Tuesday, July 29, 2025
 

آئی اے میں بالادستی کی دوڑ ، ایک نئی سرد جنگ کا آغاز

 



سابق چیئرمین ڈیپارٹمنٹ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور حالیہ دنوں میں اسرائیل ایران' پاکستان انڈیا اور روس یوکرین جنگ نے جدید جنگ کا جو منظرنامہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل کی جدید جنگیں توپوں' ٹینکوں میزائلوں سے زیادہ سائبر اسپیس' آرٹیفشل انٹیلیجنس' ڈرون ٹیکنالوجی 'ہیکرز'سٹیلائٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے لڑی جائیں گی اور آرٹیفشل انٹیلیجنس کی ہر طرح کی مہارتوں پرعبور رکھنے والا دماغ ہی مستقبل کے میدان جنگ میں سب سے بڑا ہتھیار ہوگا۔ روائتی حریفوں کے مابین جنگ اور امن دونوں حالتوں میں ہائبرڈ وار فئیر تو مسلسل جاری رہتی ہے اور اب اس میدان میں اے آئی ٹیکنالوجی کے استعمال نے اسے اور بھی زیادہ تیز اور خطرناک کردیا ہے۔اسکی مدد سے ہی ممالک اپنی مرضی کا بیانیہ اور پبلک پرسیپشن بنا رہے ہیں۔ اس مقصدکے لئے ڈیپ فیک ویڈیوز، مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کا آزادانہ اور بے تحاشہ استعمال کیا جا رہا ہے۔اس کی مختلف صورتوں کا ہم نے پاک انڈیا جنگ میں مشاہدہ کیا۔ انڈین میڈیا نے حکومتی سرپرستی میں اے آئی کی مدد سے تیار کردہ ڈیپ فیک ویڈیوز اور ڈس انفارمیشن پر مبنی رپورٹس نشر کرکے بے بنیاد اور گمراہ کن بیانیہ بنانے کی کوشش کی اور یہاں تک کے ڈائریکٹر آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کی ایک ایسی اے ائی جنرییٹڈ ویڈیو بھی نشر کردی جس میں وہ پاکستان کے دو طیارے تباہ ہونے کی تصدیق کر رہے ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی ریڈیو پرنٹ میڈیا اور دیگر ذرائع کے ذریعے پراپیگنڈہ کا بھرپور استعمال کیا گیا، جبکہ کولڈ وار کے دوران امریکہ نے ’یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلکس‘ (یو ایس ایس آر) کو روس میں تبدیل کرنے'انڈیا نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے اور امریکہ برطانیہ اور یورپ نے دیوار برلن کو گرانے کیلئے پراپیگنڈے کا بھرپور استعمال کیا۔ حال ہی میں روس نے اپنے موقف کے حق میں اور چین نے تائیوان کے خلاف اسی طرح کی اے آئی جنرییٹڈ پراپیگنڈہ مہم چلائی۔ اے آئی کے استعمال نے ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے۔کیونکہ اے آئی سسٹم بہت تیزی سے کام کرتا ہے اور ہزاروں اکاونٹس گھنٹوں میں جنریٹ کر دیتا ہے۔ اس وجہ سے گمراہ کن اور درست مواد کے مابین فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے اور گمراہ کن مواد کے نتیجے میں پاکستانیوں کے خلاف برطانیہ میں پھوٹ پڑنے والے فسادات جیسے بڑے سانحات اور حادثات رونما ہوچکے ہیں۔ تاہم ڈس انفارمیشن اور فیک موادکا اے آئی کی مدد سے ہی پتہ لگایا جا سکتا ہے۔اسی طرح اے آئی کمانڈ میں چلنے والاخود مختار نیوکلئیر و میزائل سسٹم کسی بھی غلط انفر میشن کی وجہ سے گلوبل رسک اور تنازعات میں بڑھاوا لانے کا باعث بن سکتا ہے۔ دوسری طرف اے آئی میزائل ڈیفنس سسٹم کے موثر استعمال اور روبوٹس کی مدد سے لینڈزمائینز کی صفائی وغیرہ جیسے اہم کام بھی سر انجام دے رہی ہے۔ اس اہم پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ پاکستان کو آرٹیفشل انٹیلیجنس' سائبر اسپیس' ڈرون ٹیکنالوجی' سٹیلائٹ اور اس سے جڑی تمام جدید مہارتوں سے اپنے آپ کو لیس کرکے اے آئی وار کیلئے تیار رہنا چاہئے۔اور اس مقصد کیلئے ملٹری انٹیلیجنس'ائیر ڈیفینس سسٹم 'سرویلینس ڈرون سسٹم' اے آئی ماہر ڈیٹا سائنٹس کی تیاری پر بجٹ صرف کرنا چاہئے۔کیونکہ اب یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اے آئی دوران جنگ وامن دفاع کی تمام جہتوں میں انقلابی تبدیلیاں برپا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مربوط دفاعی نظام ترتیب دینے اور اسے بہتر بنانے اور فیصلہ سازی کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں بہت اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔ جنگوں میں مصنوعی ذہانت کی حامل ٹیکنالوجی کا کردار تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ملٹری آپریشنز میں مصنوعی ذہانت کے استعمال سے فیصلہ سازی کی رفتار‘ قابلیت اور سٹریٹجک ڈیٹا کے فوائد میں اضافہ ہوا ہے۔ روائتی جنگ اور ٹیکنالوجی وار فیئر میں اے آئی ٹیکنالوجیز‘ خودمختار ہتھیاروں کا نظام‘ ٹارگٹ ٹریکنگ‘ ایئر سٹرائیک انٹیلی جنس‘ خود کار زمینی گاڑیاں‘ جاسوس روبوٹ سپاہی‘ AI powered weaponry‘ جو انسانی آنکھ کے برعکس آزادانہ طور پر ٹارگٹ سلیکٹ کرتا ہے اور AI driven cyber warfare ان حملوں کو زیادہ پیچیدہ اور خطرناک بنا سکتی ہے۔ اس سے دشمن کے ڈیٹا سسٹمز‘ مواصلاتی نیٹ ورک اور دیگر انفراسٹرکچر کو باآسانی ہدف بنایا جا سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت جنگی منصوبہ بندی میں مدد دے سکتی ہے جیسے دشمن کی حرکات کی نگرانی کرنا‘ جنگی میدان کا تجزیہ کرنا اور فوجی وسائل کو موثر طریقے سے استعمال کرنا۔ اے آئی سے چلنے والے روبوٹ خطرناک کاموں میں مدد فراہم کرتے ہیں جیسے بموں کو ناکارہ بنانا یا شہری جنگ میں حصہ لینا۔ اے آئی حقیقت پسندانہ جعلی مواد تخلیق کرتی ہے تاکہ پروپیگنڈا پھیلایا جا سکے یا دشمن کی صفوں میں انتشار و ابہام پیدا کیا جا سکے۔ اے آئی عوامی اور سوشل میڈیا کے جذبات کی نگرانی کرتی ہے تاکہ جنگ کے دوران عوامی رائے عامہ کا اندازہ لگایا اور اس پر اثر انداز ہوا جا سکے۔ مصنوعی ذہانت کی ملٹری ایپلی کیشنز‘ خاص طور پر آگمنٹیڈ رئیلٹی اور ورچوئل رئیلٹی نے جنگی نقالی کے ذریعے دفاعی حکمت عملیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔اسی طرح اے آئی ٹیکنالوجی سے لیس ڈرونز یا روبوٹ کے گروپ ایک واحد یونٹ کی طرح ہم آہنگ ہو کر دشمن پر قابو پانے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ مستقبل کے اے آئی نظام کوانٹم کمپیوٹنگ کا استعمال کر سکتے ہیں تاکہ پیچیدہ مسائل کو بھی باآسانی حل کیا جا سکے جس سے فوجی صلاحیتیں بڑھ جائیں گی۔ اے آئی ٹیکنالوجیز کو غیرمہلک مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے جیسے سویلین علاقوں کی نگرانی یا تنازعات کے دوران قدرتی آفات میں امداد فراہم کرنا۔ ریئل ٹائم ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے میدانِ جنگ کے مختلف منظرناموں کے ماڈل بنانے کیلئے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے سسٹمز اور سافٹ ویئر کو تربیت اور نقلی شکلوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے فوجیوں کو جنگی حکمت عملی کی بہتر تفہیم حاصل کرنے اور مختلف ٹیکنالوجیز سے خود کو واقف کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اگرچہ اے آئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے سٹریٹجک فوائد حاصل ہوتے ہیں لیکن اسکے استعمال پر کئی اخلاقی سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے مزید ترقی سے اے آئی ٹیکنالوجی سے چلنے والے ہتھیاروں کی ایک دوڑ شروع ہونے کا امکان ہے جس سے عالمی تعلقات مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔اے آئی کے ماہرین کے مطابق مصنوعی ذہانت کے سات فریم ورک ہیں جو مختلف مسائل کو حل کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے نظاموں کی درجہ بندی کرتے ہیں۔ یہ پیٹرنز وضاحت کرتے ہیں کہ اے آئی کس طرح ترتیب دی جا سکتی ہے اور مختلف قسم کے مسائل کو حل کرنے میں کیسے استعمال کی جا سکتی ہے۔ان پیٹرنز کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ 1 ۔ ہائپرپرسنلائزیشن مواد یعنی تجاویز کو انفرادی سطح پر حسبِ ضرورت استعمال کے قابل بنانا۔  2۔ پہچان کا نظام‘ یعنی ڈیٹا میں پیٹرنز‘ اشیا یا عناصر کی شناخت کرنا 3۔ مکالماتی اور انسانی رابطے کا نظام۔ یعنی مشینوں اور انسانوں کے درمیان قدرتی رابطے کو ممکن بنانا 4۔ پیشگوئی تجزیہ اور فیصلہ سازی میں مدد۔ یعنی ماضی کے ڈیٹا اور پیٹرنز کا استعمال کرتے ہوئے نتائج کی پیشگوئی کرنا یا فیصلہ سازی میں مدد فراہم کرنا۔  5۔ مقصد پر مبنی نظام یعنی مخصوص اہداف کو حاصل کرنے یا بہتر بنانے کیلئے ڈیزائن کیے گئے نظام۔  6۔ بے ضابطگیوں کی نشاندہی۔ یعنی ڈیٹا میں غیر معمولی پیٹرنز یا رویوں کی شناخت جو معمول سے ہٹ کر ہوں۔ 7۔ خود مختار نظام جو بغیر انسانی مداخلت کے خود مختاری سے فیصلے کریں اور ان پر عمل کریں۔ یہ ہر پیٹرن اے آئی کے مختلف پہلووں کو استعمال کرتا ہے اور یہ پیٹرنز حقیقی دنیا میں اکثر ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کام کرتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت نے جنگ کے طریقوں میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کی ہے۔ اس نے صرف دفاع اور حملہ کرنے کی حکمت عملیوں کو ہی نہیں بدلا بلکہ جنگوں کے طریقے‘ اخلاقیات اور عالمی سیاست پر بھی منفی و مثبت اثرات مرتب کیے ہیں، اور اس حوالے سے کافی سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ اس کے سب سے زیادہ خطرناک پہلووں میں سے ایک ڈیپ فیک ہے۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والی کرپٹو گرافی اور سائبر سکیورٹی ایپلی کیشنز کے ساتھ مل کر ہیرا پھیری کا امکان بڑھتا ہے جس سے عالمی سلامتی اور معلومات کی سالمیت کیلئے بے شمار چیلنجز پیدا ہوتے ہیں۔ خود کار طریقے سے چلنے والے ہتھیار اور فیصلہ سازی کے نظام یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب اے آئی خود حساس دفاعی فیصلے کرے گا تو جوابدہ کون ہوگا؟ اس صورتحال میں اپنے مخالف سے بہتر انٹیلیجینس حاصل کرنے یا مخالف کے آرٹیفشل انٹیلیجنس کے نظام کو گمراہ کرنے والے ممالک کو برتری حاصل ہو سکتی ہے۔ اے آئی نظام ڈیٹا کو غلط سمجھ سکتے ہیں یا نامکمل معلومات پر کارروائی کر سکتے ہیں۔ جس سے کسی انسانی مداخلت کے بغیر یہ تنازع تیزی سے بڑھ سکتا ہے۔ اے آئی صرف ایک ٹول نہیں بلکہ جنگی نظریات کو دوبارہ ترتیب دینے والا عنصر بھی ہے۔ مہلک ہتھیار وں میں اے آئی کا استعمال اخلاقی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ چنانچہ اس کے اخلاقی‘ سٹریٹجک اور آپریشنل چیلنجز کو فوری طور پر حل کرنا ضروری ہے تاکہ اس کے تباہ کن استعمال سے بچا جا سکے۔ اس کے فوائد کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ خطرات کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کلیدی کردار ادا کرے گا۔ جیسے جیسے ہم مصنوعی ذہانت کی گہرائی میں جاتے ہیں‘ اس کے زیادہ سنگین خطرات اور نتائج سامنے نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔  اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترقی یافتہ ممالک اے آئی کی بالا دستی کی مسابقت کی دوڑ کی وجہ سے ایک نئی قسم کی سرد جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں؟ اس سے بین الاقوامی برادری کے مزید تقسیم ہونے کا خطرہ ہے۔مختلف ممالک کے فورمز پر اے آئی کے ان چیلیجز کو زیر بحث لاکر باہمی تعاون کے فریم ورک بنانے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ جو تکنیکی جدت کے ساتھ ساتھ اخلاقی تحفظات کو بھی ترجیح دینے کے پر توجہ دے۔ اے آئی کی ترقی ایک نئی اسلحہ دوڑ کو جنم دے سکتی ہے جو عالمی امن کیلئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ اے آئی ٹیکنالوجی دہشت گردوں یا غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں میں جا سکتی ہے جس سے عالمی سلامتی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اسرائیل غزہ میں مصنوعی ذہانت کی حامل فوجی ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہے جس سے جدید جنگ میں خود مختار ہتھیاروں کے استعمال کے خدشات بڑھ گئے ہیں غزہ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے باعث ہیومن رائٹس واچ کی ہتھیاروں کی ماہر میری ویرہم نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہتھیاروں میں نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کے باعث شہریوں کی بہت زیادہ ہلاکتوں کی وجہ سے دفاعی ٹیکنالوجی کی نئی شکلوں کے استعمال کی بہت زیادہ نگرانی کی ضرورت ہے۔ پاکستان سمیت 150 ممالک نے دسمبر 2024 میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کی حمایت کی جس میں نئی فوجی ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں میں سنگین چیلینجز' خدشات اور بلخصوص جنگی ہتھیاروں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کی نشاندھی کی گئی ہے. لہذا اے ائی کے مثبت اور منفی پہلووں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ٹیکنالوجی کے متعلق خطرات سے بچاؤ اور مثبت استعمال کیلئے اقوام متحدہ کی سطح پر فوری ضابطے بنانا اور ان پر عملدرآمد کرانا ضروری ہے تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ انسانیت کے فائدے کیلئے استعمال میں لاتے ہوئے بوتل سے باہر آنے والے اے آئی کے اس جن کو قابو میں لایا جا سکے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل