Loading
وفاقی حکومت نے جولائی کیلیے افراطِ زر کی شرح 3.5 سے 4.5 فیصدکے درمیان رہنے کی پیشگوئی کی ہے، جس کے بعد مرکزی بینک پر دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ شرح سود کو سنگل ڈیجٹ تک کم کرے۔ وزارتِ خزانہ کی معاشی مشاورتی ونگ کی جاری ماہانہ رپورٹ کے مطابق اگرچہ حالیہ شدید بارشوں کے باعث زرعی پیداوار اور سپلائی چینز متاثر ہو سکتی ہیں، تاہم افراط زر مجموعی طور پر قابو میں رہے گا۔ یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی ہے جب شرح سودکے تعین کیلیے اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس 30 جولائی کو متوقع ہے، تاہم مارکیٹ میں صرف 0.5 سے 1 فیصدکمی کی امیدکی جا رہی ہے، جو ماہرین کے مطابق ناکافی ہے۔ نئے معاشی تھنک ٹینک "ایکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ (EPBD)" نے اسٹیٹ بینک سے مطالبہ کیا ہے کہ شرح سود کو 6 فیصد تک لایا جائے تاکہ صنعتوں کو مسابقتی مالیاتی ماحول میسر آ سکے، معاشی تھنک ٹینک کے مطابق پاکستان کی 7.8 فیصد حقیقی شرح سود بھارت کی 3.4 فیصد اور چین کی 1.4 فیصد کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے، جس سے سرمایہ کاری اور صنعتی ترقی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2026 کے آغاز میں معیشت کی بحالی جاری رہے گی، جسے بہتر بنیادی اشاریے اور بڑھتے ہوئے سرمایہ کار اعتمادکی بدولت سہارا ملے گا۔ صنعتی پیداوار، خاص طور پر بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ، پرائیویٹ سیکٹر کریڈٹ کی بڑھتی ہوئی دستیابی کی وجہ سے بہتر رہے گی، تاہم 11 فیصد شرح سودکے باعث کاروباری طبقہ وسعت کیلیے تیار نہیں۔ معاشی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ بلند شرح سودکاروباری منافع، روزگار اور برآمدات کو شدید متاثر کر رہی ہے اور حکومت کے ٹیکس محصولات کے اہداف بھی ناقابل حصول بنتے جا رہے ہیں، پاکستان میں 22 فیصد بے روزگاری کی بڑی وجہ یہی ہے کہ کاروبار مہنگی فنانسنگ کے باعث پھیل نہیں سکتے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق گزشتہ ماہ افراط زر 3.2 فیصد تک آ گیا ہے، جو اشیائے خورد و نوش اور توانائی کی قیمتوں میں نمایاں کمی کا نتیجہ ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ مالی استحکام، زر مبادلہ کی شرح میں استحکام اور بہتر طلب و رسد کی صورتحال برآمدات، ترسیلات زر اور درآمدات میں اضافے کا باعث بنے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر شرح سود 6 فیصد تک کم کی جائے تو یہ صنعتوں کو سستا سرمایہ فراہم کرے گا، روزگارکے مواقع بڑھیں گے، برآمدات میں اضافہ ہوگا اور حکومت کو سالانہ 3 کھرب روپے تک کا مالیاتی ریلیف ملے گا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل