Loading
اکیسویں صدی تاریخ کی سب سے تیز رفتار صدی ہے۔اس قدر تیز کہ اس نے ہلاکت خیزی کا تصور بھی بدل دیا ہے۔آج ہزاروں میل پرے کسی کنٹرول روم میں بیٹھ کر کسی ڈرون کے ذریعے کوئی گھر تباہ کر دینا یا انسان کو مار دینا کوئی خبر نہیں۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے مختلف ہتھیاروں اور دفاعی سسٹمز اور مخبر سیاروں کو یکجا رکھنے کا ہنر بھی کوئی خبر نہیں۔اپنی ہی سرحد میں رہتے ہوئے دشمن کے علاقے میں سیکڑوں کلو میٹر اندر تک کسی حریف کے بے خبر جہاز کو میزائل سے مار گرانا کوئی خبر نہیں۔ رفتہ رفتہ جنگیں میدانِ جنگ سے کنٹرول رومز میں منتقل ہو رہی ہیں اور کسی بندوق بردار فوجی کے بجائے کسی ٹھنڈے کمرے میں چہار جانب نصب کمپیوٹرائزڈ پینلز پر جوائے اسٹکس کو حرکت میں لانے والے عقاب صفت ٹیکنیشنز جنگ کا فیصلہ کر رہے ہیں۔غرض اس صدی کے ہر مہینے دو مہینے میں کوئی چونکا دینے والی خبر اگلی سہہ ماہی میں کسی تازہ ات رنگی سائنسی و عسکری پیش رفت کے ہاتھوں معزول ہو رہی ہے۔ شاید آپ کو یاد ہو انیس سو تراسی میں امریکی صدر رونالڈ ریگن نے سوویت میزائلوں سے بچاؤ کے لیے امریکا پر ایک جامع دفاعی چھتری تاننے کے اسٹار وار منصوبے کا اعلان کیا تھا۔اس میں ایک پروجیکٹ لیزر بطور ہتھیار استعمال کرنے کا تھا۔تب یہ منصوبہ فلمی قسم کا محسوس ہوتا تھا کیونکہ اس وقت کی ٹیکنالوجی ان خوابوں کا ساتھ دینے سے قاصر تھی لہٰذا اگلے صدر نے اس سپنے کو ملتوی کر دیا۔تب تک اسٹار وار منصوبے پر پونے دو سو ارب ڈالر خرچ ہو چکے تھے اور یہ لیبارٹری کی چار دیواری میں ہی قید تھا۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ کوئی بھی تجربہ بظاہر ناکام ہو سکتا ہے لیکن ضایع نہیں ہوتا۔ اسٹار وار منصوبے کے ذریعے اگرچہ تب شمالی امریکا کو میزائلوں سے بچانے کی مربوط چھتری تو نہ مل سکی مگر ان تجربات کے بطن سے میزائل شکن پیٹریاٹ سسٹم ، تھڈ سسٹم ، اسرائیل اور امریکا کا مشترکہ تیار کردہ آئرن ڈوم سسٹم پیدا ہوا۔اور اب ٹرمپ نے امریکا کو محفوظ رکھنے کے لیے گولڈن ڈوم منصوبے کا اعلان کیا ہے اور اسے قائم کرنے کا حتمی سال دو ہزار تیس مقرر کیا ہے۔ اس دوران روس نے میزائلی حملوں کو روکنے کے لیے ایس تھری ہنڈرڈ ، ایس فور ہنڈرڈ اور ایس فائیو ہنڈرڈ سسٹمز بنانے میں کامیابی حاصل کی اور اب چین بھی اس راستے پر تیز تر گامزن ہے۔ لیزر ہتھیار استعمال کرنے کا تصور اگرچہ بالی وڈ میں انیس سو ساٹھ کی دہائی سے فلمایا جا رہا ہے مگر اب یہ ریل سے رئیل تک آن پہنچا ہے۔لیزر روشنی کی رفتار کے برابر حرکت کرتی ہے لہٰذا ہر ملک کا خواب رہا کہ اگر اسے ہتھیار کی شکل دے دی جائے تو پھر کسی اضافی دفاعی ڈھال کی ضرورت نہ رہے گی۔دشمن کے فضائی ہتھیاروں کو نشانے پر پہنچنے سے پہلے ہی نشانہ بنایا جا سکے گا۔ مئی کے آخری ہفتے میں اسرائیل نے انکشاف کیا کہ اس نے نہ صرف لیزر ہتھیار بنا لیا ہے بلکہ پچھلے برس اکتوبر سے شمالی اسرائیل پر حزب اللہ کے ڈرون حملے روکنے کے لیے بھی آزمائشی طور پر استعمال کیا گیا اور اس کی مدد سے تقریباً چالیس ڈرون مار گرائے گئے۔اس ہتھیاری لیزر کے تجربات دو ہزار تئیس میں مکمل ہو گئے تھے۔ لیزر گن اسرائیلی محکمہ دفاع کی ایک ہائی ٹیک کمپنی رافیل ایڈوانسڈ ڈیفنس سسٹم نے تیار کی ہے۔اسی کمپنی نے آئرن ڈوم کی تشکیل میں بھی بنیادی کردار ادا کیا تھا۔رافیل کا کہنا ہے کہ اس نے شمالی اسرائیل میں دس کلو واٹ کی لیزر شعاع ( لائٹ بیم ) کا میدانِ جنگ میں کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اگر یہ دعوی درست ہے تو اسرائیل پہلا ملک بن گیا ہے جس نے لیزر کو حقیقی میدانِ جنگ میں بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔تاہم اسرائیل لیزر پر تجربات کے لحاظ سے پہلا ملک نہیں۔امریکا ، روس ، برطانیہ ، جرمنی ، چین اور جاپان میں لیزر ہتھیار سازی کے تجربات مختلف مراحل میں ہیں۔برطانیہ نے جنوری دو ہزار چوبیس میں ڈریگن فائر لیزر کے ذریعے ایک تجرباتی فضائی ابجیکٹ تباہ کیا۔مگر برطانیہ کا کہنا ہے کہ وہ پہلا لیزر ہتھیار دو ہزار ستائیس تک مارکیٹ میں لائے گا۔ گزشتہ برس ہی امریکی بحریہ نے بھی ریتھیون کمپنی کے تیارکردہ ساٹھ کلوواٹ ہائی انرجی لیزر کا تجربہ کیا۔امریکا میں تین سو کلوواٹ انرجی کی حامل ہیلسی اور ہیل کیپ لیزر کے تجربات بھی جاری ہیں۔مگر یہ طے نہیں کہ انھیں ایک ہتھیار کی شکل میں مسلح افواج کے حوالے کب کیا جائے گا۔البتہ چین کسی دن ضرور اس میدان میں دنیا کو حیرت میں ڈال سکتا ہے۔ رافیل کے سربراہ یوو ترگمین کا کہنا ہے کہ ہم نے لیزر ہتھیار کی دو مزید اقسام پر بھی تجربات مکمل کر لیے ہیں۔ایک لیزر ڈھائی سو ملی میٹر چوڑی ہے اور اس کا انرجی لیول پچاس کلوواٹ ہے۔اسے آئرن بیم کا نام دیا گیا ہے۔جب کہ ایک اور ایڈوانس شکل ’’ آئرن بیم ایم ’’ لیزر کا حجم ساڑھے چار سو ملی میٹر اور انرجی لیول سو کلوواٹ ہے۔یعنی اس سے بھاری میزائلوں کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔یوو ترگمین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کو اس برس کے آخر میں لیزر ہتھیاروں کی پہلی کھیپ فراہم کر دی جائے گی۔ یہ لیزر ہتھیار آئرن ڈوم سسٹم کی چھتری کا حصہ ہوں گے تاکہ اگر کوئی نشانہ آئرن ڈوم کے کسی سسٹم سے چوک جائے تو اسے لیزر کے نشانے پر لیا جا سکے۔آئرن بیم لیزر فضا میں دس کیلومیٹر کی اونچائی تک ہدف کو نشانہ بنا سکتی ہے۔لیزر کو سب سے بڑا چیلنج بادلوں اور آلودہ فضا سے درپیش ہے۔صاف آسمان میں یہ زیادہ کامیاب ہے۔لہٰذا فی الحال یہ ہتھیار نچلی پرواز کرنے والے اہداف کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔اسرائیل پہلی بار لیزر ہتھیار پیرس میں پچھلے دنوں منعقد ہو نے والی دفاعی نمائش میں پیش کر چکا ہے۔ لیزر ہتھیار کی تیاری ایک مہنگا عمل ہے مگر استعمال کی لاگت بہت کم ہے۔مثلاً آئرن ڈوم سے داغا جانے والا ایک راکٹ چالیس ہزار ڈالر کا پڑتا ہے۔جب کہ دشمن کے جس ڈرون کو یہ راکٹ نشانہ بنا رہا ہے اس کی قیمت ہزار ڈالر سے بھی کم ہو سکتی ہے۔اس کے علاوہ آئرن ڈوم سسٹم کو مخصوص لاجسٹک سپورٹ سسٹم بھی چاہیے۔جب کہ لیزر گن چونکہ انرجی کو لیزر میں تبدیل کرتی ہے لہٰذا اس کی لاجسٹک ضروریات ایک مخصوص ٹرک سے زیادہ نہیں۔اس کے علاوہ ایک لیزر شاٹ کی اوسط لاگت تین ڈالر تک ہے۔یعنی اس سے زیادہ جدید ، موثر اور سستا ہتھیار فی الوقت ممکن نہیں۔ اب تک دنیا میں کوئی ہتھیار ایسا نہیں بنا جس کا کوئی نہ کوئی توڑ نہ ہو۔جب چند برس میں لیزر ہتھیاروں کا کاروبار شروع ہو جائے گا تو پھر ان کا توڑ بھی دریافت ہو جائے گا۔سب گندہ ہے پر دھندا ہے یہ۔ (وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل