنی گالہ گئے۔ لیکن دونوں دفعہ ایک ایجنڈا موجود تھا۔ نواز شریف کا اندازہ تھا کہ اسٹبلشمنٹ کی واحد آپشن بانی پی ٹی آئی ہے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ بانی پی ٹی آئی اسٹبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر ان کی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ وہ سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے۔ پیپلزپارٹی اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ان کے ساتھ تھی، وہ بانی پی ٹی آئی کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے۔ اس لیے بنی گالہ گئے۔ ایک ایجنڈا موجود تھا۔ لیکن آج دیکھیں یہ ملاقات کامیاب رہی یا ناکام ۔ اگر نواز شریف کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو وہ آج سوچتے ہونگے میں ایسے ہی گیا۔ جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بانی پی ٹی آئی نے جانے کی کوئی لاج نہیں رکھی۔ نواز شریف کی حکومت ختم کرنے کے لیے اسٹبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر خوب کھیل کھیلا۔ نواز شریف کو نا اہل کروایا ، مائنس کرنے کی ہر کوشش کی۔ جیل بھیجا، گندی زبان استعمال کی، ہر ظلم کیا۔ اگر نواز شریف نہ بھی جاتے تو اچھا نہ تھا۔ جانے کاکوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنا کھیل کھیلا۔اس لیے آج نواز شریف کیوں جائیں۔ ان کے پاس کیا ایجنڈا ہے۔ اور بانی پی ٹی آئی کی کیا گارنٹی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے چکر میں چوہدری نثار نے نواز لیگ سے اپنی سیاست ختم کر لی۔ نواز شریف کو بانی پی ٹی آئی کے گھر لے جانا ہی چوہدری نثار کا سب سے غلط فیصلہ تھا۔ آج بھی بانی پی ٹی آئی کی کوئی گارنٹی نہیں۔ کوئی بھی ان کی گارنٹی دینے کے لیے تیار نہیں۔ جنھوں نے ماضی میں گارنٹی دی ہے وہ عبرت کا نشان بنے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے ان کی گارنٹی کی کوئی پرواہ نہیں کی ہے۔ اب کوئی گارنٹی دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ فرض کریں نواز شریف اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان کوئی بات طے بھی ہوجائے تو بانی پی ٹی آئی اس پر قائم رہیں گے اس کی کیا گارنٹی ہے۔ گارنٹی کا مسئلہ تو اسٹبلشمنٹ کو بھی درپیش ہے۔ وہ یوٹرن کو اپنی سیاست کا کمال کہتے تھے۔ آج وہی کمال ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کیا ایسا کوئی موقع تھا جب نواز شریف اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان کوئی سیاسی معاہدہ ہو سکتا۔ میں سمجھتا ہوں ایک موقع تھا۔ جب عدم اعتماد پیش کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ نواز شریف بانی پی ٹی آئی کی مدت مکمل کرنے کے حق میں تھے۔ لیکن ان پر عدم اعتماد میں شامل ہونے کا دباؤ تھا۔ تب بانی پی ٹی آئی چاہتے تو نواز شریف سے ایک سیاسی معاہدہ کر سکتے تھے۔ بانی پی ٹی آئی لندن جا کر نواز شریف سے ملاقات کر سکتے تھے۔ لیکن اس وقت بانی پی ٹی آئی نے نہیں کیا۔ وہ جنرل باجوہ کو تا حیات ایکسٹینشن کی پیشکش کرتے رہے۔ نواز شریف سے معاہدہ نہیں کیا۔ پھر نواز شریف عدم اعتما دکے ساتھ آگئے۔ شاید وہ چند دن تھے جب نواز شریف سے بات ہو سکتی تھی۔ مستقبل کی سیاست پر بات ہو سکتی تھی۔ سیاست میں اصولوں پر بات ہو سکتی تھی۔ چارٹر آف ڈیموکریسی میں بانی پی ٹی آئی کی شمولیت پر بات ہو سکتی تھی۔ اب ممکن نہیں۔ نواز شریف اور بے نظیر کے درمیان چارٹر آف ڈیموکریسی تب ہی ہوا تھا۔ جب دشمن مشترک تھا۔ دونوں مشرف کے خلاف تھے۔ اس لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ تحریک انصاف کی سب سے بڑی ناکامی تو یہی ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں بنا سکی۔ اپوزیشن کا اتحاد بنانا سب سے آسان ہوتا ہے۔ حکومت مشترکہ دشمن ہوتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی تو مولانا کے ساتھ اتحاد نہیں بنا سکے۔ انھوں نے نواز شریف کے ساتھ کیا ملاقات کرنی ہے۔ وہ مولانا کو سیاسی راستہ نہیں دے سکے۔ انھوں نے کسی اور کیا سیاسی راستہ دینا ہے۔ اس لیے میری رائے میں نواز شریف بانی پی ٹی آئی ملاقات کا کوئی امکان نہیں۔ ایک فیصد بھی امکان نہیں۔ دونوں اب سیاسی دشمن ہیں۔ یہی حقیقت ہے۔ نواز شریف جیت کے نشہ میں ہیں۔ انھوں نے ایک کھیل میں بانی پی ٹی آئی کو شکت دے دی ہے۔بانی پی ٹی آئی اس وقت شکست کا شکار ہیں۔ ان کے پاس کچھ نہیں۔ سیاست میں جس کے پاس کچھ نہیں۔ اس کا بھی کچھ نہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل